آہنی ہاتھوں سے حنائی ہاتھوں تک – حسن نثار

hassan-nisar

ہمارا اجتماعی مزاج ہی کچھ ایسا ہے کہ جب تک انتہا کی بھی انتہا نہ ہو جائے، مرض آخری مرحلہ تک نہ پہنچ جائے۔سیلاب سر کے اوپر سے نہ گزر جائے ہم ری ایکٹ نہیں کرتے حالانکہ "NIP THE EVIL IN THE BUD”والامحاورہ بچپن سے ہی سن رکھا ہوتا ہے جس کے زندہ ترین اور تازہ ترین ثبوت ’’دہشت گردی ‘‘ سے لیکر ’’آبادی کے ایٹم بم‘‘ تک موجود ہیں لیکن سانپوں کے نکل جانے پر لکیریں پیٹنے کا رواج بھی موجود ہے جو نجانے کب تک موجود رہے گا ۔

حیرت ہے کہ اتنا کچھ ہو جانے کے بعد ہمارے سیانے سردار آج وہ کچھ کہہ رہے ہیں جو "ROBERT KENNEDY” مدتوں پہلے کہہ گیا تھا،

"A SNIPER IS ONLY A COWARD, NOT A HERO, AND AN UNCONTROLLED OR UNCONTROLLABLE MOB IS ONLY THE VOICE OF MADNESS, NOT THE VOICE OF THE PEOPLE”

ہمارے حکمرانوں کو آج تک یہ سادہ سی بات بھی سمجھ نہیں آئی کہ مشتعل ہجوم عوام کی نہیں پاگل پن کی آواز اور نمائندے ہوتے ہیں۔اسی لئے ہمارے حکمران پاگل ہجوموں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہوتے یہاں تک آ پہنچے کہ جن چند پاگلوں، جنونیوں اور بلیک میلروں کا ہجوم جب دل چاہتا ہے وہ سرعام آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیر کر اس پر فخر بھی کرتا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ ریاست کی سیاسی اور عسکری قیادتوں کو اکٹھے ہو کر بیک زبان یہ اعلان کرنا پڑتا ہے ۔

’’ہجوم کو قانون ہاتھ میں نہیں لینے دیں گے‘‘

’’ہجوم کو قانون شکنی کی اجازت نہیں دی جا سکتی‘‘

’’سیالکوٹ جیسے واقعات ناقابل برداشت ‘‘

"CIVIL, MILITARY LEADERS NULL STRATEGY TO CURB VIOLENCE”

بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے لیکن چلو …..دیر آید درست آید

اور پھر ریاست کی سیاسی اور عسکری قیادتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سانحہ سیالکوٹ پر تمام مسالک کے علماء مذمت میں یک زبان ہو کر ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ واقعہ قرآن و سنت، آئین و قانون، جمہوریت اور پیغام پاکستان کی صریح خلاف ورزی ہے اور ذمہ داران سخت ترین سزا کے مستحق ہیں ۔

قوم کو مبارک ہو اور خدا کرے یہ ناقابل فراموش سانحہ ہماری تاریخ میں ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہو لیکن یہ صرف اور صرف اسی صورت میں ممکن ہو گا کہ اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے اور اس کے ایک ایک لفظ کو جزو ایمان سمجھ کر اس کے ایک ایک لفظ پر تن من دھن سے عمل کیا جائے اور ہر قسم کی بلیک میلنگ کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکا جائے کہ یہ لرزاں و ترساں ریاست کسی مزید زخم کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔ضعف کا یہ عالم ہے کہ جسم ناتواں میں ا ب پلک جھپکنے کیلئے بھی انرجی باقی نہیں رہی ۔

صرف آج مورخہ 8دسمبر 2021ء بروز بدھ کے روزنامہ ’’جنگ‘‘ کی صرف چند خبروں کی سرخیاں پڑھنے سے ہی بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ علامہ اقبال اور بابائے قوم کے خوابوں کی تعبیر کی حقیقی تصویر کیسی ہے؟ کیا ہے؟

