امن، جنگ اور جدید دنیا – حسن نثار

hassan-nisar

کیا آج کی دنیا میں کسی سکندر، چنگیز خان یا امیر تیمور کیلئے کوئی گنجائش ہے ؟ بہت سے سیاسی فلاسفرز کا خیال ہے کہ بین الاقوامی جنگوں کا خاتمہ مغربی یورپی جمہوریتوں کا کمال ہے ۔جنوبی امریکہ کے ممالک کے درمیان آخری سنجیدہ جنگ 1941ء میں پیرو اور ایکواڈور کے درمیان اور 1932ء سے 1935ء تک بولیویا اور پیراگوئے کے درمیان لڑی گئی اور اس سے قبل جنوبی امریکی ممالک کے درمیان 1879ء سے 1884ء کے بعد کوئی جنگ نہیں ہوئی ۔عرب دنیا میں حصولِ آزادی کے بعد صرف ایک ملک نے دوسرے ملک پر چڑھائی کی ۔ میرا اشارہ 1990ء میں کویت پر عراقی حملہ کی طرف ہے یعنی عرب ممالک میں گلف وار کے علاوہ کوئی بڑی جنگ نہیں ہوئی ۔اگر ہم اس منظر نامہ کو پوری اسلامی دنیا پر پھیلا کر دیکھیں تب بھی صرف ایک ہی مثال ملتی ہے یعنی ایران عراق جنگ۔

افریقہ میں بھی زیادہ تر جھڑپیں خانہ جنگیوں اور بغاوتوں پر ہی مشتمل ہیں۔صحیح معنوں میں امن صرف دنیا سے جنگ کی عدم موجودگی کا نام نہیں صحیح معنوں میں امن جنگ کے امکان کا خاتمہ ہے ۔دنیا میں حقیقی امن کبھی نہیں رہا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ امن اور جنگ کی شکلیں ضرور تبدیل ہوئی ہیں ۔اول تو جنگ اتنی مہنگی ہو گئی ہے کہ اسے افورڈ کرنا آسان نہیں رہا ۔دوسری قیامت سائنس اور ٹیکنالوجی کی شکل میں سامنے آئی۔ماضی میں فصلیں، مویشی، غلام، سونا چاندی وغیرہ فتح کے انعامات ہوتے تھے جبکہ آج کل اصل دولت زیادہ تر انسانی کمالات اور تنظیمی سوجھ بوجھ پر مشتمل ہے جسے لوٹنا اور بندوق کے زور پر ہتھیانا تقریباً ناممکن ہے مثلاً کبھی کیلی فورنیا کی وجہ شہرت اور کشش اس کےسونے کے ذخائر تھے لیکن آج اس کی عظمت و شہرت کا حوالہ سیلی کون کی وادی اور ہالی وڈ کی پہاڑیاں ہیں ۔سیلی کون کی وادی میں سیلی کون کی دکانیں نہیں بلکہ اس کا اصل خزانہ تو گوگل انجینئروں کے زرخیز دماغوں اور ہالی وڈ کے سکرپٹ رائٹروں، ہدایت کاروں اور دیگر ماہرین کی مہارتوں میں پوشیدہ ہے ۔مختصراً یہ کہ جنگوں اور روایتی قسم کی مادی دولت میں وہ تعلق ختم ہوتا جا رہا ہے جو کبھی ماضی میں ہوا کرتا تھا لیکن پسماندہ ذہنیتیں یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کسی بھی ’’ترقی پذیر‘‘ ملک کو ایک سال، چھ ماہ کی جنگ کم از کم ایک صدی پیچھے دھکیل سکتی ہے ۔آج کی جنگ میں کسی ایک فریق کی فیصلہ کن فتح تقریباً ناممکن ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ ’’امن‘‘ کو قائم رکھتے ہوئے انسانوں کے درمیان ’’جنگ‘‘ بہرحال جاری رہے گی کیونکہ آج امن اور جنگ ….دونوں کی DEFINITIONSتقریباً تبدیل ہو چکی ہیں۔ جدید سرمایہ داری اور ڈیجیٹل معیشت کا محور ومرکز تبدیل ہو چکا اور جو قومیں اسے نہ سمجھتے ہوئے اپنی ترجیحات تبدیل نہیں کریں گی انہیں اس کی بھاری قیمت ادا کرنا ہو گی۔ ’’شمشیروسناں اول ‘‘ کے زمانے لَدگئے اور اگر موجود بھی ہیں تو آج کے ’’شمشیروسناں‘‘ کی شکلیں اور اہداف بالکل مختلف ہوں گے۔ اسی لئے دوسری جنگ عظیم میں ہیروشیما اور ناگا ساکی کے ایکشن ری پلے کی جرأت نہیں ہوئی۔

چلتے چلتےاحتیاطاً یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ انسانی دماغ کا ایک مخصوص حصہ لاجک اور ریزن یعنی منطق اور دلیل وغیرہ کےساتھ تعلق رکھتا ہے اور اگر کسی قوم، قبیلے، کمیونٹی میں چند نسلوں تک کسی بھی وجہ سے اس کا استعمال بند ہو جائے تو ایسے حالات میں دماغ کا وہ مخصوص حصہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے فارغ ہو جاتا ہے ۔نتیجتاً ایسے لوگ فہم ودانش سے محروم ہو جاتے ہیں اور ان کی زندگیاں صرف کھوکھلے جوش اور جذبوں کے گرد گھومتے گھومتے گرد میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

Source: Jung News

Read Urdu column Aman Jung aur Jadeed Dunya By Hassan Nisar

Leave A Reply

Your email address will not be published.