قوی اور امین – عبدالقادر حسن

Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ایک بات پر پوری قوم متفق ہے اور یہ بالکل واضح ہو چکا ہے کہ پاکستان کا اصل مسئلہ کیا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں وقتا ً فوقتاً یہ بتایا جا رہا ہے کہ اس ملک کو کس بے دردی سے لوٹا گیا اور لوٹنے والے کون لوگ تھے وہ سب لٹیرے بھی ہم میں سے ہی ہیں کوئی باہر سے نہیں آیا جو بھی ڈاکے پڑے وہ اپنوں نے ہی مارے۔

انگریز تو ہمیں لوٹ کر بہت پہلے ہی چلا گیا تھا لیکن اپنے بعد بھی اتنا کچھ چھوڑ گیا تھا جس کو اگر ہم سنبھال لیتے تو آج قرض کی مے نہ پی رہے ہوتے اور ہمارے پاکستانی بھائی غیر ملکوں میں روزی روز گار کے لیے خوار نہ ہو رہے ہوتے بلکہ اپنے ملک میں ہی باعزت روزگار ان کا مقدر تھا جو کہ نااہل اور کرپٹ اشرافیہ نے ہم سے چھین لیا۔ عوام کو شعور بیدار کرنے میں ذرائع ابلاغ نے جو کردار ادا کیا ہے اس کی داد دینی ہو گی۔ اچھے برے لوگ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں لیکن ذرائع ابلاغ نے گزشتہ دس برسوں میں عوام کو یہ بتا دیا کہ ان کے اندر ہی وہ لوگ موجود ہیں جو ان کو نسل در نسل لوٹتے چلے آ رہے ہیں۔

پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ ملک میں مارشل لاؤں کی وجہ سے عوام کو اپنی تقدیر بنانے کا موقع نہیں دیا گیا اس لیے ملک ترقی نہیں کر سکا لیکن اگر دیکھا جائے تو ضیاالحق شہید کے مارشل لاء کے بعد ایک طویل جمہوری دور رہا اور مشرف کی مارشل لائی حکومت میں عوامی حکومت کا بھی راج رہا اور اس کے بعد اگر آزاد جمہوری حکومتوں کے دن شمار کیے جائیں تو گزشتہ دو حکومتیں پاکستان کی تاریخ کی وہ حکومتیں رہیں جنہوںنے اپنی معینہ آئینی مدت مکمل کی اس کے باوجود ترقی نہ ہونے کی وجہ ہمارے حکمرانوں کی نااہلی ہے۔

ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے لگایا حالانکہ اس سے پہلے بھی دو مرتبہ وہ عوام کے ووٹوں کی عزت کے سہارے اس ملک کے منتخب وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ یہ ووٹ ہی ہیں جن کی وجہ سے حکومتی بدلتیں رہیں بلکہ یہ بات بھی تاریخی حقیقت ہے کہ ملک کے دو ٹکڑے بھی اسی ووٹ نے کیے۔ ووٹ کی بنیاد پر غلط قسم کے لوگ حکومتوں میں آئے جنہوں نے ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا۔

