’’اللہ کو پیاری ہے قربانی‘‘ – حسن نثار

زندگی قدم قدم پر اس شعر کی تصدیق کرتی ہے۔دیکھ اسے دیدۂ تر یہ تو مرا چہرہ ہےسنگ کٹ جاتے ہیں پانی کی جہاں دھار گرےقطرہ قطرہ بھی مسلسل ٹپکتا رہے تو پتھر کی سل کو پیالے میں تبدیل کردیتا ہے۔ ’’قیمے والے نان‘‘ اور ’’بریانی کی پلیٹ‘‘والے ری مائنڈرز کام کر گئے۔کوئی کسر رہ گئی تھی تو عمران خان کی جاندار انتخابی مہم، مہمل بیانئے اور بے تحاشہ بدنامیوں نے پوری کردی اور معاملات جس سمت میں جارہے ہیں، محسوس ہوتا ہے کہ بقول مریم نواز پورا حکمران خاندان حوالہ ٔ اڈیالہ ہو گا اور بہت ممکن ہے اسے ’’جاتی امرا ٹو‘‘ کا خطاب بھی مل جائے۔بقول خاکسار بہت سےبرج، برجیاں اور چوبرجیاں الٹ گئیں لیکن ابھی تک ’’اک ستم اور میری جاں! ابھی جاں باقی ہے‘‘ والی بات ہے۔ عوام کو اگلے لیکشن تک ان بچے کھچوںکو مکمل طور پرقصہ ٔ پارینہ میں تبدیل کرنا ہوگا جو اب بھی دُم کٹی چھپکلی کی دُموں کی طرح پھڑپھڑا رہے ہیں۔ انہیں ابھی تک مکمل طور پر دھتکارے جانے پر یقین نہیں آرہاحالانکہ الیکٹ ایبلز کی داستانیں بھی حلقہ حلقہ بکھری پڑی ہیں لیکن عوامی شعور کی بلندی کا کھیل ابھی ختم نہیں شروع ہوا ہے جو انشاءاللہ آئندہ ایک دو الیکشنز تک پایہ ٔ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ جمہوریت صحیح معنوں میں بے بی سٹیپس لینے کے بعد بھاگنے اورقلانچیں بھرنے لگے

گی اور ’’شکاری‘‘ اپنے گھوڑے کھینچنے لگیں گے،کمانیں کندھوں پر واپس چلی جائیں گی اور تیر ترکشوں میں۔ یہاں یہ مختصر سی وضاحت ضروری ہے کہ تجربہ کار شکاری صرف بھاگتےہرنوںکا تعاقب اور شکار کرتے ہیں، ہرن چال میں پڑ جائے اور چوکڑیاں بھرنے لگے تو شکاری ٹھنڈی آہیں بھرتے ہوئے یہ سوچ کر شکار کے خیال سے دستبردار ہو جاتا ہے کہ اب وہ رینج سے نکل چکا۔ڈھنگ کے آدمی کو ڈھنگ کی ایک ٹرم مل گئی اور ڈھنگ کے چند کام کر گیا تو سمجھو سچی جمہوریت نے جنم لے لیا اور ہر خطرے سے بے نیاز ہو گئی لیکن ’’جمہوری جلاد‘‘ آخری وقت تک ہاتھ پائوں ماریں گے۔ یہ اور بات کہ ان کا آخری وقت بہت دور نہیںاور یہ قیاس آرائیاں کہ اپوزیشن کی مدد کے بغیر پی ٹی آئی کا تبدیلی ایجنڈا دور کا ڈھول ثابت ہوگا، کم از کم مجھے تو ہضم نہیں ہوتا کیونکہ مجھے جعلساز جمہوریت کے یہ دھتکارے ہوئے سارے کے سارے ڈھول بجتے ہوئے نہیں پھٹتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ میںنے گزشتہ چند ماہ میں مختلف حوالوں سے لکھا؎آج کی رات نہ سونا یارو!آج ہم ساتواں در کھولیں گے7واں در کھلنے کی آواز مجھے تو واضح طور پر سنائی دے رہی ہے۔ آپ لاکھ کہیں میرے کان بج رہے ہیںلیکن میں پسینے میں شرابور شیر کا کیا کروں جسے ایک رات زمین نہیں گدے پر سونا پڑا تو ساتواں آسمان سرپراٹھا لیا، باتھ روم برداشت نہیں، بھنڈی اور آلو گوشت ہضم نہیںتو میںسوچتا ہوں اتنی سہولتیں بھی کتنے فیصد کومیسر ہیں؟ بھیڑ کی ہڈیاں چباتے ہوئے بھیڑیئے کے دانت میں بھیڑ کی ہڈی پھنس جائے یا بھیڑیئے کا دانت ہی ٹوٹ جائے تو میں مرتی ہوئی زخمی بھیڑ کو دیکھوں یا بھیڑیئے کو گود میںاٹھا کر ڈینٹسٹ کے پاس بھاگوں کہ ’’ڈاکٹرصاحب! بھیڑ کی ٹانگ بھنبھوڑتے ہوئے اس معصوم بھیڑیئے کے دانتوں میں بھیڑ کی ہڈی پھنس گئی یا شاید دانت ٹوٹ گیاہے، اسے ایمرجنسی میں لے جایئے‘‘اس ملک میں ہر کسی کی ضرورت کےلئے وافر تھااور وافر ہے لیکن ہم بے حس یہ سبق بھول گئے کہ جس معاشرہ میں مخصوص لوگوں کے پاس ضرورتوں سے بہت زیادہ مال کا ذخیرہ ہو جائے، وہاں لامحدود لوگ بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم ہوجاتے ہیںاور یہی پاکستان کا بنیادی اقتصادی المیہ ہے۔بھیڑوںاوربھیڑیوں سے یاد آیا کہ قربانیوںکا موسم سر پر ہے، قربانیوں کے لئے پسندیدہ جانور مہنگے بھی بہت ہیں لیکن….. ’’اللہ کو پیاری ہے قربانی‘‘ اور خاص طور پر ان جانوروں کی قربانی تو بہت ہی احسن اور پسندیدہ ہے جنہیں دیر تک ہم نے خود اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر پالا پوسا ہو، ان کے ناز نخرے اٹھائے ہوں، ان کی آسائش و آرائش کا خیال رکھا ہو، انہیںقدم قدم پر پروٹوکول دیا ہو، خود عدم تحفظ کا شکار رہتے ہوئے بھی ان کی سکیورٹی کو ترجیح دی ہو۔جسے جاگنا ہو وہ جاگ لےجسے بھاگنا ہو وہ بھاگ لےوہ جو خار تھے میں نے چن لئےتو سفید و سرخ گلاب لےیہاں طے ہے سب کا معاوضہتو شراب لے وہ عذاب لے (کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

Comments are closed.