اندھے کیمرے، گونگے اینکرز – انصار عباسی

Ansar Abbasi

نجانے یہ کسی ایجنڈے کا نتیجہ ہے یا محض اتفاق لیکن وجہ جو بھی ہے، اس سے میڈیا خصوصاً ٹی وی چینلز کے کردار پر سوال ضرور اُٹھتا ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ اگر اسلامی شعائر کی بات ہو، پردے کے حق میں اور فحاشی کے خلاف تو ہمارے ٹی وی چینلز عموماً وہ بات کرتے ہیں جو مغربی دنیا میں کی جاتی ہے۔ اسلام کے کیا احکامات ہیں، ہمارا آئین اور قانون کیا کہتا ہے؟ یہ بات کم ہی کی جاتی ہے اور یوں ہم بتدریج صرف کاغذی طور پر ہی ایک اسلامی ریاست بن کر رہ گئے ہیں جبکہ عملاً یہاں معاشرے بے راہ روی کے فروغ کے لئے وہ سب کچھ ہو رہا ہے جو ایک مغربی طرز کی لبرل اور سیکولر ریاست میں ہوتا ہے۔ ورنہ اسلام کی بات کی جائے اور ٹی وی چینلز آپ پر چڑھ دوڑیں تو یہ کیسا اسلامی پاکستان ہے؟ یہاں تو وزیراعظم تک اگر فحاشی کے خلاف بات کریں یا پردے کے حق میں بولیں تو اُن کے خلاف بھی چینلز ایسے بیانات کو اپنی مرضی کے معنی پہنا کر اُن کے پیچھے ایسے پڑجاتے ہیں جیسے اُنہوں نے کوئی جرم کر دیا ہو۔ صاف نظر آتا ہے کہ تکلیف اس بات پر ہے کہ وزیراعظم ہو کر پردے کے حق اور فحاشی کے خلاف کیسے بات کر دی۔ قارئین کی یاد دہانی کے لئے کچھ حقائق یہاں پیش کر رہا ہوں جس کے بعد اصل موضوع پر آئوں گا۔ پنجاب اسمبلی کی ایک خاتون رُکن نے ایک قرارداد پیش کی کہ پنجاب میں اسٹیج ڈراموں میں فحش ڈانس بند کروایا جائے۔ اسمبلی نے متفقہ طور پر یہ قرارداد پاس کر دی لیکن چند ایک چینلز نے اسے آرٹ اور کلچر پر حملہ قرار دے کر ایسی مہم چلائی کہ اُس وقت کی حکومت کے اہم عہدیداروں کو معافی مانگنے کے انداز میں چینل پر آ کر یہ کہنا پڑا کہ ہم ایسا کچھ نہیں کر رہے۔ یعنی فحش ڈانس کو روکنا چینلز نے آرٹ اور کلچر پر حملہ ثابت کروا کےچھوڑا۔ اسی طرح پنجاب حکومت کے ایک متعلقہ وزیر نے یہ حکم جاری کیا کہ صوبے کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی ایسی طالبات جو اپنا سر ڈھانپ کر تعلیمی اداروں میں آئیں گی اُنہیں پانچ فیصد حاضریوں میں استثنا دیا جائے گا۔ اس اقدام کا مقصد تعلیمی اداروں میں آئین پاکستان کے مطابق اسلامی ماحول کی فراہمی کے لئے حوصلہ افزائی کرنا تھا۔ اس پر پھر میڈیا برہم ہوا، مہم چلائی گئی، کہا گیا کہ ناانصافی ہو گئی جس پر پنجاب حکومت اپنے فیصلہ سے پیچھے ہوگئی۔ اسی طرح خیبر پختون خوا کے چند اضلاع میں متعلقہ انتظامیہ نے یہ حکم جاری کیا کہ طالبات چادر یا برقع اوڑھ کر اسکول یاکالج آئیں تاکہ اُنہیں ہراساںنہ کیا جائے۔ یہ حکم بھی اسلامی تعلیمات اور آئینِ پاکستان کے مطابق تھا لیکن چند چینلز نے اس پر بھی کمپین چلائی اور کہا حکومت کون ہوتی ہے اس قسم کا فیصلہ کرنے والی؟ اس مہم کے نتیجے میں صوبائی حکومت اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹ گئی۔ مختلف اوقات میں پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی ایک نہیں کئی یونیورسٹیوں نے طلبہ و طالبات کے لئے ڈریس کوڈ کے حوالے سےحکم نامہ جاری کیا تاکہ غیرمہذب لباس پہن کر یونیورسٹی آنے والوں کو روکا جا سکے۔ اس پر بھی میڈیا ہر بار تڑپ اُٹھا اور ہر ایسی یونیورسٹی کے خلاف مہم چلائی گئی جس پر اکثر جامعات نے اپنے فیصلے واپس لے لئے۔ سوات یونیورسٹی نے ایک ہدایت نامہ جاری کیا جس کا مقصد کیمپس میں لڑکے لڑکیوں میں دوستیوں اور افیئرز کی حوصلہ شکنی کرنا تھا تاکہ وہ اپنے اصل مقصد یعنی حصولِ تعلیم پر فوکس کریں۔ اس پر بھی میڈیا چیخ اُٹھا اور یونیورسٹی ا نتظامیہ کو مجبور کر دیا گیا کہ وہ اپنا فیصلہ واپس لے لے۔

