اقلیتوں سے آگے – حسن نثار

hassan-nisar

یہ تو ہونا ہی تھا بلکہ شاید کچھ لیٹ ہوگیافیاض چوہان کے ساتھ کوئی تعارف، تعلق ، جان پہچان نہ تھی۔ اسے کچھ ٹاک شوز میں دیکھا تھا اور کنفیوژڈ تھا کہ اس نوجوان کو کس خانے میں فٹ کروں۔ نوجوان تو وہ شاید نہ ہو لیکن خود میں عمر کے اس حصہ میں ہوں جہاں پکی عمر کے لوگ بھی نوجوان ہی دکھائی دیتے ہیں۔ بہرحال الیکشن کے بعد اک خوشگوار حادثہ کے نتیجہ میں فیاض چوہان نے پنجاب کی وزارت اطلاعات کا وہ قلمدان سنبھالا جس میں قلم کی جگہ ایک کنگ سائز زبان تھی اور زبان بھی دو دھاری جس کی کوئی سمت نہ تھی۔ وزارت کے دو چار چھ ہفتوں بعد فیاض چوہان ملاقات کے لئے آیا جسے کرٹسی کال کہنا چاہئے۔ ملاقات کے تقریباً اختتام پر چوہان نے کہا ’’مجھے کچھ ایڈوائز کریں‘‘ میں نے ٹالنے کی کوشش کہ واقعی خود کو ایڈوائز دینے کے قابل نہیں سمجھتا۔ وہ دن کب کے گزر گئے جب جوانی تھی اور میں سب کچھ جانتا تھا۔ اب تو قدم قدم پر خود مجھے ایڈوائز کی ضرورت محسوس ہوتی ہے لیکن فیاض چوہان کے اصرار پر میں نے کہا…….’’ذرا کم بولا کریں اور ٹی وی پر بھی کچھ کم کم نظر آیا کریں‘‘فیاض چوہان نے تو میری یہ ایڈوائز بہت توجہ ا ور سنجیدگی سے سنی اور چند روز اس پر عمل بھی کیا لیکن اس کے اندر چھپے ہوئے’’چیتے‘‘ کو شاید میری بات سمجھ نہیں آئی ورنہ اس انجام سے ضرور بچ

