ایک نظریاتی جاسوس – اوریا مقبول جان

Orya Maqbool

آج کے دور میں کسی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کو محض ایک جاسوس کہنا، اس کی شخصیت اور کام کے ساتھ ناانصافی ہے۔ پوری دنیا میں اس وقت طاقت، قوت ، معیشت اور غلبے کی جو بساط بچھی ہوئی ہے اس کے پیچھے عالمی قوتوں کے خفیہ ادارے ہی متحرک ہیں ۔یہ تمام ادارے اپنی ایک آئیڈیالوجی رکھتے ہیں اور ہر ادارے کا سربراہ ایک ’’نظریاتی‘‘ شخص ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک زمانے تک آئی ایس آئی کو یہ اعزاز حاصل تھاکہ وہ ایک مکمل نظریہ رکھتی تھی ،پھر وقت کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتوں کی کاسہ لیسی میں اب ایک سادہ سی ایجنسی بن کر رہ گئی ہے۔ یہ نظریہ بنیادی طور پر مشن سٹیٹمنٹ جیسی کارپوریٹ چیزوں سے بالا تر ہوتا ہے۔ عمومی طور پر کسی ملک کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کو’’Chief Spy Master‘‘یعنی جاسوسوں کا نگران یا سب سے بڑا جاسوس کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ لقب بھی اس کی موجودہ دور میں تمام تر ذمہ داریوں اور کردار کا احاطہ نہیں کرتا۔ جس شخص کو میں نے ایک ’’نظریاتی جاسوس‘‘ کہا ہے وہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’رائ‘‘(R&AW) کا سابق سربراہ وکرم سود(Vikram Sood) ہے۔ اس کی تازہ ترین کتاب ایسی ہے کہ جسے دنیا کے ہر بڑے قومی ادارے، خصوصاً خفیہ اداروں کے نصاب میں شامل ہونا چاہیے۔ کتاب کا نام ہے ’’حتمی منزلِ مقصود‘‘ ۔ خطے میں جنرل حمید گل کے بعد یہ دوسرا متاثر کن ’’جاسوس‘‘ ہے جسے حالات و واقعات، تاریخ ، نظریہ اور جدید و قدیم علوم پر دسترس حاصل ہے۔ کتاب اسقدر مسحورکن ہے کہ آپ اسے پڑھنا شروع کردیں تو اس کا سحر آپ کو آخر تک لے جائے گا اور آپ انہماک سے پڑھتے چلے جائیں گے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’رائ‘‘کا یہ سربراہ آپ کو اس لیے بھی مزید حیران کر تا ہے کہ وہ ایک سابق فوجی نہیں ہے ،بلکہ اس کا زندگی بھر فوج سے کبھی بھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ وکرم سود بھارت کی سول سروس کی سب سے غیر اہم ’’پوسٹل سروس‘‘ سے تعلق رکھتا تھا۔ اپنی افتادِ طبع اور میلان کی وجہ سے اس نے 1966ء میں ’’رائ‘‘میں ڈیپوٹیشن حاصل کر لی۔

