آخری اہم قدم ! – علی معین نوازش

ali-moeen-nawazish

ووہان چین، جہاں کورونا وائرس کا سب سے پہلا کیس سامنے آیا تھا، دنیا میں اِس وائرس كے سبب پہلا لاک ڈاؤن وہیں کیا گیا تھا اور وائرس كے بارے میں ابتدائی معلومات بھی ووہان سے ہی سامنے آئی تھیں۔ یہ وہی ووہان ہے جس میں ایک جانور سے اِس وائرس نے پہلی دفعہ انسانوں میں ’’چھلانگ‘‘ لگائی اور دنیا بھر کو ہلا كے رکھ دیا۔ یہ وہی ووہان ہے جہاں چین نے 10دن میں پُورا اسپتال کھڑا کركے ایک نئی عالمی تاریخ قائم کی۔ یہ وہی ووہان ہے جہاں پر مریضوں نے اِس وائرس کا مقابلہ کسی بھی موثر دوائی، علاج کے طریقے اور طبی عملے کی معلومات كے بغیر کیا اور وہاں كے لوگوں نے بیشتر قربانیاں بھی دیں۔ ووہان میں 3869لوگ کورونا کی وجہ سے جانوں سے ہاتھ دو بیٹھے اور یہ کورونا کی وجہ سے پورے چین کی ہلاکتوں کا 80فیصد سے زائد ہے لیکن یہی ووہان کافی عرصے سے باقی دنیا سے زیادہ نارمل انداز سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے نظر آرہا ہے۔ یہاں اپریل 2020سے دکانیں، ریستورانٹ اور دیگر کاروبار کھلے تھے اور اب واپس کورونا سے پہلے کی دنیا میں جانے کا آخری قدم بھی ووہان نے اٹھا لیا ہے۔

ووہان، جہاں دنیا كے دیگر ممالک کی طرح تعلیمی ادارے بند تھے اور کلاسز وغیرہ آن لائن ہوں رہی تھیں، وہاں یکم ستمبر سے 2842اسکول جن میں 14لاکھ سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں، کھل گئے ہیں۔ وہاں کی انتظامیہ کا کہنا ہے وہ ہنگامی حالات ہونے کی صورت میں واپس آن لائن جانے کی تیاریاں کی ہوئی ہیں لیکن اُمید ہے کہ ایسی صورتحال نہیں بنے گی۔ تمام تعلیمی اداروں کو حفاظتی تدابیر اور ایس او پیز پر عمل کی سخت ہدایات دی گئی ہیں۔ یہ دنیا كے بہت سارے ممالک كے برعکس ہے جہاں کیسز کم ہونے كے بعد دوبارہ بڑھنا شروع ہو گئے ہیں اور بالخصوص مغربی ممالک میں تو ایسا بھی لگ رہا ہے کہ جب تک ویکسین یا علاج نہیں آئے گا تو معمول کی زندگی بھی شروع نہیں ہو سکے گی۔

پاکستان پر اللہ کی خاص رحمت رہی ہے، ہم بخوبی جانتے ہیں كہ یہاں لوگوں نے کتنی سنجیدگی سے کورونا کو لیا، ایس او پیز پر کتنا عمل ہوا اور پہلے چند دن یا ہفتوں كے بعد لاک ڈاؤن کتنا موثر رہا لیکن پِھر بھی دنیا بھر اور اپنے خطے کے مقابلے میں بھی ہمارے کیسز کم رہے، جن کو کورونا ہوا بھی وہ صحت یاب ہوگئے اور یہاں پر اس كے باعث ہلاکتیں بھی کم ہوئیں۔ اِس خاکسار کو بھی یہ بیماری ہوئی تھی لیکن اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے كہ ایک عام نزلے یا زکام سے بھی کم شدت کی تھی۔

