سیاست کا چسکا اور جائیداد سے محرومی – عبدالقادر حسن

Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

خبر شایع ہوئی ہے کہ ہمارے متوقع وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر ووٹرز کا شکریہ ادا کرنے اپنے حلقے میں پہنچے تو ان کا والہانہ استقبال کیا گیا، ان کے حامیوں نے انھیں گھوڑے پر بٹھایا اور جیت کی خوشی میں شور وغوغا کی وجہ سے گھوڑا بدک گیا اور سوار اسد عمر گھوڑے سے گر کر زخمی ہو گئے۔

اسلام آباد کا مضافاتی پہاڑی علاقہ بھی اسدعمر کے حلقے میں شامل ہے، پہاڑی علاقوں میں گھوڑے سواری کے لیے استعمال ہوتے ہیں یا پھر شادی کے موقع پر بارات پر دلہا دلہن کے گھر گھوڑے پر سوار ہو کر پہنچتا ہے لیکن شادی کے موقع پر جس گھوڑے پر دلہا سوار ہوتا ہے وہ شور شرابے کا عادی ہوتا ہے کیونکہ بارات کے موقع پر جب ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے جاتے تو سدھایا ہوا گھوڑا چپ چاپ کھڑا رہتا ہے اور بخیرو عافیت اپنے اوپر سوار دلہا کو دلہن کے گھر پہنچاتا ہے یہ بات بعد کی ہے کہ شادی کے بعد اس سوار کے ساتھ کیا بیتتی ہے ۔

بڈھاری گاؤں کے لوگوں نے جس گھوڑے پر اسد عمر کو سوار کرایا اس کی شاید یہ مرضی نہیں تھی کہ ایک منتخب سیاستدان اس پر سواری کرے کیونکہ وہ شاید ہارس ٹریڈنگ کے متعلق جانتا تھا اور اس کے گاؤں کے ووٹرز نے جس شان سے اسد عمر کو اسمبلی میں پہنچایا تھا اس نے اتنی ہی بے دردی کے ساتھ ان کو زمین پر پٹخ دیا ۔ووٹرز شاید یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ چونکہ آج کل گھوڑوں کی خریدو فروخت کا بہت چرچا ہے اور اسد عمر صاحب کی پارٹی کے جہانگیر ترین ملک کے کونے کونے میں گھوم پھر کر آزاد ارکان کو تحریک انصاف میں شمولیت یا حمایت کے لیے آمادہ کر رہے ہیں، یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ اسد عمر کے ووٹرز یہ سمجھ بیٹھے ہوں ان کو آج کل گھڑ سواری کی عادی پڑ چکی ہے اس لیے انھوں نے بے دھڑک ہو کر اسد عمر کو گھوڑے پر سوار کرا دیا جو کہ ان کے گرنے پر منتج ہوا۔

مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ ان کو گھڑسواری آتی ہے یا نہیں لیکن میں ان کے بارے میں غائبانہ طور پر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ وہ شریف آدمی ہیں اور سیاست ان کے بس کا روگ نہیں، معصومیت میںوہ کچھ بھی کہہ جاتے ہیں جس کی سیاست میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔وہ دوسری دفعہ اسمبلی میں پہنچے ہیں ان کو اب تک سیاست کی شد بد آجانی چاہیے ورنہ سیاست کے گھوڑے ان کو سیاسی میدان میں گراتے ہی رہیں گے۔ جو خبریں آرہی ہیں ان کو ملک کی اہم ترین وزارت کا ذمے دار بنایا جا رہا ہے جو کہ ان کی صلاحیتوں کا امتحان ہوگا۔

ویسے بھی عمران خان کی ٹیم میں حکومتی معاملات سے شد بد رکھنے والوں کی خاصی کمی ہے اور چند ایک کو چھوڑ کر سب کھلاڑی ہی ہیں۔ یہ عمران خان کا بھی امتحان ہے کہ وہ ملک کی باگ ڈور سنبھالتے ہی کن لوگوں کے ساتھ ملکی معیشت کو سہارا اور ترقی کے خوابوں کی تعبیر دیکھیں گے، ابھی تک انھوں نے الیکشن میں کامیابی کے بعد جس بردباری کا مظاہرہ کیا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے کیونکہ عمران خان جذباتی واقع ہوئے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے بہت کہہ جاتے ہیں جس کا انھیں بعد میں بہت نقصان ہوتا ہے لیکن آج کل وہ خاموش ہیں ان کی خاموشی یہ پیغام دے رہی ہے کہ وہ ملکی معاملات میں سنجیدہ ہیں۔ انھوں نے ابھی تک جو بھی لفظ منہ سے نکالا ہے انتہائی سوچ سمجھ کے نکالا ہے ان کے رفقاء کار میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جن کو وہ کبھی کبھار ملتے ہیں لیکن اگر وہ ان کوباقاعدگی کے ساتھ ملنا شروع کر دیں اور ان کے مشوروں سے اپنی تقریروں کی نوک پلک سنواریں تو ہمارے متوقع وزیر اعظم کے لیے یہ اضافی مدد ہوگی جو کہ میرے خیال میں ان کو بغیر کسی معاوضے کے حاصل ہو گی۔