اس کے بقول وہ ایک ایسی شخصیت سے بہت متاثر ہوا جو انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس (IAS)سے بھارتی خفیہ ایجنسی میں آیاتھا۔ یہ شخص بی رامن تھا جو ’’راء ‘‘کے بانیوں میں سے ایک ہے۔ وکرم سود، واحد شخص ہے جس کا نہ فوج میں کسی قسم کا کوئی تجربہ تھا اور نہ ہی اس پولیس یا بارڈر سیکورٹی فورس میں کبھی نوکری کی تھی۔ وہ صرف اور صرف اپنی قابلیت کی بنیاد پر راء کا چیف بنا۔ پاکستان کے رہنے والوں کے لیے ایک اور بات بھی حیران کن ہو گی کہ وکرم سود نے جس شخص سے راء کے چیف کا چارج لیا، وہ شخص سندرا جن بھی کوئی فوجی نہیں تھا بلکہ انڈین پولیس سروس سے تھا۔ وکرم سود راء کا واحد سربراہ تھا جسے بھارتی بیوروکریسی میں سیکرٹری کا درجہ بھی دے دیا گیا تھا اور وہ ڈائریکٹر جنرل سیکورٹی بھی تھا۔عمومی طور پر راء کا سربراہ سیکرٹری کے ماتحت ہوتا ہے۔ اس کی کتاب میں لکھے ہوئے حقائق ہمیں اس لیے بھی حیران کن لگیں گے کیونکہ بھارت میں وقت کے ساتھ ساتھ ایک قومی نظریہ مضبوط سے مضبوط تر ہوا ہے اور ہمارے ہاں نظریے کی موت واقع ہوئی ہے۔ وکرم سود کی یہ کتاب کسی بھی قوم کے لیے ایک نظریے کی ضرورت کے گرد گھومتی ہے۔ وہ کہتا ہے کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے معاشی قوت اور فوجی طاقت کے ساتھ ایک جاندار نظریے کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ وہ اسے بیانیہ (Narrative)کہتا ہے۔اس کے نزدیک آج کی دنیا میں بیانیہ صرف اور صرف طاقت ور کا ہوتا ہے جسے وہ پوری قوت کے ساتھ دنیا بھر میں نافذ کرتا ہے۔ اس کا مقابلہ کرنا ہو توقومیں معاشی قوت یا فوجی طاقت سے نہیں بلکہ بیانیے کی بنیاد پر سرخرو ہوسکتی ہیں۔ کوئی بھی قوم جس کا اپنا کوئی نظریہ یا بیانیہ نہ ہو وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں اور معیشت کے باوجود کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ یہ کتاب جدید عالمی منظر نامے کی ایک ایسی مکمل تصویر ہے،

جس میں مصنف نے جدید مغربی تہذیب کے منہ سے نقاب نوچ ڈالا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ جنگِ عظیم دوم کے بعد امریکہ ، برطانیہ اور دیگر قوتوں نے اپنے لیے ایک طاقتور میڈیا تخلیق کیا۔ اس کے بعد میڈیا کے ذریعے یہ تصور عام کر دیا کہ جنگِ عظیم دوم میں برطانیہ اور اتحادیوں نے تو ایک پرندے کو بھی گولی نہیں ماری تھی۔ تمام دس کروڑ انسانوں کا قاتل صرف اور صرف ہٹلر تھا۔ ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر بم بھی انسانیت کو مزید ظلم سے بچانے کے لیے پھینکے گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ نریندر مودی ہندو قوم پرست ہے، تو کیا اسے کرسچن قوم پرست ہونا چاہیے۔ ہمارے بچپن میں بی بی سی کی ڈاکومنٹریاں آتی تھیں جن میں گائے کو دم گھماتے دکھایا جاتا تھا اور پھر خاص انداز میں تمسخر کے ساتھ کہا جاتا تھا کہ دیکھو ہندو اس کی پوجا کرتے ہیں۔ ہمیں ایسی قوم بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے جو سانپ کے آگے بین بجانے والی اور ریچھ بندر نچانے والی ہے۔ بیانیہ جیتنے والی قوت تخلیق کرتی ہے۔ اگر ہٹلر جیت جاتا تو آج اس کا بیانیہ پوری دنیا کا بیانیہ ہوتا۔ جنگِ عظیم دوم سے لے کر سویت یونین کے خاتمے تک امریکی اور مغربی طاقتیں سرد جنگ لڑتی رہی ہیں۔ اس دوران یہ انسانی حقوق کانام تک نہیںلیتی تھیں۔ اس وقت تووہ صرف دنیا میں جمہوریت نافذ کرنا چاہتی تھیں۔ کسقدر حیرت انگیز بات ہے کہ سرد جنگ کے دوران دنیا کے 65 ممالک کے ڈکٹیٹر امریکہ کے ساتھ مل کر دنیا میں جمہوریت نافذ کررہے تھے۔ بھارت کے پاس اگر فوج ہے تو ہماری فوج میں مشرقی، مغربی یا جنوبی کمانڈہوتی ہے۔ ہمارے جرنیلوں کی پوسٹنگ ملک کے اندر ہوتی ہے۔ لیکن امریکہ اپنی فوج کی کمانڈ اپنے ملک کے باہر رکھتا ہے۔ یہ یورپین کمانڈ ہے،

