بدلتا ہوا پاکستان – جاوید چوہدری

Javed Chaudhry Columns

موتہ کا میدان اردن کے درمیان میں آتا ہے‘ یہ مقام اسلامی تاریخ میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے‘ نبی اکرمؐ نے 8ہجری میں اپنے صحابی حضرت حارث بنآئیے ہم ایک دن کے لیے واقعات کو ذرا سا مختلف انداز میں دیکھتے ہیں‘ ہم سب سے پہلے پانامہ سکینڈل کو لیتے ہیں‘ پانامہ کا ایشواپریل 2016ء میں سامنے آیا‘ اس ایشو میں 50ممالک کے140 سیاستدان ملوث تھے‘ ان میں 14 (سابق اور موجودہ) سربراہان مملکت تھے مگر پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس میں برسر اقتدار وزیراعظم کے خلاف مقدمہ چلا اور یہ پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کے باوجود باقاعدہ عدالتی حکم پر اقتدار سے فارغ بھی ہوئے اور یہ وفاق اورپنجاب میں اپنی حکومت کے باوجود چھ ماہ سے مقدمات بھی بھگت رہے ہیں‘ یہ ہر پیشی پر عدالت میں بھی پیش ہوتے ہیں اور میرا ذاتی خیال ہے نیب کورٹ انھیں سزا بھی دے دے گی۔

یہ 2018 ء کا الیکشن جیل سے لڑیں گے‘ کیا یہ تبدیلی نہیں؟ کیا تیسری دنیا کا کوئی ملک یہ سوچ سکتا تھا‘ ہم اگر اس تبدیلی کو ذرا سا پھیلا کر دیکھیں تو ہمیں تبدیلی کے اس درخت کے نیچے تبدیلیوں کے بے شمار نئے درخت بھی اگتے نظر آئیں گے‘ کیا ہمارے ملک میں کبھی کسی نے سوچا تھا ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب ملک کی تمام طاقتور سیاسی جماعتوں کے قائدین اقتدار میں ہونے کے باوجود عدالتوں اور انکوائریوں کا سامنا کریں گے۔

ڈاکٹر عاصم آصف علی زرداری کے قریبی دوست ہیں‘ یہ 462ارب روپے کی کرپشن کی انکوائری بھگت رہے ہیں‘ شرجیل میمن بھی عدالتوں کا سامنا کر رہے ہیں‘ الطاف حسین 23 اگست 2016ء تک ایک ہَوا تھا‘ کراچی میں ان کی مرضی کے بغیر پتہ بھی دائیں بائیں نہیں ہوتا تھا‘ آج کراچی کو اس ہَوا سے آزاد ہوئے 18ماہ ہو چکے ہیں۔
دنیا کے غیر محفوظ ترین شہر میں 2017ء میں ٹارگٹ کلنگ کا ایک بھی واقعہ پیش نہیں آیا‘ وہ شہر جو دو سال پہلے تک ایک گولی چلنے کے بعد ہفتہ ہفتہ بند رہتا تھا وہ اب عید اور دس محرم کے دن بھی کھلا رہتا ہے اور الطاف حسین کی وہ جماعت جس کے سینیٹرز اور ایم این اے تو رہے ایک طرف اس کے سیکٹر کمانڈرز بھی گورنر کو فون کر کے حکم دے دیتے تھے وہ جماعت اب چار ٹکڑوں میں تقسیم ہوکر لوگوں سے اپنا پتہ پوچھتی پھر رہی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ ن ملک کی سب سے بڑی‘ طاقتور اور برسر اقتدار پارٹی ہے لیکن پارٹی کی ساری قیادت عدالتوں میں دھکے کھا رہی ہے‘ میاں نواز شریف کے دو صاحبزادے اپنی حکومت میں اشتہاری ہو چکے ہیں‘ سمدھی اسحاق ڈار کے لیے واپسی کے سارے دروازے بند ہو چکے ہیں‘ اسٹیبلشمنٹ مفتاح اسماعیل کو اپنے اعتماد کا ووٹ دے چکی ہے۔

مقتدر ادارے ان کی کارکردگی سے مطمئن ہیں‘ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے 8 مارچ کو جے ایس بینک اور جے ایس گلوبل کے سی ای او علی جہانگیر صدیقی کو امریکا میں پاکستان کا سفیر نامزد کر دیا‘ یہ اس ائیر بلیو کے میجر شیئر ہولڈر ہیں جس میں شاہد خاقان عباسی صرف سات فیصد کے حصے دار ہیں‘ عدلیہ اور فوج کو اس تقرری پر شدید تحفظات ہیں‘ یہ دونوں ادارے سمجھتے ہیں امریکا سفارت کاری کا مرکز ہے۔

