کار یا کارِ بے معنی – عطا ء الحق قاسمی

ایک وقت تھا کہ میں سڑکوں پر پیدل پھرا کرتا تھا۔مگر میں نےاب پیدل چلنا چھوڑ دیا۔ اس کی چندوجوہ تھیں۔ جن میں سے سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ کیڑے مکوڑے میرے پائوں کے نیچے آ کر کچلے جاتے تھے جو مجھ ایسے رحم دل انسان کو گوارہ نہ تھا دوسرے یہ کہ پیدل چلنے والوں کو بھی ہمارے ہاں کیڑہ مکوڑہ ہی سمجھا جاتا ہے اور مجھ ایسے منصف مزاج شخص کو یہ بات اچھی نہ لگتی تھی کہ مجھے کیڑوں مکوڑوں کے ہم پلہ قرار د ے کر اس معصوم مخلوق کی دل شکنی کی جائے۔ چنانچہ میں نے جیسے تیسے ایک سائیکل خرید لی مگر سائیکل کے ضمن میں ایک پرابلم یہ تھا کہ چلتے چلتے اس کے کتے فیل ہو جاتے تھے عام حالات میں اگر کتے فیل ہو جائیں تو چنداں فرق نہیں پڑتا لیکن اگر کتے پیچھے لگے ہوں تو سائیکل کے کتوں کے فیل ہونے کا مطلب اصلی کتوں کا پاس ہونا ہے ۔ چنانچہ میں نے تنگ آ کر موٹر سائیکل خرید لی۔ موٹر سائیکل میں یوں تو بہت سی خوبیاں ہیں لیکن ایک برائی بھی ہے کہ جتنی قوت اس کے ایکسیلیٹر میں ہے اتنی اس کی بریکوں یا پہیوں میں نہیں چنانچہ قوت کے اس غیر منصفانہ نظام کی وجہ سے کئی بار موٹر سائیکل کا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور یوں راہ گیروں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع ملتا رہا جب کہ میں اس دنیا میں کسی کو ہنستے نہیں دیکھ سکتا۔ چنانچہ میں نے موٹر سائیکل بھی بیچ دی اور اس کی جگہ

