اپنے بچے بچائیں – جاوید چوہدری

Javed Chaudhry

واش روم کا ماحول خوف ناک حد تک گندا تھا‘ چھوٹے بچے کی نیکر جوتوں پر گری ہوئی تھی اور وہ دونوں ہاتھ کموڈ میں ڈال کر پانی باہر فرش پر پھینک رہا تھا‘ دوسرا لڑکا ذرا بڑا تھا شاید اس کی عمر چار سوا چار سال ہو گی۔

وہ یوری نل(Urinal) کے ساتھ لٹکنے کی کوشش کر رہا تھا اور اس سے بڑا لڑکا وینٹی سے ہینڈ ٹاولز اٹھا اٹھا کر ڈسٹ بین میں پھینک رہا تھا جب کہ چوتھا لڑکا بارہ تیرا سال کا تھا‘ وہ حلیے سے ان کا ملازم لگتا تھا‘ وہ بار بار اپنے ہاتھ ڈرائیر کے نیچے رکھتا تھا‘ سینکتا تھا اور پھر شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر انگلیوں سے بال بنانا شروع کر دیتا تھا‘ وہ اپنی چھاتی پھلا کر شیشے میں اپنی پرسنیلٹی کا جائزہ بھی لیتا تھا اور اس دوران اس نے چھوٹے لڑکوں کی طرف منہ پھیر کر بھی نہیں دیکھا۔

میں دو بار واش روم گیا لیکن صورتحال دیکھ کر اپنے ’’ارمان‘‘ واپس لے کر باہر چلا گیا‘ تیسری بار برداشت نہ ہو سکا تو میں نے ملازم لڑکے کو ڈانٹ کر کہا ’’تم لوگ کیا کر رہے ہو‘گند کیوں ڈال رہے ہو‘فوراً واش روم خالی کرو‘‘ ملازم لڑکا ڈر گیا‘ اس نے تینوں لڑکوں کو اکٹھا کیا‘ چھوٹے لڑکے کی نیکر اوپر کی اور انھیں لے کر باہر نکل گیا‘ میں نے دیکھا ملازم لڑکے نے تینوں بچوں کے ہاتھ تک دھلوانے کا تکلف نہیں کیا تھا۔

میں اپنا مسئلہ حل کر کے ڈائننگ ہال میں آیا تو وہاں کا منظر واش روم سے بھی زیادہ ہولناک تھا‘ وہ تینوں لڑکے اب فیملی کے ساتھ ڈائننگ ٹیبل پر کھانا تناول کر رہے تھے‘ وہ بچہ جو پانچ منٹ پہلے تک ہاتھوں سے کموڈ کا پانی باہر پھینک رہا تھا اس نے انھی ہاتھوں سے پیسٹری اٹھا کر منہ میں ٹھونس رکھی تھی‘ پیسٹری کا چاکلیٹ اس کی بانچھوں سے لٹک رہا تھا۔ ’’یوری نل‘‘ سے لٹک لٹک کر اپنے بازوئوں کی طاقت چیک کرنے والا بچہ دونوں ہاتھوں سے فرنچ فرائز کھا رہا تھا۔

ہینڈ ٹاولز کا قتل عام کرنے والا لڑکا معصوم سی شکل بنا کر پیزے پر ہاتھ صاف کر رہا تھا اور ملازم لڑکا لابی میں صوفے پر بیٹھ کر انھیں حیرت سے دیکھ رہا تھا‘ اس کے چہرے پر اس وقت سادگی‘ معصومیت اور مظلومیت تینوں تھیں جب کہ بچوں کے والدین ’’صاحب لوگ‘‘ مزے سے گپ لگا رہے تھے‘ یہ لوگ یقینا خوش حال تھے‘ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ہائی ٹی کرنیوالے لوگ خوش حال ہی ہوتے ہیں۔

یہ لاہور کے ایک فائیوا سٹار ہوٹل کا منظر تھا‘ میں وہاں مدعوتھا‘ واش روم کی ضرورت پڑی تو میں ہوٹل کے پبلک ٹوائلٹ میں چلا گیا اور وہاں ان بچوں کا قبضہ تھا‘ میں نے ٹوائلٹ کلینر تلاش کیا لیکن مجھے وہ نہیں ملا‘ بہرحال میں نے بچوں کو واش روم میں گند مچاتے اور پھر غلیظ ہاتھوں سے کھانا کھاتے دیکھااور سوچا میں بچوں کے والدین کو بتا دیتا ہوں لیکن پھر مجھے حوصلہ نہیں ہوا۔

