١٨ کرسیوں سے شروع ہونے والے راولپنڈی کے معروف ریستوران کی کہانی

’انگریزی میں بزنس کہتے ہیں، اُردو میں کاروبار۔ مگر پنجابی میں اسے ’کروبار‘ کہتے ہیں۔ کروبار کرنا ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب کاروبار کے لیے آپ کو گھر سے باہر رہنا پڑے گا۔‘

حاجی محمد نعیم کو شاید زیادہ لوگ نہیں جانتے۔ لیکن ان کا پلاؤ کباب کا کاروبار پاکستان کے جڑواں شہروں میں بہت مقبول ہے۔ سنہ 1988 میں یہ کاروبار ایک چھوٹی سی دکان میں 18 کرسیوں کے ساتھ ’سیور‘ کے نام سے شروع کیا گیا تھا۔

حاجی محمد نعیم کا تعلق صوبہ پنجاب کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل گوجرہ کے ایک زمیندار مگر مذہبی گھرانے سے ہے۔ وہ میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد کاروبار سے منسلک ہو گئے تھے۔

حاجی نعیم کے والد محمد امین وٹرنری ڈاکٹر ہیں۔ وہ تین بیٹوں میں سب سے بڑے ہیں۔

انھیں کاروبار کا شوق تھا تو والد صاحب نے چاول کا کاروبار کرنے کا مشورہ دیا۔ خاندان کے بڑوں نے ریستوران کے شعبے میں جانے کی تجویز دی۔

بس پھر طے ہو گیا کہ چونکہ چاول پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کی من پسند غذاؤں میں سے ایک ہے، اس لیے کاروبار ہو گا اور ریستوران کے ذریعے چاول کی کوئی ڈش بیچی جائے گی۔

حاجی نعیم کے مطابق ’ہمارا خیال تھا کہ اچھا اور سستا کھانا لوگوں کو فراہم کیا جائے۔ اب ہمارا سارا خاندان اس شعبے سے منسلک ہو چکا ہے۔‘

ریستوران کا نام ’سیور‘ کیسے پڑا؟
پروفیسر راجہ ارشد احمد راولپنڈی کے گورنمنٹ کالج اصغر مال میں اُردو پڑھایا کرتے تھے۔ وہ اس ریستوران کے قیام کے پہلے سے حاجی نعیم کے رفیق ہیں۔

وہ ان افراد میں سے تھے جن سے ریستوران کا نام تجویز کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔

پروفیسر ارشد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جو بات پہلے سے ذہن میں تھی، وہ یہ کہ نام ایسا ہونا چاہیے کہ اس کو ادا کرنے میں دقت نہ ہو۔ لوگوں کو یہ نام یاد رہے۔ چاہے پڑھے لکھے ہوں یا نہیں، ان کے لیے یہ نام آسان ہونا چاہیے۔‘

انھوں نے یہ باتیں مدنظر رکھتے ہوئے ’سیور‘ نام تجویز کیا اور یہ بھی بتا دیا کہ انھیں یہی نام پسند آیا ہے۔

کیمرج ڈکشنری کے مطابق سیور کے معنی کھانے سے لطف اندوز ہونے کے ہیں

پہلا ریستوران: 18 کرسیاں، آٹھ ملازم
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ سیور ایک ریڑھی سے شروع ہوا جو کہ درست نہیں۔

سنہ 1988 میں گورڈن کالج کے قریب سیور کے پہلے ریستوران کی بنیاد رکھی گئی۔ حاجی نعیم کے مطابق ’تقریباً دو لاکھ روپے سے کالج روڈ پر چھوٹے سے ہال میں آٹھ ملازمین کے ساتھ کام شروع کیا۔‘

’یہ بہت چھوٹی جگہ تھی۔ اس وقت کل 18 کرسیاں تھیں۔۔۔ لوگ سمجھتے ہیں سب راتوں راتوں ہو گیا۔ ایسا نہیں۔‘

اس وقت شامی کباب اور چکن سمیت پلاؤ کی پلیٹ 20 روپے کی ہوا کرتی تھی، اب یہ ریٹ 235 روپے ہے۔

’کاروبار میں بہت مشکلات آتی ہیں۔ بزنس چھوٹا تھا، روزانہ کئی مرتبہ دل ڈوبتا تھا۔ پھر کئی مرتبہ دل میں امید جاگتی تھی کہ یہ کاروبار آگے جائے گا۔‘

’طویل عرصے تک چاول، شامی کباب، چکن اور دیگر اجزائے ترکیبی پر کام ہوتا رہا۔ آخر کار خاندان کے تمام افراد ایک ذائقے پر متفق ہو گئے۔ وہی ذائقہ عوام میں مقبول ہوا۔‘

حاجی نعیم نے معیار کو بہتر کرنے اور عمدہ چاول کے حصول کے لیے سنہ 1999 میں گوجرانوالہ کے مقام پر سیور ملز کا آغاز کیا۔ ان کے مطابق ’یہ چاول سیور فوڈز کا بنیادی اور اہم جُزو ہے۔‘

