خدا، تقدیر اور انسان – عطا ء الحق قاسمی

میں نے بچپن میں ایک انگریز شاعر کی نظم پڑھی تھی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ خدالامحدود اور انسانی ذہن محدود ہے چنانچہ ایک محدود ذہن میں ایک لامحدود چیز نہیں سمائی جا سکتی۔ چنانچہ میں جب کبھی خدا کے وجود کے حوالے سے سوچنے لگتا ہوں کہ ہم اس دنیا میں کیسے آئے۔ خود ہی جواب دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا اور زمین پر بھیج دیا۔ اس کے بعد خود ہی سے پوچھتا ہوں کہ اللہ کو کس نے پیدا کیا تھا، بہت سے فلسفیانہ جوابات سامنے آتے مگر اس کے باوجود بات سمجھ نہیں آتی، ان لمحوںمیں اقبال ہی میرے کام نہیں آتا جو کہتا ہے
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
کیونکہ درد دل والی بات سمجھنا مشکل ہے اس لیے کہ معاملہ اب بھی معمہ ہے۔ پھر مجھے عبدالحمید عدم یاد آتا ہے جو کہتا ہے
آگہی میں ایک خلاء موجود ہے
اس کا مطلب ہے خدا موجود ہے
اور یہ وہی بات ہے جو انگریز شاعر نے کہی تھی ہر طرف پھیلی ہوئی کائنات کے بارے میں سوچتے اور کچھ سمجھ نہ آتے ہوئے کہ اس کا خالق کون ہے، تو ایک وقت آتا ہے کہ مجھے اپنے دماغ کی رگیں پھٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ چنانچہ میں سوچنا بند کر دیتا ہوں اور پھر سکون کی ایک لہر کے دوران میں ہولے ہولے کہتا ہوں ’’میں ایمان لایا اللہ پر، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں پر ، یوم آخرت پر اور تقدیر پر!‘‘ اس

کیفیت میں مجھے اکبر الہٰ آبادی بھی یاد آتے ہیں
تو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا
میں جان گیا ہوں تیری پہچان یہی ہے
ابھی تقدیر کا حوالہ بھی آیا تھا۔ یہ بھی آسانی سے سمجھ میں آنے والی چیز نہیں ہے۔ مگر میرے ذاتی تجربے نے تقدیر پر میرا ایمان پختہ سے پختہ تر کر دیا ہے۔ میں نے زندگی میں نہ کسی چیز کی تمنا کی اور نہ اس کے لئے کوشش کی۔ مگر مجھے ہر وہ چیز ملی جس کے حصول کے لئے لوگ سردھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں اور ضمیر کو بھی نیلامی پر لگا دیتے ہیں ۔مگر پھر بھی وہ کچھ حاصل نہیں کر پاتے جبکہ مجھے ہاتھ پائوں ہلائے بغیر اور دل میں اس کی تمنا کا روگ پالے بغیر بیٹھے بٹھائے مل جاتی ہے۔ میں مال و منال اور عہدہ و منصب کی بات نہیں کرتا۔ میں لوگوں کی بے پناہ محبت کی بات کرتا ہوں ، اپنے ہیرے جیسے بیٹوں کی بات کرتا ہوں ، اور دلی سکون کی بات کر رہا ہوں ۔ مگر تقدیر جہاں سمجھ میں نہیں آتی ، اس کی ایک مثال چند گھنٹے پہلے میرے سامنے آئی ہے۔ مجھے ڈاکٹر اشفاق احمد ورک نے فون پر بتایا کہ ڈاکٹر تحسین فراقی کا نوجوان بیٹا عثمان ہارٹ اٹیک سے انتقال کر گیا ہے ڈاکٹر صاحب کے دو ہی بیٹے تھے ، ایک چند سال پہلے فوت ہو گیا اور دوسرے کو آج اجل نے آ لیا۔ تین ماہ پہلے ڈاکٹر صاحب کے داماد کا انتقال بھی ہو گیا تھا۔ خود ڈاکٹر صاحب گذشتہ دنوں شدید علیل رہے اور اب تو اللہ جانے ان کے دل پر کیا گزر رہی ہوگی۔
میں نے تقدیر کی بات کیوں چھیڑی تھی اس کی وجہ ابھی بتاتا ہوں ، اس سے پہلے تحسین فراقی کے بارے میں یہ بتا لوں کہ فراقی ایم اے او کالج میں میرے کولیگ رہے ہیں۔ ان دنوں مجلس ترقی ادب کے ناظم ہیں اور یہ وہ مسند ہے جس پر احمد ندیم قاسمی ، حمید احمد خان اور شہزاد احمد کے علاوہ بہت سی دوسری نامور شخصیات فائز رہی ہیں۔ تحسین کے چہرے پر ننھی منی داڑھی ہے پنج وقتہ نمازی ہیں ، پانچوں شرعی عیبوں میں سے ایک عیب بھی ان میں نہیں ہے، حتیٰ کہ سگریٹ تک نہیں پیتے۔ وہ احمد ندیم قاسمی کی مسند پر یونہی فائز نہیںہوئے ان کا شمار پاکستان اور ہندوستان کے صف اول کے محققین میں ہوتا ہے ۔ ان میں صرف ایک عیب ہے اور وہ یہ کہ رشید احمد صدیقی کو وہ سب سے بڑا مزاح نگار سمجھتے ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اپنے نیک بندوں کے ساتھ تیرا یہ سلوک کیوں ہے؟ان کی تقدیر میں انعام و اکرام کی بجائے دکھ ہی دکھ کیوں لکھ دئیے ہیں ؟تیرے نافرمان بندے ساری زندگی خوش و خرم گزارتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ نیک بندوں کو آزمائش سے گزارا جاتا ہے اور دنیا میں انہیں جتنے دکھ ملتے ہیں ان کے نتیجے میں ان کے گناہ جھڑ جاتے ہیں ۔ میں اس کے بعد کیا کہہ سکتا ہوں ، خدا سے صرف یہ ہی درخواست کر سکتا ہوں کہ باری تعالیٰ یہ ترتیب الٹ دے اپنے نیک بندوں کو اس دنیا میں بھی کوئی دکھ نہ دے اور جو تیرے نافرمان ہیں اس ہی دنیا میں بھی وہ دکھ دے جو تو اپنے نیک بندوں کو دیتا ہے۔ یا باری تعالیٰ اپنی جنت اور دوزخ کی کچھ جھلکیاں اس دنیا میں بھی تو دکھا تاکہ ہم جیسے کمزور ایمان والوں کے ایمان کو تقویت ملے۔
نوٹ:جناب عطاالحق قاسمی کے گزشتہ روز کے کالم میں سمفنی کی جگہ سہواً سنسنی شائع ہو گیا، ادارہ

Comments are closed.