میرا تجربہ ہے انسان کو بلاوجہ کسی کو مشورہ نہیں دینا چاہیے‘ گوروں کی طرح صرف ناک کی سیدھ میں زندگی گزاریں‘ یہ اچھی گزرتی ہے لیکن سوچنے اور بات کرنے پر تو پابندی نہیں تھی چناں چہ میں نے اپنے میزبان سے ڈسکس کرنا شروع کر دیا اور تھوڑی دیر بعد ہمارا موضوع گفتگو سیاسی افراتفری سے گھریلو ملازمین پر شفٹ ہو گیا‘ میرے میزبان نے اپنا تجربہ بتایا‘ اس کا کہنا تھا ہماری بیٹی پیدا ہوئی تو ہم نے تیرہ سال کی ایک لڑکی رکھ لی‘ وہ لڑکی گائوں سے آئی تھی‘ والدین بھٹہ مزدور تھے۔

ہم نے سوچا ہماری بیٹی کی ٹیک کیئر بھی ہو جائے گی‘ یہ لڑکی بھی زندگی کی سہولتیں انجوائے کر لے گی اور اس کے والدین کی مالی مدد بھی ہو جائے گی لہٰذا ہم نے اس لڑکی کا بیڈ اپنی بیٹی کے کمرے میں لگا دیا‘ ہم اس کے کھانے پینے‘ کپڑوں اور جوتوں کا خیال بھی رکھنے لگے اور اسے تھوڑا بہت پڑھانا لکھانا بھی شروع کر دیا‘ ہماری بیٹی ماشاء اللہ صحت مند اور خوب صورت تھی‘ ہم مطمئن تھے لیکن پھر بچی کی صحت گرنے لگی‘ وہ قے اور اسہال کی شکار ہو گئی اور ہمارا زیادہ تر وقت اسپتالوں اور ڈاکٹرز کے ساتھ گزرنے لگا۔

ڈاکٹرز بھی پریشان تھے کیوں کہ بچی کا علاج اور ادویات بالکل ٹھیک تھیں مگر بیٹی صحت یاب نہیں ہو رہی تھی پھرایک دن ایک میل چائلڈ اسپیشلسٹ ہمارے گھر آیا‘ اس نے بچی کا کمرہ اور اس کی کیئر ٹیکر کو دیکھا تو وہ سارا معاملہ سمجھ گیا‘ اس نے ہمیں بتایا ہماری بچی کی ہائی جین کا خیال نہیں رکھا جا رہا ہے‘ وہ لڑکی بچی کے ہاتھ اور منہ صاف نہیں کرتی تھی‘ دوسرا وہ خود بھی واش روم کے بعد صابن سے ہاتھ نہیں دھوتی ‘ وہ چار چار دن نہاتی بھی نہیں تھی اور گندے ہاتھوں سے ہماری بیٹی کو کھانا بھی کھلاتی تھی اور اس کے ساتھ کھیلتی بھی تھی چناں چہ ہماری بیٹی بیمار رہنے لگی۔

میں نے اس سے پوچھا ’’کیا آپ نے اس کے بعد اس لڑکی کو نوکری سے نکال دیا؟‘‘ اس نے ہنس کر جواب دیا‘ میری بیوی یہی چاہتی تھی لیکن میں اس لڑکی کو بچوں کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں لے گیا اور اس کی دو ہفتے کی ٹریننگ کرادی‘ میں نے اس کے بعد اسے واش روم کے استعمال‘ ہاتھ دھونے‘ ٹاول کے استعمال اور رہنے سہنے کا طریقہ بھی سکھادیا‘ میری بیوی نے اسے شاور لینے اور کپڑے پہننے اور جسمانی صفائی کا طریقہ بتایا اور آج وہ بچی ہماری بیٹی کی بیسٹ فرینڈ ہے اور لوگ اسے ہماری ملازمہ کے بجائے گھر کا فرد سمجھتے ہیں۔

ہمارے ساتھ ایک بزنس مین بھی بیٹھے تھے‘ وہ یہ سن کر ہنسے اور کہنے لگے ’’میں نے زندگی کی تمام بدمعاشیاں اپنے ملازم سے سیکھی تھیں‘‘ وہ دیر تک ہنستے رہے اور پھر بولے ’’میرے والدین نے میری تربیت کے لیے ایک حافظ قرآن ملازم رکھ لیا‘ ان کا خیال تھا وہ مجھے دین کا فہم اور زندگی گزارنے کا اسلامی طریقہ بتائے گا لیکن وہ اپنی حرکتوں میں پورا تھا‘ اس نے مجھے چند برسوں میں وہ سب کچھ سکھا دیا جو مجھے سیکھنے میں شاید کئی دہائیاں لگ جاتیں۔

ان کا کہنا تھا میں نے زندگی کا پہلا سگریٹ بارہ سال کی عمر میں پیا تھا اور مجھے وہ سگریٹ میرے کیئر ٹیکر نے لا کر دیا تھا اور اسے پینے اور پینے کے بعد منہ اور کپڑوں سے اس کی بو دور کرنے کا طریقہ بھی بتایا تھا‘ وہ اس کے بعد دیر تک اپنی زنانہ مردانہ تربیت کا احوال بھی بتاتے رہے اور ہم حیرت سے وہ ساری داستان سنتے رہے۔

