ایک محبِ وطن پاکستانی – ڈاکٹر عبد القدیر

dr-abdul-qadeer-khan

کہوٹہ کی کہانی، میری زبانی آپ کئی بار سُن چکے ہیں یہ نہایت دلچسپ و روح پرور کہانی ہے۔ ایک ایسا پروجیکٹ، ایک ایسی کامیابی کہ جس نے پاکستان کو دنیا میں سرخرو کرکے ایک ناقابلِ تسخیر دفاع مہیا کردیا اور ہمارے سب سے بڑے اور خطرناک دشمن بھارت سے حساب برابر کردیا۔ آج کل آپ جو سینہ پھلا کر بھارت کو للکارتے ہیں وہ مرحوم بھٹو صاحب، جنرل ضیاء الحق، غلام اسحٰق خان صاحب اور میرے رفقائے کار اور مجھ خاکسار کے مرہونِ منّت ہے۔ 28؍مئی یوم تکبیر چلا گیا اور کسی نے غلام اسحٰق خان صاحب کا نام نہیں لیا حالانکہ اس پورے پروگرام میں ان کا کلیدی کردار تھا۔ میری ملاقات ان سے جولائی 1976ءمیں آغا شاہی صاحب کے دفتر میں ہوئی وہ اس وقت سیکریٹری جنرل وزارت دفاع تھے۔ دراصل میں نے بھٹو صاحب کو خط لکھ دیا تھا کہ اٹامک انرجی (جس کا میں ایڈوائزر تھا) میں کوئی کام نہیں ہورہا اور میرا وقت ضائع ہورہا ہے، میں واپس جانا چاہتا ہوں۔ انھوں نے مجھے ملاقات کیلئے گورنر ہائوس لاہور میں بلایا، میں نے ان کو تفصیل سے آگاہ کیا تو وہ بہت غصّہ ہوئے اور مجھ سے کہا کہ دو دن صبر کرلوں۔ دو دن بعد واقعی مجھے جنرل امتیاز کا فون آیا کہ شام 5بجے فارن آفس میں میٹنگ ہے، آپ وہاں آ جائیں۔ وہاں جناب اے جی این قاضی سیکرٹری جنرل فنانس اور غلام اسحٰق خان سیکریٹری جنرل دفاع موجود تھے۔ میں نے ان کو تمام تفصیل سے آگاہ کیا اور بتلادیا موجودہ حالات میں قیامت تک یہ کام نہ ہوسکے گا۔ انہوں نے مجھے چیئرمین اٹامک انرجی کمیشن بنانے کی پیشکش کی جو میں نے قبول نہ کی۔ وجہ یہ تھی اگر میں یہ عہدہ قبول کرلیتا تو مغربی ممالک کو فوراً میری مہارت کا علم ہو جاتا اور وہ ہمارے تمام راستے بند کر دیتے۔ میں نے مشورہ دیا کہ یہ کام بہت اہم اور بڑا ہے اس کو علیحدہ پروجیکٹ کے طور پر میرے حوالے کردیں اور میں وزیراعظم کی سربراہی میں یہ کام ان شاء اللہ کامیابی سے سرانجام دے دوں گا۔ مجھے دوسرے دن پھر 5بجے بلایا گیا اور وہاں پھر یہ تینوں سینئر افسران موجود تھے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے آپ کی تجویز پر غور کیا ہے اور ہم اس کو قبول کرتے ہیں۔ آپ نئی آرگنائزیشن بنالیں، آپ اس کے سربراہ ہوں گے۔ میں نے کہا کہ مجھے پوری آزادی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ وزیراعظم کریں گے۔ بھٹو صاحب کو فون کیا گیا اور بتایا کہ میں رُکنے پر تیار ہوں اور میرے لئے علیحدہ پروجیکٹ بنے گا۔ بھٹو صاحب نے میرا شکریہ ادا کیا۔ میں نے عرض کیا کہ مجھے پوری آزادی سے کام کی اجازت چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ دو تین دن بعد میٹنگ بلائیں گے تو اس پر بات کرلیں گے۔ دو دن بعد ان کے دفتر میں میٹنگ ہوئی، میں نے پھر آزادی سے کام کرنے کی درخواست کی۔ بھٹو صاحب نے کہا کہ وہ ایک بورڈ بنا رہے ہیں جس میں جناب اے جی این قاضی، جناب غلام اسحٰق خان صاحب اور جناب آغا شاہی صاحب ہوں گے اور اس بورڈ کو وہ اپنی پاورز دے رہے ہیں اور ان سے کہا ہےکہ مجھے کسی شکایت کا موقع نہ دیں۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ مجھےماہر انجینئرز کی ایک ٹیم دے دی جائے جن سے میں سول ورکس کا کام کرائوں گا۔ جنرل ضیاء الحق نے دوسرے دن صبح ایک ٹیم کو میرے پاس بھیج دیا کہ ہم ان سے سول ورکس کرائیں۔بہت تیزی سے ہماری ضروریات کے مطابق عمارتیں بننا شروع ہوگئیں۔ ہم نے تیزی سے کام کیا۔ ہم پورا ہفتہ اٹھارہ بیس گھنٹے کام کرتے تھے۔ بعد میں غلام اسحٰق خان بورڈ کے سربراہ بن گئے تھے اور ہمیں قریب سے ان کی صلاحیتوں سے واقفیت ہوئی۔ آپ بےحد قابل، ایماندار، اعلیٰ سمجھ بوجھ اور نہایت شفیق انسان تھے۔ آپ نے میرے کام سے متعلق مجھ سے ایک کتابچہ لکھوا لیا اور اس کو پڑھ کر ہمارے کام اور ہماری منزل مقصود سے پوری طرح واقف ہو گئے۔ میری درخواست پر آپ نے وزارتِ خزانہ سے ایک قابل، ایماندار، اچھے گھرانے کے جناب امتیاز احمد بھٹی کو ممبر فنانس لگا دیا، یہ ہمارے ساتھ تقریباً 20سال رہے۔ بہت پیارے دوست تھے، بعد میں ان کی جگہ وزارتِ خزانہ کے ہی محمد فہیم صاحب آگئے، یہ بھی بھٹی صاحب کی طرح گریڈ 22کے افسر تھے اور ہیرا تھے۔ اب بھی ہمارے فلاحی ادارے ساشے کے سربراہ ہیں۔ غلام اسحٰق خان نے (اپنی شہرت کے برعکس) مجھے پوری آزادی سے کام کرنے دیا۔ وہ ہر ماہ میٹنگ کرتے تھے اور پلانٹ کا چکر لگاتے، ان کے چہرے پر طمانیت اور خوشی قابل دید ہوتی تھی۔ میں نے اپنے ادارے کو خود کفیل بنا دیا تھا اور ہم باہر سے کسی چیز کے محتاج نہ تھے۔

میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ غلام اسحٰق خان صاحب کی ملک کیلئے خدمات نہایت اعلیٰ اور حب الوطنی پر مبنی تھیں۔ ہمارے پروگرام کی سربراہی سے پہلے صدر ایوب خان کے دور میں آپ کی محنت، مشورے سے تربیلا اور منگلا ڈیم بنے تھے۔ آپ کو ہر کام میں اعلیٰ مہارت تھی، آپ نیک و ایماندار تھے۔ میں ان کی اَپنے والد کی طرح عزت کرتا تھا اور مجھے یقین ہے کہ ان کے دل میں میری عزّت بھی اپنے بیٹے کی طرح تھی۔ غلام اسحٰق صاحب ہر مہینہ ایک مرتبہ ضرور کہوٹہ کا چکر لگاتے تھے، انہیں ہمارے پروجیکٹ سے بے حد محبت تھی وہ جانتے تھے کہ ہم پاکستان کے استحکام و سلامتی کیلئے کام کررہے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے بھی اصول بنا لیا تھا کہ جنرل علی ضامن نقوی اور مجھے کم از کم دو مرتبہ ہفتہ میں بلا لیتے تھے۔

غلام اسحٰق کی ملکی خدمات کی وجہ ہی سے میں نے GIKانسٹیٹیوٹ کا مشورہ دیا اور اس میں خون پسینہ ایک کرکے ایک نہایت اعلیٰ انسٹیٹیوٹ ان کے نام سے بنایا۔ یہ آج بھی ملک کا بہترین انسٹیٹیوٹ ہے، میں ملک کیلئے ان کی خدمات سے واقف ہوں جو ایٹمی قوت آپ بنے ہیں اس میں ان کا کلیدی کردار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر بھٹو صاحب کے بعد غلام اسحٰق خان صاحب پروگرام کے سربراہ نہ ہوتے تو پاکستان کبھی ایٹمی قوت نہیں بن سکتا تھا۔ 1993ء میں جناب غلام اسحٰق خان صاحب صدارت سے ریٹائر ہوگئے مگر وہ نہایت خوش قسمت شخص تھے کہ اپنی زندگی میں ہی اپنی محنت کا پھل ایٹمی طاقت ملک دیکھ لیا۔ اللہ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

source

Read Urdu column Aik Mohib e Watan Pakistani by Dr Abdul Qadeer khan

Leave A Reply

Your email address will not be published.