امریکی دھوکہ دہی – اوریا مقبول جان

9759137

جنوبی ویتنام کے دارالحکومت سائیگون میں امریکی سفارتخانے کی چھت پر ہیلی کاپٹر آ کر ٹھہرتے اور وہاں موجود امریکی فوجیوں کو نکال کر لے جاتے۔ یہ چند ہزار امریکی فوجی ان پانچ لاکھ فوجیوں میں سے تھے جو امریکہ کی ویتنام میں شکست اور معاہدے کے بعد واپس بلائے جارہے تھے۔ 30 اپریل 1975 کو ان ہیلی کاپٹروں کی خصوصی پروازیں جاری تھیں۔ امریکی سپاہی اسقدر جلدی میں تھے کہ ہیلی کاپٹر کی دم پکڑ کر لٹک جاتے۔ اسی دوران امریکی وائرلیس پر یہ پیغام نشر ہوا کہ تقریبا ساڑھے چار سو ویت نامی حکومتی ارکان جنہوں نے ایک دہائی سے زیادہ امریکیوں کے ساتھ مل کر اپنے بھائیوں کا قتل عام کیا تھا وہ ایمبیسی میں گھس آئے ہیں اور ان ہیلی کاپٹروں میں سوار ہوکر امریکی سپاہیوں کے ساتھ امریکہ فرار ہونا چاہتے ہیں۔ اس پورے آپریشن کے انچارج میجر جیمز کین (James kean) نے وائرلیس پرحکام کو بتایا کہ سفارتخانے کی حالت بالکل ایسی ہی ہو گئی ہے جیسے ساحل سمندر پر فلمائی جانے والی کسی فلم کے مناظر ہوں۔ علی الصبح،سات بج کر اکیاون منٹ پر امریکی ہیلی کاپٹر CH46 ہوا میں نمودار ہوا جس نے ایک خفیہ کوڈ میں ایمبیسی کو پیغام دیا ”Swift 22”۔ اس پیغام کا مطلب تھا کہ یہ آخری

پرواز ہوگی۔ آخری امریکی سپاہی اس ہیلی کاپٹر میں سوار ہوا اور انچارج نے ہیلی کاپٹر کا دروازہ بند کرنے سے پہلے چھت پر موجود امریکی وفادار ساڑھے چار سو ویتنامیوں سے ویتنامی زبان میں کہا ”Khong ai se bi bo lai” جس کا مطلب تھا ہم آپ لوگوں میں سے کسی کو بھی یہاں چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ لیکن وہ بدنصیب ویتنامی پورا دن امریکی سفارتخانے کی چھت پر کھڑے آسمان کو تکتے رہے لیکن پھر کوئی ہیلی کاپٹر نہ آیا۔ آج یہی حالت شام اور عراق میں کردوں کی ہے اور افغانستان سے بھی امریکہ نے آہستہ آہستہ خاموشی اور رازداری سے اپنے فوجیوں کو واپس بلانا شروع کر دیا ہے۔ افغانستان کا معاملہ تو ویتنام کی طرح ہے کہ وہاں ویسے ہی مذاکرات جاری ہیں جیسے ویتنام گوریلوں کے کے لیڈر لی ڈک تھو (Le Duc Tho) اور ہنری کسنجر کے درمیان پیرس میں جاری تھے۔ اس معاہدے کا کمال یہ تھا کہ اس میں امریکی اشاروں پر ناچنے والی جنوبی ویتنام کی حکومت ہی صرف ختم نہیں کی گئی تھی بلکہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد وہ ملک ہی دنیا کے نقشے سے مٹا دیا گیا تھا اور اب پورے ویتنام پر امریکہ سے لڑنے والے ”ہوچی منہ” اور اس کے گوریلوں کی حکومت تھی۔جس طرح امریکہ اپنے