جاتا۔فیاض چوہان نے’’چیتا گیری‘‘ کے زعم میں صحافیوں سے لے کر ایکسٹروں تک کوئی گھر چھوڑا نہیں۔ آخری حملہ اقلیتوں پر تھا جو’’خود کش‘‘ ثابت ہوا، بالکل اس منہ زور گھوڑے کی طرح جو افسروں اور جوانوں کو دو لتیاں مارتے مارتے ایک بم کو دولتی مار بیٹھا تھا۔مسئلہ اقلیتوں کا نہیں، تربیتوں کا ہے۔ پاکستان میں ایک بھی ہندو نہ ہوتا تو بھی ہندوئوں کے خلاف نازیبا زبان زیب نہ دیتی کہ مذاہب اور عقائد کی تکریم تہذیب کا حصہ اور ہماری بنیادی تعلیمات میں شامل ہے اور یہاں تو کیس ہی بہت پیچیدہ اور دلچسپ ہے۔ سلطان شہاب الدین غوری نے ترائن کے میدان میں جس جنگجو ہندو راجہ مہاراجہ کو شکست دی تھی، اس کا نام تھا پرتھوی راج چوہان اور یہ بات فیاض چوہان ہی بتاسکتا ہے کہ یہ کتنے عشروں یا صدیوں پہلے مسلمان ہوئے اور اس خاندان کے وہ کون سے ہندو بزرگ تھے جنہیں اللہ نے دین کامل کو گلے لگانے کی سعادت بخشی۔پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش کے مسلمانوں کی کل تعداد تقریباً 65کروڑ کے لگ بھگ ہوگی۔ ان میں سے عرب، افغان، ایرانی اور سنٹرل ایشین اوریجن کے مسلمان زیادہ سے زیادہ کتنے ہوں گے؟ اور جو باقی کروڑوں بلکہ کئی کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں، وہ سب مقامی ہی تھے جو بتدریج اسلام قبول کرتے رہے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ وہ جو اقبال نے کہا تھا کہ صنم خانے سے کعبہ کو چاہنے والے مل گئے تو اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ تاتاریوں نے عروس البلاد بغداد کو بیوہ کردیا تھا لیکن پھر انہی کی اولادوں میں سے کیسے کیسے مسلمان فاتحین نے جنم نہیں لیا۔ طائف کے تبلیغی سفر کے دوران حضورﷺ پر پتھر پھینکنے والے اوباشوں بارے کہا گیا کہ انہیں پہاڑوں کے درمیان پیس دیتے ہیں۔ فرمایا نہیں شاید ان کی اولادوں میں سے کوئی اسلام قبول کرلے(مفہوم)، یہ ہے دانش و حکمت کی معراج، اسی لئے مومن کی فراست سے ڈرنے کا حکم ہے۔ سرحد کے دونوں طرف ایک جیسی بےشمار ذاتوں کے نام بولتے اور بجتے ہیں تو یہ سب کیا ہے؟ ہمارے ایک ٹی وی سٹار تھے لطیف کپاڈیہ، جب ڈمپل کپاڈیہ آئی تو لوگوں نے پوچھا کوئی عزیزداری تو نہیں؟آخری بات بہت ہی قابل غور ہے۔ بہن بھائیوں کی شکلیں، عادتیں، پسند ناپسند غرضیکہ کچھ بھی نہیں ملتا لیکن عموماً ایک دوسرے سے اک عجیب سی محبت ہوتی ہے۔ کُٹی بھی ہو تو ایک دوسرے کا دکھ دیکھا، سہا نہیں جاتا تو سوائے اس کے وجہ کیا ہے کہ وہ ایک ماں باپ کے جنے ہوتے ہیں۔ اسی لئے تو بہنوں کو’’ماں جائی‘‘ اور بھائیوں کو ’’ماں جایا‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور یاد رہے کہ یہ رشتہ، یہ بونڈ صرف مشرق نہیں مغرب میں بھی ہے تو ہمیں اس بات پر بھی سوچنا چاہئے کہ بلا تفریق رنگ، نسل، مذہب، زبان، علاقہ اس مخلوق یعنی آدم کا خالق بھی ایک ہے تو کیا انسانوں کا انسانوں کے بارے میں رویہ بھی تقریباً بہن بھائیوں کی طرح ملتا جلتا نہیں ہونا چاہئے؟ہم بہن بھائی ہیں کیونکہ ہمارے ماں باپ سانجھے ہیں،ہم مخلوق ہیں، ہم پر اک دوسرے کا احترام فرض ہے کیونکہ ہمارا خالق ایک ہے۔جب بابا بلھے شاہ کہتا ہےایہہ رام، رحیم تے مولا کیگل سمجھ لئی تے رولا کیاور پھر…….مسجد ڈھا دے، مندر ڈھا دے، ڈھا دے جو کجھ ڈھیندااک بندے دا دل نہ ڈھاویں رب دلاں وچ رہیندااور جو کسی کا دل نہیں ڈھاتے، وہ اس کی بابری مسجد بھی نہیں گراتے تو کیا میں اس لئے کم ظرفی پر اتر آئوں کہ میرا حریف کم ظرف ہے؟ابھی چند ہفتے پہلے اس یورپی پارلیمنٹیرین پر کالم لکھا تھا جو عرصہ دراز تک اسلام اور مسلمانوں کے بارے اپنے دوست سمیت زہر اگلتا رہا، پھر اسلام کے خلاف کتاب لکھنے بیٹھا تو اسلام کے بارے پڑھنا شروع کیا…….اور پھر دونوں دوست مسلمان ہوگئے۔چوہان چوک گیا ورنہ مسلمان تو کسی کی دل آزاری کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ برا ہو سیاست کا جو سیاہ و سفید میں فرق کرنے کا سلیقہ اور تمیز چھین لیتی ہے۔ بات اقلیتوں کی نہیں، اقلیتوں سے آگے کی ہے!!! اور جسے یہ بات سمجھ آجائے وہ خوش نصیب ہے۔

Source: Jung News

Read Urdu column aqliaton say agay By Hassan Nisar

Leave A Reply

Your email address will not be published.