یہ انڈو پیسیفک ہے، یہ مڈل ایسٹ ہے، فارایسٹ ہے۔ جیسے ہم اپنے ملک کے مختلف حصوں میں افواج رکھتے ہیں ویسے ہی امریکہ ، برطانیہ، روس، چین، اور فرانس پوری دنیا کے مختلف حصوں میں افواج رکھتے ہیں۔ ہمارے کورکمانڈر اپنے ملک میںہوتے ہیں، ان کے کورکمانڈر دنیا میں پھیلے ہوتے ہیں۔ امریکہ میں ایک بہت بڑا تھنک ٹینک ہے کونسل آف فارن ریلیشنز۔ یہ 1918ء سے قائم ہے اور اس میں امریکہ کے تمام صدور ممبر ہیں۔ اسے ایک قسم کا دوسرا دفتر خارجہ کہتے ہیں۔ یہ امریکہ کا بیانیہ بناتا ہے۔ کہانی گھڑتا ہے اور پھر اس کہانی اور بیانیے کے ذریعے پوری دنیا پر حکومت کرتا ہے۔ صرف ایک ملک عراق میں آزاد اندازے کے مطابق امریکی افواج نے بیس لاکھ انسانوں کا خون بہایا ہے، جبکہ امریکہ کے ادارے جان ہاپکنز کے نزدیک چودہ لاکھ لوگوں کا قتل ہوا۔ کیا دنیا کا کوئی غریب ملک صرف چودہ ہزار لوگ بھی اس طرح قتل کر کے دنیا کے نقشے پر قائم رہ سکتا تھا۔اس کی تکا بوٹی کر دیتے۔ جس ملک نے بھی قتل کرنے ہیں،تواسے بڑی طاقتوںکی مرضی سے کرنا ہوں گے۔ وکرم کہتا ہے یاد رکھو! دنیا میں جمہوریت صرف اپنے ملک کے اندر ہوتی ہے اور وہ بھی جتنی اس کی ضرورت ہو،ملک سے باہر تو اقتدارِ اعلیٰ (Sovereignty)ہوتا ہے، غلبہ ہوتا ہے۔ آپ معاشی قوت بن جائیں، فوجی طاقت حاصل کر لیں، آپ پھر بھی غلام رہیں گے، ذہنی طور پر خود کو پسماندہ ہی تصور کرتے رہیںگے ۔ جب تک آپ اپنے لیے کوئی کہانی نہیں گھڑتے، کوئی بیانیہ نہیں بناتے، آپ کچھ بھی نہیں ہیں۔ امریکہ ، برطانیہ، فرانس، روس سب کے ہاتھ انسانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔سب کا ماضی ظالموں کا ماضی ہے، سب نے کئی کئی کروڑ لوگ مارے ہیں۔ ہر ایک کے ماضی میں کوئی نہ کوئی ریڈ انڈین موجود ہے اور کوئی ایک نو آبادیاتی کالونی بھی۔لیکن انہوں نے دنیا کے سامنے خود کو ایسے پیش کر رکھا ہے، جیسے ان کا دامن بہت صاف ہے اور یہ صرف انصاف، امن اور انسانی حقوق کے علمبردار ہیں۔ ان کا بیانیہ اس لیے بھی کامیاب ہوتا ہے کیونکہ ان کے پاس بیانیہ ہوتا ہے۔ ہم اس لیے ناکام ہیں کہ ہمارا اپنا کوئی بیانیہ نہیں ہوتا، ہم ان کے بیانیے پر چلتے ہیںاور ذلیل و رسوا ہوتے ہیں۔

Source: 92 news
Must Read Urdu column Aik Nazaryati Jasoos By Orya Maqbool jan

Leave A Reply

Your email address will not be published.