ایسی بہت سی مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔ اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد ہائی وے پر قائداعظم محمد علی جناح کے پورٹریٹ کے پاس سرعام بےحیائی کا ایسا تماشہ سجایا گیا جسے چند ایک چھوٹے ٹی وی چینلز کے علاوہ ہمارا میڈیا دیکھنے سے قاصر رہا۔ جو لوگ اسلام آباد سے واقف ہیں اُنہیں معلوم ہے کہ قائد کے اس پورٹریٹ کے ساتھ ہی ایمان، اتحاد اور تنظیم کے الفاظ (انگریزی اور اردو) بھی لکھے ہیں۔ قائداعظم کے پورٹریٹ اور ایمان (Faith)کے لفظ کے بالکل سامنے ایک نوجوان لڑکے اور لڑکی نے فوٹو شوٹ کیا۔ وہ دونوں نیم برہنہ تھے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے چند ایک افراد (جن میں ن لیگ کے سینیٹر ڈاکٹر افنان مشاہدﷲ بھی شامل ہیں) کے مطابق یہ دراصل ہم جنس پرستی کو پروموٹ کرنے کا شو تھا۔ اس پر چند ایک چھوٹے ٹی وی چینلز نے تو آواز اُٹھائی لیکن بڑے چینلز خاموش رہے، اس کے باوجود کہ اس معاملے پر سوشل میڈیا میں بہت شور مچا جس کے نتیجہ میں متعلقہ افراد کے خلاف سرعام بےحیائی پھیلانے پر اسلام آباد پولیس نے ایف آئی آر بھی درج کر دی۔ میرا ٹی وی چینلز اور میڈیا سے سوال ہے کہ اسلامی تعلیمات کے برعکس، ہمارے آئین اور معاشرتی اقدار کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وفاقی دارالحکومت کی سب سے بڑی شاہراہ کے کنارے سرعام بےشرمی، بےہودگی اوربےحیائی کا یہ تماشہ ہوا، کیا اس پر میڈیا کو خاموشی اختیار کرنی چاہئے تھی؟ پردے کے حق میں کوئی بات ہو تو میڈیا کیوں بھڑک اُٹھتا ہے اور بےحیائی اور ہم جنس پرستی کا سرعام مظاہرہ کیا جائے تو قانونی طور پر جرم ہونے کے باوجود ہمارے چینلز کو یہ گندگی کیوں نظر نہیں آتی؟ ایسے معاملات پر ہمارے اکثر چینلز کے کیمرے اندھے اور ہمارے زیادہ تر اینکرز گونگے کیوں ہو جاتے ہیں؟

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

Source: Jung News

Read Urdu column Andhay Cameray Gongay Anchors By Ansar Abbasi

Leave A Reply

Your email address will not be published.