کار خرید لی۔ کار کے’’ فضائل ‘‘تو بعد میں بیان کرونگا پہلے موٹر سائیکل کے بارے میں کچھ باتیں اور کر لوں مثلاً یہ کہ میں کسی بڑے صاحب سے ملنے اس کے بنگلے پر جاتا تھا تو وہ مجھے معزز شخص سمجھ کر میری آئو بھگت کرتا، چائے پلاتا اور پھر اپنے ملازم کو بلا کر کہتا کہ باہر ان کے ڈرائیور کے لئے بھی چائے لے جائو بس یہ موقع ایسا تھا کہ میرے ہاتھ پائوں پھول جاتے مگر میں اپنے حواس پر قابو پا کر بمشکل اسے اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہوتا کہ حکیم نے ڈرائیور کو چائے سے منع کر رکھا ہے ، لہٰذا یہ زحمت نہ کریں۔تاہم اصل مسئلہ اس وقت پیش آتا جب وقت رخصت یہ صاحب اصرار کرتے کہ میں آپ کو کار تک چھو ڑ کر آئوں گا۔اور آگے کار کی بجائے موٹر سائیکل اپنا بھاڑ سا منہ کھولے کھڑی ہوتی۔ یہ موٹر سائیکل ایک کک میں اسٹارٹ ہو جاتی تو بھی شرمندگی کا وقفہ کم ہو سکتا تھا مگر اس بدبخت کو تو دھکے دینا پڑتے تھے ان سب مراحل سے گزرنے کے بعد صاحب لوگوں کی نظروں میں میری جو عزت رہ جاتی اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔
بس صاحب لوگوں کی نظروں میں اپنی عزت برقرار رکھنے کے لئے مجھے کار خریدنا پڑی اوربحمدللہ اب میں صاحب عزت ہوں یا نہ ہوں صاحب کار ضرور ہوں۔ اور اب سچی بات یہ ہے کہ جتنی خوشی مجھے کار خرید کر ہوئی اس کا مجھے پہلے سے اندازہ ہی نہیں تھا۔ سائیکل یا موٹر سائیکل پر بیٹھتا تھا تو مجھے کتوں سے بہت ڈر لگتا تھا ، چنانچہ میں انہیں دیکھ کر ادھر ادھر ہو جاتا تھااب کتے مجھے دیکھ کر ادھر ادھر ہو جاتے ہیں۔ کار خریدنے کے بعد سے ایک عجیب طرح کا اعتماد مجھ میں پیدا ہو ا ہے پہلے میں ہر راہ پر چلتے شخص کو سلام کیا کرتا تھا۔ اب میں انہیں سلام کا موقع دینے کے لئے انتظار کرتا ہوں اور پھر جواب میں صرف گردن ہلا دیتا ہوں۔کہ بس ٹھیک ہے سلام وصول پایا ۔بلکہ اب تو میری خود اعتمادی کا یہ عالم ہے کہ سڑک پر خواہ کتنا ہی رش ہو اور مجھے رکنے کے لئے لال پیلے کتنے ہی سگنلز کیوں نہ لگے ہوں میں ان سب کو کراس کرتے ہوئے گزرتا چلا جاتا ہوں کہ جانتا ہوں یہ قوانین کن لوگوں کے لئے ہوتے ہیں جن دنوں میرے پاس سائیکل یا موٹر سائیکل ہوتی تھی۔ بارش کے دوران مجھ پر دیوانگی کی سی کیفیت طاری ہو جاتی تھی ۔ کیونکہ کاروں میں بیٹھے ہوئے لوگ مجھ پر سڑکوں کا کھڑا پانی اچھالتے گزر جاتے تھے ۔ حالانکہ اب میں سوچتا ہوں تو مجھے ان کی یہ حرکت بہت معصوم سی لگتی ہے۔ چنانچہ بارش کے دوران میں بطور خاص گھر سے نکلتا ہوں اور اپنی یہ معصوم سی خواہش پوری کرتا ہوں بعض معلمین اخلاق اپنے کالموں میں اکثر یہ بات دہراتے ہیں کہ اگر کار میں بیٹھے لوگ بس اسٹاپوں پر کھڑے لوگوں کو اپنی کاروں میں لفٹ دینے کے سلسلے کا آغاز کر یں تو اس سے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے میرے نزدیک یہ بات ٹھیک نہیں کیونکہ اس سے کئی اور مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ خود میں نے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل کرنے کی نیت سے بس اسٹاپوں پر کھڑے کچھ لوگوں کو لفٹ دینے کی کوشش کی مگر الٹا کچھ معلمین اخلاق مجھے مارنے کو دوڑے اس کے بعد میں نے اس نوع کے سماجی کاموں میں دلچسپی لینا ہی چھوڑ دی۔
کار کی خریداری کے بعد سے اب تک کے دلی تاثرات تو میں نے لگی لپٹی رکھے بغیر بیان کر دئیے ہیں تاہم کچھ باتوں کے بیان میں ہچکچاہٹ سی محسوس ہو رہی ہے۔اور یہ باتیں دراصل وہ خواہشات ہیں جو ان دنوں میرے دل میں پیدا ہو رہی ہیں مثلاً سڑک پر جاتے ہوئے کاروں کے ہجوم کو وارڈن اپنی جگہ سے نہ ہلنے کا حکم دیتا ہے ۔ اور پھر کاروں کا ایک قافلہ سائرن کے شور میں زن سے گزرنا شروع ہو جاتا ہے بس یہی وہ موقع ہے جب مجھے سائیکل کا زمانہ یاد آ جاتا ہے اور جب خود پرکوئی کیڑا مکوڑا ہونے کا گمان گزرتا تھا ۔ انسان اگر صاحب اقتدار نہ ہو تو کار ایک کارِبے معنی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی!

Comments are closed.