واشنگٹن میں دنیا بھر کے منجھے ہوئے سفیر موجود ہیں‘ علی جہانگیر ان سفیروں کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے چنانچہ علی جہانگیر کی تقرری صرف تقرری رہ جائے گی‘ یہ سفیر نہیں بن سکیں گے‘ عمران خان ملک کی نئی سیاسی طاقت ہیں لیکن یہ طاقت بھی دہشت گردی کے الزامات سمیت آدھے درجن مقدمات بھگت رہی ہے‘ ان کے ساتھی جہانگیر ترین کی وکٹ اڑ چکی ہے‘ بلوچستان میں پاکستان مسلم لیگ ن ‘پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کا اتحاد تھا‘ یہ تینوں اکٹھے اور طاقتور تھے۔

نواب ثناء اللہ زہری سیاسی اور قبائلی دونوں لحاظ سے تگڑے تھے لیکن یہ مہینے کے 28 دن کراچی اور اسلام آباد میں گزارتے تھے اور صرف دو دن کے لیے کوئٹہ آتے تھے‘ صوبے کی اہم ترین وزارتیں بھی وزیراعلیٰ کے پاس تھیں‘ کرپشن کی بے شمار کہانیاں بھی گردش کر رہی تھیں مثلاً حکومت گوادر میں پینے کے پانی کے لیے روزانہ ایک کروڑ روپے ریلیز کرتی تھی‘ یہ کروڑ روپے سیدھے وزیراعلیٰ کے ساتھیوں کی جیب میں چلے جاتے تھے اور یہ غضب کرپشن کی صرف ایک عجب کہانی تھی‘ بلوچستان کے لوگ ایسی درجنوں کہانیوں کے عینی شاہد ہیں لیکن پھر انقلاب آیا۔

پاکستان مسلم لیگ ن کے اپنے اراکین منحرف ہوئے اور یہ انقلاب بلوچستان میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کو بہا لے گیا‘ بلوچستان میں آزاد حکومت کا قیام عمل میں آیا‘ بلوچستان میں آزاد سینیٹرز منتخب ہوئے اور ان سینیٹرز نے پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر چیئرمین سینیٹ کے لیے امیدوار کھڑا کر دیا‘ کیا ماضی میں ایسی تبدیلیاں ممکن تھیں‘ کیا ہماری تاریخ میں کبھی ایسا ہوتا تھا اور کیا یہ تبدیلیاں نہیں ہیں؟۔

آپ طاقتور بیورو کریٹس کو بھی دیکھ لیں‘ احد چیمہ جیسے طاقتور لوگ اس وقت حوالات میں ہیں‘ ڈان لیکس کے بعد پرویز رشید اور طارق فاطمی دونوں فارغ ہو ئے‘ میڈیا جیسا طاقتور ستون بھی اس وقت لرز رہا ہے‘ شاہد مسعود اپنی صحافتی حماقت کا خمیازہ بھگت رہے ہیں‘ جنگ اور جیو گروپ کے سربراہ میر شکیل الرحمن پیشیاں بھگت رہے ہیں‘ میڈیا مالکان اور اینکرز عدالتوں میں معافیاں مانگ رہے ہیں۔

فوج دس سال سے عوامی دباؤ کی وجہ سے ریڈ لائین کی دوسری طرف کھڑی ہے‘ پاکستان ستر سال کی تاریخ میں پہلی بار امریکا کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر ’’نو مور‘‘ کا اعلان کر رہا ہے‘ پاکستان مسلم لیگ ن راجہ ظفر الحق‘ سینیٹر پرویز رشید اور مشاہد حسین سید میں سے کسی ایک کو چیئرمین سینیٹ بنانا چاہتی تھی لیکن یہ اکثریت کے باوجود کامیاب نہ ہو سکی‘ کیوں؟ وجوہات بہت دلچسپ ہیں۔

راجہ ظفر الحق پارٹی میں سینئر ترین ہیں‘ یہ پارٹی کے چیئرمین ہیں لیکن میاں نواز شریف کو ان پر مکمل اعتماد نہیں‘ یہ انھیں اسٹیبلشمنٹ کا بندہ سمجھتے ہیں‘ میاں نواز شریف جس وقت جدہ میں جلا وطن تھے اس وقت جنرل پرویز مشرف نے انھیں مجید نظامی صاحب مرحوم کے ذریعے راجہ ظفر الحق کو پارٹی کا صدر بنانے کا پیغام بھجوایا تھا‘ جنرل پرویز مشرف راجہ صاحب کو وزیراعظم بھی بنوانا چاہتے تھے لہٰذا میاں نواز شریف کا خیال ہے یہ چیئرمین بننے کے بعد قیادت کے ہاتھ سے نکل جائیں گے چنانچہ میاں صاحب کو جب تک اپنی ناکامی کا یقین نہ ہو گیا انھوں نے اس وقت تک راجہ صاحب کو اپنا امیدوار نامزد نہیں کیا۔

پرویز رشید کو چوہدری نثار کے خوف نے چیئرمین شپ کا امیدوار نہیں بننے دیا‘ پارٹی کا خیال تھا میاں نواز شریف نے جس دن پرویز رشید کو نامزد کیا چوہدری نثار اس دن ڈان لیکس کی رپورٹ ریلیز کر دیں گے اور یوں پرویز رشید اڑنے سے پہلے ہی مارے جائیں گے اور پیچھے رہ گئے مشاہد حسین سید تو پارٹی کا خیال تھا اگر یہ کھڑے ہوئے تو کم از کم دس سینیٹرز انھیں ووٹ نہیں دیں گے اور یوں یہ ہار جائیں گے۔