آج ملک کی جو مایوس کن صورتحال ہے وہ گزشتہ حکومتوں کی وجہ سے ہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو 85ء کے مارشل لاء کے بعد ملک کی یہ حالت نہ تھی اسی طرح مشرف دور میں کاروباری سرگرمیوں کا عروج تھا ملک میں روپے پیسے کی ریل پیل تھی۔ یہ سب جمہوریتوں کے کمال ہیں جمہوریت نے ملک کو دیوالیہ کر دیا اور اس کو بچانے کی کوشش بھی وہی سیاستدان کرتے ہیں جو اس کا موجب ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جلیل القدر انبیاء کے قصے انسانوں کی ہدایت کے لیے بیان فرمائے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بے سرو سامانی کی حالت میں مصر سے نکلے تو صورتحال کچھ ایسی تھی کہ آپ فوری طور پر اپنے سفر کی منزل کا کوئی تعین نہ کر سکے۔ یہ فیصلہ آپ نے نکلنے کے بعد کیا کہ مدین کی طرف جانا چاہیے۔ مدین ملک شام کا ایک شہر ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک بیٹے مدین کے نام سے موسوم ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک لمبے اور مشکل سفر کے بعد تھکے ہارے مدین پہنچے۔ آپ نے وہاں کنویں پر ایک عجیب منظر دیکھا کہ طاقتور چرواہے اپنے جانوروں کو پانی پر لاتے اور پلا کر چلے جاتے ہیں مگر ان سے دور کچھ شریف زادیاں اپنے جانوروں کو روکے کھڑی ہیں اور انھیں موقع ہی نہیں دیا جا رہا کہ وہ جانوروںکو قریب لائیں اور پانی پلائیں۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ تمہارا کیا معاملہ ہے انھوں نے بتایا کہ وہ مجبور اور کمزور ہیں ان کا باپ بہت بوڑھا اور کمزور ہے وہ خود جانوروں کو پانی پلانے کے قابل نہیں اور ہم عورتیں ان مردوں کے مقابلے میں کمزور ہیں، ہمیںان چرواہوں کے یہاں سے ہٹنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے ان کی فراغت کے بعد ہم اپنے جانوروں کو پانی پلاتے ہیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جذبہ ہمدردی بھڑک اٹھا آپ نے اٹھ کر ان کے جانوروں کو پانی پلا دیا اور پانی پلا کر اسی سایہ میں آکر بیٹھ گئے جہاں پہلے بیٹھے تھے اور دعا فرمائی کہ اے اللہ جس منزل کو سامنے رکھ کر میں نے ادھر کا رخ کیا وہ آگئی اب تیرے فضل کا انتظار ہے۔ شریف زادیاں جب گھر پہنچیں تو باپ نے روزانہ کے معمول سے جلدی گھر آنے کا سبب پوچھا انھوں نے تمام قصہ بیان کر دیا۔ ان کے والد نے چاہا کہ اس محسن شخص کو اس کے احسان کا بدلہ کچھ دیا جائے چنانچہ ان میں سے ایک کو بلانے کے لیے بھیجا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اسی سایہ میں ہی بیٹھے تھے کہ ایک صاحبزادی شرماتی ہوئی آئی اور بولی کہ آپ کو ہمارے والد صاحب بلاتے ہیں تا کہ آپ نے ہمارے جانوروں کو جو پانی پلایا ہے اس کا صلہ دیں۔

آپ نے اس کو ایک تائید غیبی سمجھا۔ جب آپ اس شیخ کبیر کے پاس پہنچے تو اپنی تمام داستان سنائی۔ انھوں نے سارا ماجرا سن کر کہا کہ اب تم کوئی اندیشہ نہ کرو۔ ان کو اپنے جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے ایک ملازم کی ضرورت تھی۔ ایک صاحب زادی نے سفارش کی کہ انہی کو ملازم رکھ لیں کیونکہ بہترین ملازم وہ ہوتا ہے جو قوی اور امین ہو۔ ان بزرگ کی صاحبزادی کی زبان پر اللہ تعالیٰ نے بڑی حکمت کی بات جاری فرمائی جو قیامت تک روئے زمین پر بسنے والے انسانوںکے لیے ہدایت کا درجہ رکھتی ہے کہ جب بھی کسی نے کوئی ملازم رکھنا ہو تو اس میں مذکورصفات ضرور ہوں اول وہ قوی دوئم امین ہو۔ یوں سمجھنا چاہیے کہ انھوںنے دریا کو کوزے میں بند کر دیا۔ لفظ قومی میں تمام جسمانی ذہنی اور تعلیمی صلاحیتیں آ جاتی ہیں اور امین میں چال چلن، دیانت داری، امانت داری وغیرہ شامل ہیں۔

ارکان پارلیمنٹ بھی قوم کے نمائندے قوم کے خادم ہوتے ہیں۔ قوم اپنے نمائندے منتخب کر کے ایوانوں میں بھیجتی ہے ۔ قوم کے منتخب نمائندوں پر بھی مذکورہ بالا حکم لاگو ہوتا ہے کہ وہ ہر لحاظ سے قوی اور امین ہوں۔ یہی ہمارے آئین کی دفعات 62 اور63 کا تقاضہ بھی ہے۔ الیکشن کے بعد جو صورتحال سامنے آئی ہے اس میں گو کہ قوی اور امین نمائندوں کی بہتات نہیں ہے لیکن اگر ان کا لیڈر قوی اور امین ہو تو بات بن جائے گی۔

Comments are closed.