شکست و فتح کے سب فیصلے ہوئے کہیں اور؟ – عطا ء الحق قاسمی

یہ کالم الیکشن والے دن تاخیر سے موصول ہوا تھا مگر تاخیر کی وجہ سے آج پیش خدمت ہے۔
میں نے پہلے سوچا کہ آج کالم نہ ہی لکھوں کیونکہ صبح انتخابات کے نتائج اور پوری تفصیل اخبارات میں شائع ہوئی ہو گی اور یوں میرا کالم ’’ضائع‘‘ ہو جائے گا، مگر پھر میں نے سوچا کہ آج صبح گیارہ بجے تک ای ایم ای سوسائٹی لاہور میں پولنگ کا آنکھوں دیکھا حال تو بیان کروں۔ یہاں پولنگ ایک اسکول میں ہو رہی تھی جو ایک پرائیویٹ مہنگا اسکول ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ یہاں کچھ باتیں بہت اچھی لگیں مثلاً سینئرز کو ووٹ ڈالنے کے لئے بہت سہولت فراہم کی گئی تھی۔ انہیں قطار میں لگنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور اگر کوئی سینئر ووٹر کار میں ہوتا تو اس کے لئے اسکول کا مین گیٹ کھول دیا جاتا اور اسے پورے سکون اور احترام سے حق رائے دہی کا موقع دیا جاتا۔
مجھے سب سے اچھی بات یہ لگی کہ ایک تو ووٹرز ناشتہ کرتے ہی پولنگ اسٹیشن پہنچ گئے تھے اور دوسری بلکہ اصل حیرت انگیز بات یہ تھی کہ خواتین کی تعداد مرد ووٹروں سے کم سے کم دوگنا زیادہ تھی۔ تیسری اہم بات یہ کہ اس بار میں نے کسی جماعت کے ووٹر کو اپنی پارٹی کی شرٹ، کیپ یا بیج لگائے نہ دیکھا، چنانچہ یہ اندازہ لگانا ممکن نہیں تھا کہ کس پارٹی کو زیادہ ووٹ پڑ رہے ہیں۔ اس کا اندازہ چار بجے کے بعد ہی ہو سکے گا لیکن

خوش آئند بات یہ ہے کہ سب جماعتوں کے لوگ بہت بڑی تعداد میں ووٹنگ کے لئے نکلے ہیں۔ میرے خیال میں اس کا کریڈٹ ہمارے میڈیا اور سوشل میڈیا کو جاتا ہے جنہوں نے بحث مباحثوں اور اپنی اپنی جماعتوں کی بہتری اور برتری کی مہم پورے زور و شور سے چلائی جس سے رائے دہندگان کے دلوں میں اپنے ووٹ کی اہمیت کا احساس پیدا ہوا اور یہ خطرہ کہ کہیں ان کی ’’غیر حاضری‘‘ سے ان کی جماعت ہار نہ جائے۔ ایک اور بات جو میں نے محسوس کی وہ یہ تھی کہ ووٹروں کے ایک دوسرے کے ساتھ رویے اور برتائو سے یہ اندازہ لگانا ممکن نہیں تھا کہ اس کا تعلق آپ کی پارٹی سے ہے یا آپ کی مخالف پارٹی سے۔ سب ایک دوسرے سے بیگانوں کی طرح مل رہے تھے اور اپنے ووٹ کی حفاظت دل میں ہی کر رہے تھے۔
جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا میں ووٹ ڈال کر آ چکا ہوں، اب کالم لکھ کر لنچ کروں گا اور بیٹے کے ساتھ شہر کے مختلف حصوں کا جائزہ لے کر پھر ہی کوئی رائے قائم کرنے کے قابل ہو سکوں گا۔ فی الحال تشویشناک بات یہ ہے کہ میڈیا کے ایک بڑے حصے نے بلکہ آج بھی سلیم صافی کے کالم میں الیکشن سے پہلے کی دھاندلیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ انتخابات میں روایتی قوتوں کا کبھی کوئی کردار نہیں رہا تو یہ بات شاید حقیقت کے منافی ہو گی۔ اس دفعہ فرق یہ ہے کہ ان قوتوں نے ایک جماعت کو جتوانے کے لئے انتخابات سے پہلے کھل کر اپنا کردار ادا کیا جبکہ یہ کام پہلے پردہ داری سے کیا جاتا تھا مگر اس دفعہ ایک پنجابی محاورے کے مطابق انہوں نے ’’لوہی لا‘‘ دی،کسی پردہ داری کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ اوپر سے نگران حکومت نے جو کردار ادا کیا، اُس سے کیسے کیسے ’’معزز‘‘ نگران بے نقاب ہو کر سامنے آگئے۔ ان کی وجہ سے نجم سیٹھی بہت یاد آیا جن کی نگرانی میں 2013کے انتخابات کے شفاف ہونے کی گواہی غیر ملکی میڈیا نے بھی دی تھی۔
مجھے امریکہ سے میرے صحافی دوست آفاق خیالی جو ’’پاکستان پوسٹ‘‘ کے ایڈیٹر ہیں، نے کے پی کا ایک ویڈیو کلپ بھیجا ہے جہاں ایک ووٹر پولنگ اسٹیشن کے باہر کھڑا چلا رہا ہے کہ ان کی جماعت کے لوگوں کو اندر نہیں جانے دیا جا رہا۔ اللہ جانے صورت حال کیا ہے لیکن ایک انتہائی افسوسناک صورت حال جو ابھی سامنے آئی ہے، وہ کوئٹہ میں خودکش دھماکہ اور الیکشن کمپین ختم ہونے کے کئی گھنٹے بعد بھی بعض سیاسی رہنمائوں نے ٹی وی چینلز سے میڈیا ٹاک کی جو کہ الیکشن کمیشن کے بنائے ہوئے اصول و ضوابط کی سراسر خلاف ورزی تھی، الیکشن کمیشن نے ان رہنمائوں کو اس خلاف ورزی پر صرف نوٹس بھیجے ہیں۔
اب میں لنچ کر کے نکلنے لگا ہوں اور دیکھنا چاہوں گا کہ لاڈلے کے تمام لاڈ پیار اور مسلم لیگ (ن) کی جیت میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے باوجود شہر کی صورت حال کیا ہے۔ بس جاتے جاتے آخر میں افتخار عارف کا ایک شعر سنتے جایئے؎
شکست و فتح کے سب فیصلے ہوئے کہیں اور
مثالِ مالِ غنیمت لٹا دیئے گئے ہم لوگ
پس نوشت:مگر سب چالوں کے باوجود بازی الٹ بھی سکتی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

Comments are closed.