اقوامِ متحدہ كے مطابق دنیا كے 90فیصد طلبا کا تعلیمی سفر اِس وبا کی وجہ سے کسی نا کسی طرح متاثر ہوا ہے۔ ماہر تعلیم بتاتے ہیں کہ یہ سب بچوں کی نفسیاتی صحت اور تعلیمی قابلیت دونوں كے لئے بڑا منفی ثابت ہوا ہے، اسلئے جہاں پاکستان میں اب کورونا كے کیسز بھی کم ہیں اور چند دن پہلے کورونا كے باعث سب سے کم ہلاکتیں بھی ریکارڈ کی گئیں اور تحقیق جب یہ بھی بتاتی ہے كہ یہ بیماری بچوں کیلئے خطرناک نہیںہے تو ہمیں بھی اسکول کھولنے چاہئیں۔ یہ ہمارے بچوں كے مستقبل کا مسئلہ بھی ہے اور چونکہ بہت سے تعلیمی ادارے پاکستان میں نجی ہیں تو معیشت اور لوگوں كے روزگار کا مسئلہ بھی ہے۔ جہاں تک بات رہے شفٹوں کی یا مختلف دنوں کی تو ایسا ابتدائی طور پر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن جہاں تمام بازار، دفاتر وغیرہ اپنے کورونا سے پہلے كے اوقات اور معمول پر آگئے ہیں اور الحمدللہ ہمارے ہاں کورونا بڑھا نہیں تو تعلیمی اداروں کو بھی جلد واپس اپنے پرانے اوقات پر لے آنا چاہئے۔

واپس آن لائن اگر جانے کی ضرورت پڑھی تو اِس کا بھی انتظام اور منصوبہ بندی ہونی چاہئے۔ یہ دن بڑے مشکل رہے ہیں، بہت سے طلبا كے لئے بالخصوص وہ جن كے پاس انٹرنیٹ کی سہولت یا تو موجوود نہیں تھی، بالخصوص جی بی، بلوچستان اور کے پی كے طالب علم جن کو دور دراز کبھی دریا كے کنارے اور کبھی پہاڑ پر سگنلز تلاش کرتے کرتے آن لائن کلاسز لینا پڑھتی تھیں۔ پِھر آن لائن کلاسز كے معیار پر بھی بہت سے سوالات اٹھے۔ اِس كے علاوہ امتحانات اور دیگر چیزوں نے بھی طلبا اور ان کے والدین کی زندگیوں کو مشکل میں ڈالا۔ پاکستان کے حالات کو دیکھ کر ایسا ہی لگتا ہے كہ تعلیمی ادارے کھولنے کا فیصلہ بالکل درست ہے۔ اللہ اسی طرح ہمیں اپنی حفاظت میں رکھے لیکن اب یہ ذمہ داری ہمارے تعلیمی اداروں پر عائد ہے كہ وبا كے دوران جو بچوں کی تعلیم میں خامیاں یا کمی آئے ہے اُس کو بھی پُورا کیا جائے، طلبا کو فیسیلی ٹیٹ کیا جائے۔ طالب علموں کی بھی یہ ذمہ داری ہے كہ وہ سنجیدگی سے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھیں اور کورونا کو مزید بہانہ نا بنائیں۔

اب جبکہ 15 ستمبر کو تعلیمی ادارے کھل رہے ہیں اور پیر والے دن اِس کا فیصلہ وفاقی اور صوبائی وزرائے تعلیم نےکر لیا ہے۔ اِس ضمن میں مختلف صوبوں میں حالات کی مناسبت سے مختلف اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں اور پہلے یونیورسٹیز اور بڑی کلاسزکو دوبارہ شروع کیا جا رہا ہے۔ ہم نے بھی ووہان کی طرح معمول کی زندگی اور بچوں کے محفوظ مستقبل کی طرف آخری اہم قدم اُٹھا لیا ہے۔

Must Read Urdu column Akhri Aham Iqdam By Ali Moeen Nawazish
Source: Jang

Leave A Reply

Your email address will not be published.