’’پولیس اور عدلیہ ملک کے کرپٹ ترین ادارے (ٹرانسپیرنسی پاکستان) کمزور احتساب، طاقتور طبقہ کی ہوس اور کم تنخواہیں کرپشن کی سب سے بڑی وجوہات ہیں‘‘

’’فیصل آباد، اخلاقیات کی دھجیاں اڑا دیں۔ خواتین پر تشدد، برہنہ کرکے ویڈیو بنائی۔چاروں خواتین کاغذ چننے گئیں، دکانداروں نے چوری کے الزام میں قید کر لیا۔5ملزم گرفتار‘‘

’’سندر:فرسٹ ایئر کی طالبہ کا اغوا، زیادتی، ملزم دو ماہ بعد گرفتار بھائی کو قتل کی دھمکی دے کر گھر کے باہر سے اغوا کیا، کاغذات سائن کرائے، چند روز بعد 50ہزار روپے بھی مانگ لئے ۔‘‘

’’کراچی (جنگ نیوز) کچرا چنے والی خواتین پر شہریوں کا تشدد، انسانیت ایک بار پھر تماشا‘‘

’’وزیر اعلیٰ بزدار کا چھاپہ، دفتر تاخیر سے آنے پر سیکرٹری سیاحت اور عملہ معطل، ساڑھے دس بجے تک پورا دفتر خالی تھا ایسے لوگوں کو عہدوں پر رہنے کا کوئی حق نہیں ۔تادیبی کارروائی کا حکم‘‘

مقدس، غیر مقدس، معزز غیر معزز ہر قسم کے بلیک میلرز نے اس ملک کو ’’ماسی کا ویہڑا‘‘ بنایا ہوا ہے ۔اوپر سے نیچے تک جو جس کے جی میں آتا ہے، کر گزرتا ہے ۔وجہ ؟وہی ٹرانس پیرنسی پاکستان کا وہ انکشاف جس سے ہر کوئی پہلے ہی باخبر تھا کہ ’’پولیس اور عدلیہ ملک کے کرپٹ ترین ادارے ‘‘ اور ذرا پھر سے ملک کے وزیراعظم کے اس بیان پر ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں۔

’’الزام لگانے والا خود جج نہیں بن جاتا ۔دین کے نام پر ظلم کرنے و الوں کو نہیں چھوڑوں گا۔ اس الزام پر لوگوں کو بغیر مقدمہ چلائے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے ۔انہیں کوئی وکیل نہیں ملتا۔جج بھی کیس سننے سے گریز کرتے ہیں ۔فیصلہ کر لیا کہ اب آگے ایسا نہیں ہونے دینا‘‘…لیکن اس کیلئے آہنی ہاتھوں کی ضرورت ہو گی،حنائی ہاتھوں کی نہیں اور ’’آہنی ہاتھ‘‘ بھی محاورے والے نہیں واقعی ’’آہنی‘‘ ہونا ضروری ہو گا۔ وکلاء تحریک کے دوران جب برادر محترم بیرسٹر اعتزاز احسن نے اپنی نظم سنائی جس میں یہ مصرع بھی تھا ۔

’’ریاست ہو گی ماں کے جیسی ‘‘

تو میں نے عرض کیا تھا کہ …’’ریاست ماں جیسی تو ہو گی لیکن سوتیلی ماں جیسی ‘‘ کیونکہ میں جانتا تھا کہ ریاست کو ’’ماں‘‘ بنانے کیلئے سخت گیر، بااصول، پراعتماد’’باپ‘‘ بھی بہت ضروری ہے جس کے ہاتھ ’’آہنی‘‘ ہوں ….’’حنائی ‘‘ نہیں !

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

Source: Jung News

Read Urdu column Ahni Hathon se Hanaye Hathon tak By Hassan Nisar

Leave A Reply

Your email address will not be published.