گھوڑوں کے بدکنے سے شروع ہونے والی بات گھوڑوں کی تجارت کی طرف نکل گئی اور یہ اصطلاح ہمارے سیاسی میدان میں عام اصطلاح ہے اور ہر الیکشن کے بعد اس کا استعمال کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتا ہے ۔ ہمارے سیاستدانوں کو گھوڑوں سے تشبیہ دے کر ان کی تذلیل کرنے کی بھونڈی حرکت کا آغاز آج سے بہت پہلے ہوا جب سیاست میں روپیہ پیسہ کا عمل دخل شروع ہوا ورنہ اس سے پہلے تو کئی نامور سیاستدان اپنی جائیدادیں بیچ بیچ کر سیاست پر لگا کر چلے گئے اور ان سب کو ہم تو جانتے ہیں لیکن ہماری نئی نسل شاید نہیں جانتی کہ سیاست کے نواب زادہ نصر اللہ خان اور میاں ممتاز دولتانہ سمیت کئی ایسے سیاستدان گزرے ہیں جو اپنی سیاست کے شوق میں اپنی جدی پشتی جائیداد سے اپنے خاندان کو محروم کر گئے لیکن بڑی شان سے سیاست کے میدان میں زندہ رہے اور ڈٹ کر ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کیا کیونکہ وہ کسی کے احسان مند نہیں تھے بلکہ اپنے پلے سے ساری عمر سیاست کرتے رہے ۔

جب سے سیاست میں حکومت کے حصول کے لیے اسمبلی ممبران کی تعداد پوری کرنے کے لیے اپنے تعلقات اور رکھ رکھاؤ کا خاتمہ ہوا اس کی جگہ مال و دولت نے لے لی اور ہمارے سیاستدانوں نے فی الفور اس کو اپنا بھی لیا کیونکہ وہ زر کثیر خرچ کر کے اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں اور اگر کمائی کا کوئی ذریعہ نہ ہو تو کروڑوں کی سرمایہ کاری ضایع ہونے کا خدشہ ہوتا ہے جو کہ آج کل کے سیاست دان برادشت نہیں کر سکتے اس لیے وہ کسی نہ کسی ایسے ذریعے کو ترجیح دیتے ہیں جس سے ان کی شنوائی ہو جائے۔

ایسی کئی مثالیں ہمارے ارد گرد بکھری پڑی ہیں ہم میں سے ہی کئی ایک ایسے بھی ہیں جو کہ بڑی بڑی گاڑیوں میں فراٹے بھرتے ہمارے سامنے سے گزر جاتے ہیں لیکن اپنے پرانے ساتھیوں پر ایک غائبانہ نظر بھی ڈالنا پسند نہیں کرتے۔ یہ سب گھوڑوںکی تجارت کا کمال ہے اس کی شروعات وہی کر سکتا تھا جس کے پاس مال کی فراوانی ہو اور اقتدار کی خواہش بھی ہو۔ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے ہماری سیاست میں پیسہ بھی چلا اور خوب چلا اور ہر ایک نے اپنی جھولی بھر لی جس کسی کے نصیب میں جتنا تھا اتنا اس کو مل گیا۔ یہ سیاستدان اپنی فروخت شدہ جائیدادوں کو یاد کرتے اور آہیں بھرتے ہیں ۔ نوابزادہ نصراللہ خان تو ساہیوال کے قریب سے بھی نہیں گزرتے تھے کہ یہ خطہ ان کی جائیدادوں کا پرانا گھر ہے ۔ کچھ ایسا ہی حال کئی دوسرے سیاستدانوں کا بھی ہے جو اپنی موروثی جائیدادیں نئے مالکوں کے پاس دیکھ کر تڑپ جاتے ہیں۔

Comments are closed.