عدل، تدبیر اور رائے – ڈاکٹر عبد القدیر

dr-abdul-qadeer-khan

بچپن میں گرمیوں کی چھٹیوں میں فرش پر بیٹھ کر، لیٹ کر، الف لیلیٰ، طلسم ہوشربا، فسانہ آزاد اور صحرا نورد کے خطوط پڑھتے توبہت مزہ آتا تھا۔ پہلی تینوں کتب بہت پرانی اور بہت ضخیم تھیں۔ آخری ذرا کتاب نما تھی۔ الف لیلیٰ میں ایک ہزار ایک کہانیاں ہندوستان، ایران اور عرب کے بارے میںہیں ان میں مشہور قصّے الہ دین اور جادو کا چراغ، علی بابا چالیس چور اور سند باد جہازی کے ہیں۔ اس میں چین کے قصّے کہانیاں بھی شامل ہیں۔ پہلی کتاب کا حوالہ نویں صدی عیسوی کا ہے۔ طلسم ہوشربا 100 برس سے زیادہ پرانی ہے اور اس کو محمد حسین جاہ نے چارحصوں میں لکھا ہے جو نہایت لاجواب کتاب ہے۔ فسانہ آزاد پنڈت رتن سرشار نے لکھی ہے۔ صحرا نورد کے خطوط، نہایت دلچسپ، ہمارے اپنے مصنف مرزا ادیب کی گل فشانی ہے مگر ان سب کتابوں کے باوجود مجھے شیخ سعدیؒ کی گلستان اور بوستان بے حد پسند تھیںاور ہیں۔ اسکول میں فارسی بھی پڑھتا تھا، اس لئے اس سے بہت انسیت ہوگئی کہ ہر حکایت دلچسپ اور سبق آموز ہے۔ دیکھئے شیخ سعدیؒ خود ان کتب کے لکھنے کی وجہ کیا بتاتے ہیں:

(1) میں نے دنیا کے دور دراز ملکوں کا بہت سفر کیا اور ہر کسی کے ساتھ یا ہرطرح کے لوگوں کے ساتھ وقت گزارا۔ (2) میں نے ہرجگہ و گوشہ سے لطف اٹھایا اور ہر کھلیان سے ایک خوشہ؍گچھا حاصل کیا (ہر ملک میں وہاں کے مطابق وقت گزارا یا زندگی بسر کی اور وہاں کی ہر طرح کی خوراک کھائی)۔ (سعدیؒ نے کوئی پچیس تیس برس سفر میں گزارے تھے)۔ (3) (لیکن اس تمام سفر میں) میں نے شیراز کے پاک لوگوں جیسے لوگ؍انسان نہ دیکھے۔ اللہ تعالیٰ کی اس پاک سرزمین پر رحمت ہو۔ (4) اس پاک سرزمین کے لوگوں کی دوستی و محبت نے شام و روم جیسے بڑے ملکوں سے مجھے بے دل کر دیا۔ (5) مجھے اس تمام باغ سے (مراد سفر سے) دوستوں کی طرف خالی ہاتھ جانے کا افسوس ہوا۔ (6) چنانچہ میں نے دل میں سوچا کہ میں تحفے کے طور پر دوستوں کے لئےمصر سے قند (کھانا مصری) لے جائوں۔ (7) اگر اس قند کی خرید کےلئے میرا ہاتھ خالی تھا تو (کم از کم) قند سے زیادہ شیریں اشعار تو میرے پاس ہیں( یعنی میری شاعری میں بڑی لذت و شیرینی ہے، اس لئے اسی کا تحفہ لے چلوں)۔ (8) یہ (شاعری) وہ قند تو نہیں ہے جسے لوگ منہ سے کھاتے ہیں، اسے تو ارباب معنی (حقیقت پسند لوگ، شاعر و ادیب) کاغذ پر لے جاتے ہیں(ظاہر ہے شاعری کاغذ پر لکھی جاتی ہے، مطلب یہ کہ میں ’’بوستان‘‘ کا تحفہ اہل شیراز کو دوں)۔ (9) جب میں نے اس دولت کا محل بنایا (یہ مثنوی تصنیف کی) تو اس میں تربیت کے دس دروازے بنائے (بوستان دس ابواب پر مشتمل ہے۔ اس میں اخلاقی درس وغیرہ دیئے گئے ہیں)۔