سنہ 2000 میں باغ سرداراں، سنہ 2002 میں میلوڈی فوڈ پارک اسلام آباد، سنہ 2005 میں بلیو ایریا اسلام آباد اور سنہ 2005 میں راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں نئی برانچز کا اضافہ کیا گیا۔

سیور اب تک لاہور میں اپنی دو برانچز کھول چکا ہے اور ان کے بقول لاہور میں کڑے مقابلے کے باوجود پسند کیا جا رہا ہے۔

’پلاؤ اب سیور کے نام سے جانا جاتا ہے‘
پروفیسر ارشد کا دعویٰ ہے کہ سیور کا نام اس قدر مقبول ہو چکا ہے کہ بعض گھروں میں پلاؤ کباب کی اس ڈش کو سیور کے نام سے ہی جانا جاتا ہے جبکہ لوگ اکثر دوسرے ریستورانوں میں جا کر بھی ’سیور‘ کہہ کر پلاؤ کا آرڈر دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان سے باہر برطانیہ اور متحدہ عرب امارات میں یوں تو سیور کی کوئی برانچ نہیں ہے لیکن کئی ملکوں میں سیور کے نام سے پلاؤ کباب بیچا جا رہا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ وہی راولپنڈی کا مشہور سیور ہے۔

ملک میں سیور کی آٹھ برانچیں ہیں لیکن ملک سے باہر ایک بھی نہیں۔ تاہم کمپنی کی جانب سے بین الاقوامی سطح تک پھیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

پروفیسر ارشد کے مطابق کباب کو چٹ پٹا بنانے کا تجربہ انھی کے گھر کیا گیا تھا۔ وہ کہتے ہیں ’جب آدمی کباب کھائے اور منھ سے ’سِی‘ کی آواز نہ آئے تو وہ کباب نہیں۔

ان کے بقول یہی ذائقہ پیدا کرنے میں ’ایک مدت صرف ہوئی۔‘

سیور کے پلاؤ کی طرح حاجی نعیم بھی تیکھے مزاج کے نہیں۔ وہ ہمیشہ سے اس بات کے قائل رہے ہیں کہ سیور کے کھانوں میں تیز نمک مرچ نہیں ہونی چاہیے جو کہ بازار میں فروخت ہونے والے عام پکوانوں کے برعکس ہے۔

لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں لوگ نمک مرچ کو ہی ذائقے کا معیار سمجھتے ہیں، وہاں حاجی نعیم کے مطابق ان کے پلاؤ میں متناسب مصالحے اس لیے استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے لطف اندوز ہو سکیں۔

اسی طرح صبح سے رات نان سٹاپ کھلی رہنے والی سیور فوڈز کی دکانیں ان کے گاہکوں کے لیے ایک سستا اور ’ٹکاؤ‘ آپشن ہوتی ہیں۔

’اشتہارات کے بجائے گاہکوں نے مشہور کیا‘
ابتدا سے اب تک سیور کے ساتھ منسلک ایک ملازم خالد محمود کا کہنا تھا کہ ’پہلے نعیم صاحب نے خود کام سیکھا۔ وہ خود بھی شیف ہیں، پھر انھوں نے بھائیوں اور ملازمین کو سکھایا۔‘

’کافی جگہوں پر لوگ ہماری ترکیب استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے پُرانے ملازمین ہی پلاؤ کباب کا اپنا کاروبار شروع کر لیتے ہیں۔‘

پروفیسر ارشد نے بتایا کہ کمپنی نے سیور نام کی 100 سے زیادہ دکانیں بند کروائی ہیں کیونکہ یہ ان کا رجسٹرڈ نام ہے اور ریستوران کے اس نام کے جملہ حقوق صرف ان کے پاس ہیں۔

’لیکن اس کے باوجود کئی جگہوں پر لوگ ہماری ترکیب نقل کرتے ہیں اور پاکستان کے علاوہ دبئی اور مانچسٹر میں بھی سیور کے نام سے اس پلاؤ کی فروخت جاری ہے۔

’ہماری تمام برانچوں میں ملا کر روزانہ 10 ہزار لوگ سیور کھاتے ہیں۔ ہر برانچ پر چاولوں کی قریب 100 یا اس سے کم زیادہ دیگیں بنائی جاتی ہیں۔‘

سیور کے اتنے اشتہار نہیں اور اس کی مقبولیت کا دار و مدار ’ورڈ آف ماؤتھ‘ ہے یعنی ایک گاہک اپنے حلقہ احباب میں دوسرے لوگوں کو اس بارے میں بتاتا ہے تاکہ وہ بھی اس کا مزہ چکھیں۔

کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران سیور کا کاروبار بھی متاثر ہوا ہے۔ سمارٹ لاک ڈاون کی وجہ سے لوگوں ریستوران میں بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتے اور صرف ٹیک آوے یا آن لائن ڈیلیوری کے ذریعے کھانا منگوایا جا سکتا ہے۔

اس وقت بلیو ایریا کی برانچ میں زیادہ لوگوں کی آمد ہوتی ہے کیونکہ وہاں آس پاس کافی دفاتر موجود ہیں جہاں کے ملازمین سیور سے دوپہر یا شام کا کھانا پسند کرتے ہیں۔

Source: BBC URDU

Leave A Reply

Your email address will not be published.