ہم اس بحث کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہم انسان دوسرے انسانوں سے سیکھتے ہیں‘ انسان کا بچہ دنیا کا واحد بچہ ہوتا ہے جسے اڑھائی سال تک دوسرے انسانوں کی انتہائی ضرورت ہوتی ہے‘ ہم اگر اپنے بچوں کو اڑھائی سال تک کیئر نہ دیں تو یہ سروائیو نہیں کر پاتے‘ دوسرا ہم انسانوں کی نوے فیصد عادتیں چودہ سال تک پختہ ہو جاتی ہیں اور ہم یہ عادتیں اپنے خاندان‘ اپنے محلے (ملازمین)‘ اسکول اور کھیل کے میدانوں سے لیتے ہیں اور پھر باقی زندگی ان عادتوں کے اچھے برے نتائج بھگتتے ہیں‘ ہم لوئرمڈل کلاس اور مڈل کلاس کو سائیڈ پر کر دیتے تھے‘ ان بے چاروں کے پاس ماحول بدلنے کے آپشنز کم ہوتے ہیں لیکن اپرکلاس یا خوش حال لوگ جو غلطیاں کر رہے ہیں ان کی کوئی جسٹی فکیشن نہیں‘ یہ لوگ اپنی چھوٹی بچیاں اور بچے ان لوگوں کے حوالے کیوں کر دیتے ہیں جو بے چارے صابن کی نعمت تک سے محروم ہوتے ہیں؟جنھیں ناک اور منہ بھی صاف کرنا نہیں آتا‘ آپ کسی خوش حال گھر میں چلے جائیں‘ آپ کو وہاں خاتون خانہ یہ کہتی ملے گی ہم اپنی بیٹی یا بیٹے کے لیے کوئی لڑکا یا لڑکی تلاش کر رہے ہیں لیکن ہمیں نہیں مل رہا اگر آپ کی نظر میں کوئی ہو تو پلیز ہمیں ضروربتایے گا‘ آپ کو یہ ڈیمانڈ ہر سطح پر ملے گی‘ ہم عموماً ایسی لڑکیوں اور لڑکوں کو فوقیت دیتے ہیں جو ہمیں معمولی معاوضے یا پھر کھانے اور کپڑوں کے عوض مل جائیں اور یہ لڑکے بعدازاں ہمارے بچوں کی اولین تربیت گاہ ہوتے ہیں چنانچہ پھر اس کا وہی نتیجہ نکلتا ہے جوہم روز دیکھتے ہیں‘ میں غریب بچوں اور بچیوں کی ملازمت کے خلاف نہیں ہوں‘ میں دل سے سمجھتا ہوں اس سے غریب خاندانوں کے بچوں کو روزگار بھی ملتا ہے‘ کوالٹی آف لائف بھی اور اس سے غریب خاندانوں کی مدد بھی ہو جاتی ہے لہٰذا یہ سلسلہ بند نہیں ہونا چاہیے لیکن ہمیں ریاست اورا نفرادی سطح پر دو کام ضرور کرنے چاہئیں‘ ہم جب بھی کسی بچی یا بچے کو ملازم رکھیں تو اپنے بچے اس کے حوالے کرنے سے پہلے اسے ٹریننگ ضرور دیں‘ اسے ہاتھ دھونے‘ نہانے‘ جسمانی صفائی‘ کپڑے اور جوتے پہننے اور میز کرسی پر کھانا کھانے کی تمیز ضرور سکھا دیں‘ اس سے ہمارے بچوں کی صحت اور تربیت بھی اچھی ہو جائے گی اور ملازم بچوں کی زندگی بدل جائے گی‘ دوسرا ملک میں گھریلو ملازمین کی ٹریننگ کی کمپنیاں اور ادارے بھی ہونے چاہئیں‘ پرائیویٹ سیکٹر آگے آئے‘ یہ ضرورت مند بچوں کو ٹریننگ دے اور اس کے بعد باقاعدہ ایگری منٹ کر کے ان بچوں کو خوش حال خاندانوں میں ملازمتیں دلوائے‘ اس سے یہ بچے گھریلو تشدد اور مالکان کے بچے بری عادتوں سے بچ جائینگے اور معاشرے میں نوکریوں کا نیا سلسلہ بھی شروع ہو جائے گا‘ کیا یہ زیادتی نہیں ہم اپنے بچوں کو فائیو اسٹار ہوٹل میں لے جاتے ہیں لیکن ہم انھیں واش روم کے لیے ان لوگوں کے حوالے کر دیتے ہیں جو انھیں کموڈ میں ہاتھ ڈالنے سے بھی نہیں روکتے چناں چہ میرا مشورہ ہے اللہ تعالیٰ نے اگر آپ کو اولاد کی نعمت سے نواز رکھا ہے تو پھر اپنے بچوں کو ملازم بچوں سے بچائیں‘ یہ انھیں تباہ کر رہے ہیں۔

Source: Express News

Must Read Urdu column Apnay Bachay Bachayen By Javed Chaudhry

Leave A Reply

Your email address will not be published.