چنانچہ میاں نواز شریف اس سارے سیاسی فساد سے بچنے کے لیے راجہ ظفرالحق کو نامزد کرنے پر مجبور ہو گئے‘ کیا ملک میں پہلے کبھی ایسا ہوتا تھا؟ ہماری تاریخ ہے پاکستان کی سیاسی قیادت جس کھمبے پر اپنا جھنڈا لہرا دیتی تھی وہ ملک کے ہر ایوان میں کامیاب ہو جاتا تھا لیکن اس بار ملک کی اکثریتی جماعت اکثریت کے باوجود سینیٹ میں اپنا اصلی امیدوار کھڑا نہیں کر سکی‘ ملک کی تاریخ میں پہلی بار آزاد امیدوار چیئرمین سینیٹ منتخب ہو گیا۔

ملک میں عدالتیں اور جج سب کچھ ہوا کرتے تھے‘ جج فیصلوں کے ذریعے بولتے تھے لیکن ہم اب ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جس میں جج فیصلوں کے بعد وضاحت پر مجبور ہیں‘ یہ عوام کے سامنے اپنی نیک نیتی کی قسمیں کھاتے ہیں‘ کیا یہ بھی اس سے پہلے ہوتا تھا‘ ملکی تاریخ میں پہلی بار چیف جسٹس اسپتالوں کے دورے کر رہے ہیں اور عوام ان کو روک کر احتجاج بھی کر رہے ہیں۔

10مارچ کوسیالکوٹ میں وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کے منہ پر سیاہی پھینک دی گئی‘ اس سے قبل24فروری کونارووال میں وزیر داخلہ احسن اقبال کو جوتا مارا گیا اور 11 مارچ کو جامعہ نعیمیہ میں میاں نواز شریف پر بھی جوتا پھینک دیا گیا لیکن ملک میں پہلی بار مخالف سیاسی جماعتوں‘ میڈیا اور عوام نے اس اقدام کی بھرپور مخالفت کی‘ لوگوں نے کھل کر ذمے داروں کی مذمت کی۔

ملک کے دو آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ کھل کر اعلان کرتے رہے ’’ہم جمہوری جنرل ہیں اور ہم آخری سانس تک جمہوریت کو سپورٹ کریں گے‘‘ دنیا 17 سال میں دہشت گردی کی جنگ نہیں جیت سکی لیکن پاکستان نے تین برسوں میں نہ صرف دہشت گردوں کو پسپا کر دیا بلکہ ملک میں امن قائم کر کے پوری دنیا کو حیران کر دیا‘ آج دہشت گردی کے شکار ملک پاکستان کی مثال بھی دیتے ہیں اور یہ ہماری مہارت سے فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں۔

پاکستان 2015ء تک لوڈ شیڈنگ کے اندھیروں میں گم تھا لیکن ہم نے 2018ء میں لوڈ شیڈنگ کو شکست دے دی‘ ملک میں اب کسی جگہ بجلی نہیں جاتی‘ کیا یہ تبدیلیاں نہیں ہیں اور کیا ہمیں ان تبدیلیوں پر فخر نہیں کرنا چاہیے!۔

ہم جس دن ٹھنڈے دل سے سوچیں گے ہمیں پاکستان اس دن تبدیل ہوتا ہوا نظر آئے گا‘ ہم اس دن ملک میں آنے والی تبدیلیوں پر فخر کریں گے‘ ملک میں سب کچھ برا نہیں‘ ہم واقعی کمال کر رہے ہیں‘ ایک ایسا کمال جس کی مثال تاریخ میں ملتی ہے اور نہ ہی تیسری دنیا کے دوسرے ملکوں میں‘ ہمارا نظام حقیقتاً بہتر ہو رہا ہے بس چند اصلاحات کی دیر ہے۔

ہمیں چند بڑی اور قطعی تبدیلیاں کرنا ہوں گی اور پھر کوئی طاقت اس ملک کو ترقی سے نہیں روک سکے گی‘ بس جمہوری لیڈر جمہوری ہو جائیں‘ ادارے اپنی حدود متعین کر لیں‘ لوگ سوچ سمجھ کر ووٹ دیں اور عوام اللہ تعالی کے بجائے اللہ تعالیٰ کے بندے بن جائیں اور پھر آپ دیکھیں یہ ملک کس طرح تیسری دنیا سے پہلی دنیا میں آتا ہے‘ پاکستان واقعی پاکستان بن جاتا ہے‘ میں آج کے پاکستان کو ایک تبدیل شدہ ملک سمجھ رہا ہوں۔

Source
Must Read urdu column Badalta huwa pakistan By Javed Chaudhry

Leave A Reply

Your email address will not be published.