عدل و تدبیر اور رائے کے بارے میں۔

1۔میں نے سنا ہے کہ (مشہور ایرانی بادشاہ) پر جب حالت نزع طاری ہوئی (دم توڑنے کے قریب یا قریب المرگ ہوا) تو اس نے اپنے بیٹے ہرمز کو یہ نصیحت کی کہ دل جمعی اور اطمینان اختیار کر اور درویش ہوجا،اپنی آسائش کی قید ؍چکر میں نہ پڑ۔2۔ جب تو صرف اپنی آسائش کے چکر میں پڑا رہے گا تو تیرے ملک میں کسی کو بھی آسائش نصیب نہ ہوگی۔3۔دانا آدمی اس بات کو اچھا نہیں سمجھتا کہ چرواہا تو سو جائے یا سویا رہے اور بھیڑیا بھیڑ بکریوں میں آجائے (اور انہیں پھاڑنے کھانے لگ جائے)، چرواہا استعارہ ہے حکمراں کا،گو سفند رعایا کا اور بھیڑیا دشمن کا۔4۔ جا ؍دیکھ محتاج درویش ؍ غریب یا غریبوں کا دھیان رکھ‘ اس لئے کہ بادشاہ رعایا ہی کی بدولت تاجدا ربنتا ہے۔5۔ رعایا جڑ کی مانند ہیں اور بادشاہ درخت کی مانند، اے بیٹے ! درخت جڑ ہی کی بدولت مضبوط بنتا ہے۔6۔ جہاں تک تجھ سے ہوسکے عوام کا دل زخمی نہ کر، اور اگر تو ایسا کرے گا تو (یہ سمجھ لے کہ) تو اپنی جڑ اکھیڑ ڈالے گا (تیری حکمرانی مٹ جائے گی)۔7۔ اگر تجھے ایک راہِ راست کی ضرورت ہے (یا تو چاہتا ہے) تو وہ پارسائوں والی راہ ہے جس میں امید اور خوف دونوں ہوتے ہیں۔8۔ ایک انسان کی طبیعت میں، اس کی عقل و دانش کے باعث امید ہی سے نیکی پیدا ہوتی ہے جبکہ برائی کا خوف ہوتا ہے۔ (گویا وہ یہ سوچتا یا اس بات پر غور کرتا ہے کہ اس کا کون سا عمل اچھا ہوگا اور کون سا برا اور یوں وہ برے اعمال سے بچتا ہے)۔9۔ اگر تو یہ دونوں باتیں (امید اور نیکی ایک بادشاہ میں دیکھے تو یوں سمجھ لے کہ تو نے اس کی سلطنت و مملکت میں استحکام دیکھ لیا(ایسے بادشاہ کی حکومت پائیدار ہوگی)۔10۔ کیونکہ وہ (بادشاہ) کسی امیدوار کی،اس کردگار کی بخشش کی امید میں، بخشش کردیتا ہے، اس کو معاف کردیتا ہے۔11۔ اسے دوسروں کو دُکھ پہنچانا اچھا نہیں لگتا،کیونکہ اسے یہ خوف ہوتا ہے کہ اس صورت میں اس کے ملک ؍ سلطنت کو نقصان پہنچے گا۔12۔اور اگر اس کی سرشت؍ فطرت میں یہ خصلت یا کیفیت نہیں ہے تو اس کے ملک میں آسودگی کی خوشبو نہ ہوگی۔13۔ اگر تو پائے بند ہے (تیرے پائوں بندھے ہوئے ہیں، یعنی تو کسی مصیبت میں گرفتار ہے ) تو (اس ذات کریم کی) رضا پر رہ اور اگر تو سوار ؍ بیٹھا ہے تواپنا سر پکڑ؍ بچا۔ یعنی بلند مرتبے پر ہے تو خود کو برائیوں سے بچا۔14۔ تو اس دیارو ملک میں، جہاں کی رعایا بادشاہ کے ہاتھوں دل تنگ ؍ ناخوش ہو، وسعت کی توقع مت رکھ۔15۔ تو دلیر متکبروں سے ڈر کہ رہ، ان سے ڈر کے نہیں رہنا تواس داور؍خدا سے ڈر۔

(جاری ہے)

source

Read Urdu column Adal Tadbeer aur Rayee by Dr Abdul Qadeer khan

Leave A Reply

Your email address will not be published.