وفاداروں کو تنہا چھوڑ کر بھاگ نکلا، آج ویسی ہی حالت اٹھارہ سال سے امریکہ کا ساتھ دینے والے افغان حکمرانوں کی ہے۔آج جس طرح امریکی آہستہ آہستہ افغانستان سے بھاگ رہے ہیں، ایک دن یہ افغان حکومت بھی طالبان کے رحم وکرم پر ہوگی۔ وہ طالبان جنہیں امریکہ کی طاقت اور ٹیکنالوجی شکست نہ دے سکی، انکے سامنے ان بھگوڑوں کی حکومت کیا ٹھہرے گی جو خود امریکی افواج کی پناہ میں افغانستان واپس لوٹے تھے۔ لیکن بے وفائی اور دھوکے کا جو باب کردوں کے ساتھ تحریر ہورہا ہے وہ امریکہ کے فریب اور دوستوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کی بدترین مثال ہے۔ امریکی فوجی شام کے شہروں سے کردوں کو تنہا چھوڑ کر اپنے محفوظ ٹینکوں میں روانہ ہو رہے ہیں اور بیبس کرد ان پر غصے میں ٹماٹر اور پتھر پھینک رہے ہیں۔ گذشتہ ایک سو سال میں کرد عوام کے ساتھ یہ آٹھواں دھوکا ہے۔ ان آٹھوں دھوکوں کی تاریخ ”The intercept” کے کالم نگار جان شوارز (Jon Schowarz) نے اپنے مضمون میں ایک ترتیب سے تحریر کی ہے۔ اس کے نزدیک امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے کردوں کو پہلا دھوکا اس وقت دیا جب 1920 میں ان سے معاہدہ کیا کہ اگر وہ خلافت عثمانیہ کے خلاف انکا ساتھ دیں گے تو انہیں ایک ملک عطا کر دیا جائے گا، یہ معاہدہ Treaty of sevres کہلاتا ہے۔ لیکن 1923 میں ایک نیا معاہدہ ہوا جسے Treaty of Lausanne کہتے ہیں،جس کے تحت کردوں کو پانچ ملکوں میں تقسیم کر دیا گیا۔لیکن امریکہ نے کردوں کو اسلحہ دیا،آزادی کا خواب دکھایا اور انہوں نے ترکی کی سرزمین پرکرد جمہوریہ ارارات

کا اعلان کردیا۔لیکن پھر امریکہ اور برطانیہ ترک حکومت کے ساتھ ہوگئے۔کردوں کو تنہا چھوڑ دیا۔ کردوں کو دوسرا دھوکہ اس وقت دیا گیا جب کردوں کو عراق کے حکمران عبدالکریم قسیم کے خلاف لڑنے کے لیے اسلحہ دیا گیا، لیکن ساتھ ہی صدام حسین کو قسیم کا تختہ الٹنے میں مدد دی گئی۔ جیسے ہی صدام حسین کامیاب ہوا کردوں کو تمام سپلائی روک دی گئی اور صدام حسین نے قوت سے ان پر قابو پالیا۔ 1970 میں صدام حسین اور عراقی حکومت سوویت یونین کے گروپ میں شامل ہوئی تو امریکہ نے شاہ ایران کے ذریعے ایرانی کردوں کو مسلح کیا تاکہ وہ عراق میں جاکر کاروائیاں کریں۔ صدام حسین نے شمال کی طرف پیش قدمی کی اور امریکہ نے صدام اور شاہ ایران کے درمیان صلح کروادی۔ کردوں کی مدد رک گئی اور ہزاروں کرد بے یارومددگار قتل کر دیے گئے۔ یہ امریکہ کا تیسرا دھوکا تھا۔ چوتھی دفعہ 1980 میں صدام حسین نے کردوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کیے جس کا علم امریکی حکومت کو تھا۔ کانگریس میں صدام حسین پر پابندیاں لگانے کی سفارش کی جسے رد کردیا گیا کیونکہ صدام اس وقت اسلامی ایران سے جنگ میں امریکی مفاد پورا کر رہا تھا۔ پانچویں دفعہ جب 1991 میں پہلی عراق جنگ میں امریکہ نے عراق پر بمباری شروع کی تو جارج بش نے عراق کے شیعہ اور کرد وں سے کہا کہ وہ صدام کی فوج کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ لیکن اسی جنگ کے دوران عراقی فوج نے ہزاروں باغیوں کو قتل کیا اور امریکی فوج تماشہ دیکھتی رہی۔ چھٹی دفعہ امریکہ نے اسی جنگ کے فورا بعد کردوں

سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ساتھ ملایا۔ سرمایہ اور انسانی مدد فراہم کی اور پھر اسلحہ دے کر انہیں مسلح کیا۔ اسی دوران وہی اصطلاح استعمال ہوئی جو آجکل طالبان کے بارے میں ہوتی ہے یعنی ”گڈ کرد” اور ”بیڈ کرد”۔ گڈ کرد عراقی تھے اور بیڈ کرد ترکی میں رہنے والے۔ یوں ترکی کو اسلحہ اور جدید ہتھیار فراہم کئے گئے جس کی وجہ سے کردوں کے ہزاروں گائوں مسمار کردیئے گئے۔ ساتواں دھوکہ بہت بڑا تھا۔ عراق پر 2003ء میں حملے سے پہلے کردوں کو آزاد کرد ریاست کا لالی پاپ دیا گیا۔ انہوں نے عراقی شیعوں کے شانہ بشانہ امریکہ کا ساتھ دیا۔ صدام حسین کو شکست ہوئی، لیکن کرد اسکے بعد بھی خاک و خون میں نہلاتے رہے۔ اب تو وہ اس جنگ زدہ زون کے سب سے زیادہ متاثرہ فریق بن گئے ہیں۔ شام، عراق، ترکی، اور ایران ہر کوئی انکے قتل کے درپے ہے۔ جہاں کہیں گروہوں میں جنگ شروع ہوتی ہے تو کردوں کی زمین ہی استعمال ہوتی ہے اور ان کے افراد اور خاندان متاثر ہوتے ہیں۔ عراق حکومت بنے کئی سال ہوگئے لیکن کرد آج بھی اسی طرح ذلیل و رسوا ہیں۔ آٹھویں دھوکے کا آغاز اس وقت ہوا جب کردوں کے جنرل مظلوم نے امریکی حکام سے کہا کہ تم ترکی کے ساتھ مل کر ہمیں مروانا چاہتے ہو۔ دیکھو ہم روس کے ساتھ مل جائیں گے۔ اس کے بعد ترکی نے شام پر حملہ کیا تو امریکہ شام کو روس کے حوالے کر کے آرام سے نکل گیا اور کرد بے بسی سے دیکھ رہے ہیں کہ یہ تو وہی روس تھا جس کا ہم نے ڈراوا دیا تھا۔اب یہ روس ہمارے ہی خلاف ہے۔ کاش یہ کرد ایک بات سمجھ لیتے کہ انہیں یہ دھوکے اس لیے نہیں مل رہے کہ وہ کرد ہیں، بلکہ اس لیے مل رہے ہیں کہ وہ چار کروڑ مسلمان ہیں۔ یہی چار کروڑ اگر ایک امت واحدہ کی بات کرتے تو آج اس طرح ذلیل و رسوا نہ ہوتے۔ ترکی میں ہوتے تو وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ ہوتے، شام، عراق اور ایران میں مسلم امہ کی بات کرتے تو کردوں کی سرزمین آج اس امت کی مرکزی سرزمین بن جاتی، وہ امت کی وحدانیت کے علمبردار بن جاتے، پرچم بردار ہوتے۔

Source: 92 news
Must Read Urdu column Amriki dhoka dahi By Orya Maqbool jan

Leave A Reply

Your email address will not be published.