باکو میں ایک دن – جاوید چوہدری

Javed Chaudhry

میں نے آذربائیجان کا پہلا تذکرہ امیر تیمور کی بائیو گرافی میں پڑھا تھا‘ تیمور نے جب کوہ قاف کا علاقہ فتح کیا تو وہ ایک ایسے علاقے سے گزرا جہاں پہاڑ کو آگ لگی ہوئی تھی اور زرتشت مذہب کے لوگ اس پہاڑ کی پوجا کرتے تھے‘ تیمور نے آگ بجھانے کی کوشش کی مگر وہ ناکام ہوگیا‘ یہ آگ آج بھی موجود ہے اور ہر سال لاکھوں سیاح اسے دیکھنے آتے ہیں۔

اس آتشی پہاڑ کے دائیں بائیں یانارداگ کا شہر آباد ہے‘ آپ کو وہاں پہنچنے کے لیے باکو سے باہر 30منٹ سفر کرنا پڑتا ہے‘ یہ آگ چار ہزار سال سے جل رہی ہے۔ ماضی میں لوگ اسے معجزہ سمجھتے تھے لیکن اب معلوم ہوا پہاڑ کے نیچے گیس کا ذخیرہ ہے‘ گیس لیک ہو کر اوپر آتی ہے اور چولہے کی طرح جلنے لگتی ہے‘ زرتشتی لوگ آج بھی اسے دیوتاؤں کا معجزہ سمجھتے ہیں اور یہاں آتے ہیں اور پہاڑ کی عبادت کرتے ہیں۔

مقامی زبان میں آذر کا مطلب آگ‘ بائی کا بھائی اور جان کا مطلب زندگی یا روح ہوتا ہے یوں آذر بائی جان کا مکمل مطلب ’’آگ کو زندگی سمجھنے والے بھائی‘‘ بنتا ہے‘ ہم اسے ۔
یہ ملک ماضی میں ایران‘ ازبکستان اور قفقاز میں شامل تھا‘ 1813میں اس پر روس نے قبضہ کر لیا‘ یہ قبضہ 1991 تک جاری رہا‘ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد نوکورنو کاراباخ کے علاقے کی وجہ سے ان کی آرمینیا سے جنگ شروع ہوگئی‘ پاکستان نے اس جنگ میں آذربائیجان کی مدد کی جس کی وجہ سے آج بھی پاکستان کے آرمینیا کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں‘ آذربائیجان پاکستان کے اس احسان کو مانتا ہے چناں یہ لوگ پاکستانیوں کی بہت عزت کرتے ہیں۔

اسلام آباد اور لاہور سے باکو کی براہ راست فلائٹس ہیں‘ پاکستانیوں کے لیے آن لائن ویزہ کی سہولت بھی ہے‘ یہ سہولت اور یہ عزت مزید کتنی دیر برقرار رہتی ہے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے‘ کیوں؟ کیوں کہ ہم پاکستانی اپنی عزت مٹی میں ملانے کے ایکسپرٹ ہیں اور آذربائیجان اس معاملے میں ہمارا اگلا ٹارگٹ ہے‘ انسانی اسمگلر بھی وہاں پہنچ چکے ہیں اور ہمارے لوگوں نے آذری عوام کو بے وقوف بنانا بھی شروع کر دیا ہے لہٰذا میرا نہیں خیال ہماری یہ عزت زیادہ دیر تک برقرار رہ سکے گی۔

مجھے 2023 کا آخری دن باکو میں گزارنے کا اتفاق ہوا‘ ہم 30 لوگ تھے‘ ہمارے ساتھ خواتین بھی تھیں اور بچے بھی‘ باکو آذربائیجان کا دارالحکومت ہے‘ کیسپیئن سی کے کنارے آباد ہے یہاں انتہائی ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں‘ اس مناسبت سے اسے ’’سٹی آف ونڈر‘‘ کہا جاتا ہے۔

