اچھا ہوا ریٹائر ہوگئے! – انصار عباسی

Ansar Abbasi

چیف جسٹس گلزار احمد ریٹائر ہو گئے۔ اُن کا دور کیسا تھا، کیسے فیصلے کیے، عدلیہ اور نظامِ عدل میں کیا کیا بہتری لائی گئی اس پر بہت کچھ کہا اور لکھا جا سکتا ہے لیکن اس موقع پر اتنا کہنا بہتر ہو گا کہ اچھا ہوا جسٹس گلزار ریٹائر ہو گئے۔

بدقسمتی سے گزشتہ چند ایک چیف جسٹس ایسے گزرے کہ اُن کے بارے میں عوامی رائے کچھ اچھی نہ تھی۔ ان سابق چیف جسٹس صاحبان کا اپنے بارے میں کیا خیال تھا یہ بات معنی نہیں رکھتی تاہم یہ بات اہم ہے کہ عوام اُن کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور تاریخ اُن کے بارے میں کیا لکھے گی۔

نئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے عہدہ کا حلف اُٹھا لیا اور کہا کہ زیر التواء مقدمات کا بوجھ کم کرنا ہے۔ گزشتہ روز جسٹس عمر عطا بندیال نے یہ بھی کہا کہ عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید جائز لیکن ججوں کو بدنام کرنے والے ہمارے ایکشن سے پہلے سوچ لیں۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ تمام عدالتوں کو پرفارمنس آڈٹ کرنا ہو گا تاکہ کمزوریوں کی نشاندہی ہو سکے اور اصلاحات کے ذریعے مقدمات کو جلد نپٹایا جا سکے۔ اللّٰہ کرے ایسا ہی ہو۔ پاکستان کے عدالتی نظام کی حالت بہت خراب ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہماری عدلیہ کی، دنیا میں بھی آخری پوزیشنز میں سے ایک ہے۔ حال ہی میں ٹرانسرپرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے عدلیہ کو دوسرا کرپٹ ترین ادارہ بھی قرار دیا۔

عوام سے بات کریں تو عدلیہ کے بارے میں یہ شکایت عام ہے کہ عدالتیں دہائیوں میں فیصلے کرتی ہیں، جلد اور سستا انصاف محض ایک خواب اور نعرہ ہے، جسے ممکن بنانے کی باتیں تو بہت کی جاتی ہیں لیکن عملاً ایسا کچھ نظر نہیں آتا۔

وکلاء تحریک کے وعدے اور خواب بھی ادھورے کے ادھورے رہ گئے بلکہ اس تحریک کے بعد انصاف کا حصول بہت ہی مہنگا ہو گیا۔ یعنی جن کے پاس پیسہ ہو گا وہی انصاف کے لیے مہنگے وکیل کر سکتے ہیں جبکہ غریب اور مستوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے تو عدالتی کارروائی کا سن کر ہی مایوس ہو جاتے ہیں کیوں کہ نہ تو اُن کے پاس مہنگے وکیل کرنے کے لیے پیسہ ہوتا ہے اور نہ ہی اُنہیں امید ہوتی ہے کہ انہیں انصاف ملے گا۔ عدالت میں تو جانے سے لوگ ڈرتے ہیں کہ نجانے کیس کتنا لمبا چلے، کتنا پیسہ خرچ ہو۔ تاریخوں پر تاریخیں، سٹے آرڈرز، مہنگے وکیل، فیصلہ برسوں، دہائیوں بعد اور جب فیصلہ ہو جائے تو عمل درآمد کرانا ایک نئی مصیبت، ایک نئی مشکل۔

پاکستان کا عدالتی نظام ظالم اور کرپٹ کو زیادہ سوٹ کرتا ہے جبکہ مظلوم اور عام شہری عدالت کا نام سن کر ہی ڈر جاتا ہے۔ نئے چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ عوام کے اس خوف، اس ڈر کو دور کرنے کے لیے عدالتی نظام میں بنیادی اصلاحات کا آغاز کریں، انصاف کو سستا بنانے کا رستہ نکالیں، برسوں دہائیوں تک مقدمات کے لٹکائے جانے کے رواج کو بدلیں۔

عدلیہ کو اپنی خامیوں کو کھلے دل سے تسلیم کر کے اپنے آپ کو بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ عدلیہ کا عوام میں اعتماد بحال ہو۔ یہ اہم نہیں کہ جج حضرات عدلیہ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ دوسرے عدلیہ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، عوام کو کیا عدلیہ پر اعتماد ہے بھی کہ نہیں!! ماضی میں دیکھا کہ کچھ چیف جسٹس حضرات نے جب عدلیہ کا سب سے اہم عہدہ سنبھالا تو اُن کا رویہ سخت ہو گیا، وہ عدالت میں پیش ہونے والوں کو بے عزت کر کے خوشی محسوس کرنے لگے، اُن کے فیصلوں میں ضد، غصہ اور عناد واضح نظر آنے لگی۔ انصاف کے نام پر ناانصافی کے فیصلہ دیے جانے لگے جس نے عدلیہ کو مزید بدنام کر دیا۔

امید ہے کہ نئے چیف جسٹس ایسے تمام رویوں کی حوصلہ شکنی کریں گے اور انصاف کے حصول کو آسان بنانے میں اپنی تمام ترکوشش کریں گے۔بڑے عہدے دراصل ان عہدوں پر بیٹھنے والوں کے لیے آزمائش ہوتے ہیں اور اسی بنا پر اُن کے بارے میں تاریخ فیصلہ کرتی ہے کہ کون کیا تھا، کس نے بڑے عہدہ کی توہین کی، کون عہدہ کے نشے میں مغرور ہو گیا اور کس نے اپنے فرائض ایمانداری سے ادا کیے۔ امید ہے نئے چیف جسٹس اپنے لیے بہتر تاریخ چھوڑ کر جائیں گے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

Source: Jung News

Read Urdu column Acha Howa Retire ho gaye By Ansar Abbasi

Leave A Reply

Your email address will not be published.