آپ جب بھی باکو جائیں موٹی جیکٹ ضرور ساتھ لے کر جائیں کیوں کہ یہاں جب بھی ہوا چلتی ہے یہ جسم کو چیر کر رکھ دیتی ہے‘ ملک کی کل آبادی ایک کروڑ ہے جس کا 40فیصد باکو میں آباد ہے‘ ملک انتہائی صاف ستھرا‘ پرامن اور خوش حال ہے‘ جرائم صفر ہیں‘ پورا باکو شہرا aسمارٹ سیکیورٹی کیمروں سے منسلک ہے۔

کسی بھی جگہ گڑ بڑ شروع ہو تو فوراً پولیس وہاں پہنچ جاتی ہے‘ پیٹرول اور گیس کے ذخائر کی وجہ سے معیشت مضبوط ہے‘ ایک ڈالر کا 1.70 منات آتا ہے اور یہ بھی گلوبل ریسیشن کی وجہ سے ہوا ورنہ ڈالر کی مالیت منات سے نصف ہوتی تھی‘ لوگ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں‘ دوسروں کے ساتھ الجھنے سے پرہیز کرتے ہیں۔

اپنے مرحوم صدر حیدر علیوف سے محبت کرتے ہیں‘ علیوف نے ملک کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا تھا اور وہ ملک کو بحران سے بھی باہر لے کر آئے‘ آج کل ان کے صاحبزادے الہام علیوف صدر ہیں‘ سڑکیں کھلی اور عمارتیں بلند‘ جدید اور خوب صورت ہیں‘ آپ کو باکو دور سے دبئی محسوس ہوتا ہے تاہم یہ ٹھنڈا اور دبئی گرم ہے۔

سردیوں میں شدید سردی پڑتی ہے‘ کاکشیا (کوہ قاف) کی ہوائیں جسم چیر کر رکھ دیتی ہیں‘ پونے دو سو سال روس کے قبضے میں رہنے کی وجہ سے لوگ ڈسپلنڈ ہیں‘ قانون نہیں توڑتے اور دوسروں کے ساتھ فاصلے میں رہتے ہیں‘ تعلیم مفت‘ لازم اور عام ہے‘ روسی زبان دوسری اہم ترین زبان ہے‘ پورا ملک آذری کے ساتھ ساتھ روسی زبان جانتا ہے۔

آبادی کا زیادہ حصہ شیعہ مسلمان ہے لیکن سنی اور شیعہ دونوں ایک ہی مسجد میں اکٹھے نماز پڑھتے ہیں اور کبھی یہاں فساد نہیں ہوا‘ شہر کی سب سے بڑی شاپنگ اسٹریٹ نظامی اسٹریٹ کہلاتی ہے‘ یہ باکو کی شانزے لیزے ہے‘ دنیا کے تمام بڑے برینڈز کے آؤٹ لیٹس کے ساتھ ساتھ نظامی اسٹریٹ پر ریستوران‘ کافی شاپس‘ ڈسکوز اور بارز بھی ہیں۔ لوگ اچھے مسلمان ہیں لیکن شراب کی ممانعت نہیں ہے‘ شراب خانے اور کلب عام ہیں اور کسی کو ان پر کوئی اعتراض نہیں۔

نظامی اسٹریٹ آذربائیجان کے شاعر اور ادیب نظامی گنجوی سے منسوب ہے‘ یہ 1141میں پیدا ہوا اور 1209 میں فوت ہوا‘ اس نے زندگی میں پانچ بین الاقوامی ناول لکھے جن میں ایک کا نام ’’لیلیٰ مجنوں‘‘ تھا‘ یہ ناول پوری دنیا میں مشہورا ہوا۔ اس کے ترجمے بھی ہوئے اور فلمیں اور ڈرامے بھی بنے‘ لیلیٰ اور مجنوں سعودی عرب کے عام سے کردار تھے لیکن انھیں نظامی گنجوی نے لکھ کر ہمیشہ کے لیے امر کر دیا‘ یہ حقیقت ثابت کرتی ہے لکھنے والا اگر وارث شاہ یا نظامی گنجوی ہو تو عشق کی عام سی ناکام کہانی بھی دنیا کی عظیم داستان بن جاتی ہے۔

لیلیٰ اور مجنوں دونوں عام لوگ تھے‘ عشق کیا اور ناکام ہوگئے اور اس کے بعد وہی ہوا جو ایسے کاموں میں ہوتا ہے‘ لوگوں نے دونوں کو پھینٹا لگا دیا جس کے بعد مجنوں پاگل ہوگیا اور لیلیٰ کی شادی ہوگئی‘ آپ کو اس نوعیت کے کردار دنیا کے ہر کونے میں مل جاتے ہیں لیکن نظامی گنجوی کے چھونے کی دیر تھی یہ عام سے لوگ محبت کا استعارہ بن گئے اور سچ ایک بار پھر سچ ثابت ہوگیا‘ بڑے پینٹر عام سے منظر‘ بڑے موسیقار عام سی دھن اور بڑے لکھاری عام سطحی سی داستان کو عظیم بنا دیتے ہیں۔

مجھے کچھ وقت نظامی اسٹریٹ میں گزارنے کا موقع بھی ملا‘ نیوایئر کی وجہ سے وہاں بہت رش تھا‘ لوگ کھا پی بھی رہے تھے اور ناچ کود بھی رہے تھے‘ اسٹریٹ کے شروع میں کرسمس مارکیٹ لگی تھی جس میں چھوٹے بچے سانتا کلاز کے ساتھ تصویریں بنوا رہے تھے‘ باکو شہر میں حکومت نے کیسپیئن سی کے ساتھ ساتھ طویل واکنگ ٹریک بنا رکھا ہے۔

شہر کے زیادہ تر فائیو اسٹار ہوٹلز‘ مالز‘ ریستوران اور بلند عمارتیں اس ٹریک کی طرف کھلتی ہیں‘ یہ ٹریک نیم دائرے میں سمندر کے ساتھ ساتھ چلتا ہے‘ آپ اگر اس پر چلنا شروع کر دیں تو آپ پورا شہر کور کر لیں گے‘ مجھے اس ٹریک پر واک کرنے کا موقع بھی ملا‘ میری ایک سائیڈ پر ہائی رائز عمارتیں تھیں اور دوسری طرف کیسپیئن سی کی یخ ٹھنڈی ہوائیں۔

ہوا کی رفتار میں اچانک اتنا اضافہ ہوگیا کہ چلنا مشکل ہوگیا اور یوں محسوس ہونے لگا مجھے ہوا ابھی اٹھا کر شیشے کی کسی بلند عمارت کے ساتھ دے مارے گی اور میرا وجود اس کے بعد کاغذ کی طرح باکو کی فضا میں ڈولتا رہے گا‘ باکو کا اولڈ سٹی شہر کے درمیان میں واقع ہے‘ یہ صدیوں پرانا شہر ہے‘ سڑکیں پتھریلی اور مکان گارے اور لکڑی کے بنے ہیں‘ گھر شہد کے چھتے کی طرح ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔ گلیاں تنگ اور اندھیری ہیں تاہم قدامت کے باوجود یہ علاقہ بھی انتہائی صاف ستھرا ہے‘ کسی جگہ تنکا اور پھٹا ہوا کاغذ تک دکھائی نہیں دیا‘ لوگوں نے گھروں میں ہوٹل‘ ریستوران اور چائے خانے بنا رکھے ہیں‘ مجھے وہ علاقہ اتنا پسند آیا کہ میں نے فیصلہ کیا میں اگلی مرتبہ اولڈ سٹی کے کسی بوتیک ہوٹل میں رہوں گا اور گزرے ہوئے وقت کی چاپ سنوں گا۔

فائر ٹاورز باکو کی پہچان ہیں‘ یہ شیشے کے تین بلند ٹاورز ہیں‘ ان کے شیشے رات کے وقت اسکرینیں بن جاتے ہیں اور یہ اسکرینیں پورے شہر سے دکھائی دیتی ہیں‘ صدر حیدر علیوف میوزیم کے نام سے ایک اور عمارت بھی دیکھنے لائق ہے۔ یہ فضا سے صدر کے دستخطوں اور دائیں بائیں سے سمندر کی لہروں کی طرح دکھائی دیتی ہے‘ یہ باکو بلکہ آذربائیجان کی سگنیچر بلڈنگ ہے اور دنیا کا ہر سیاح اور مقامی شخص اس کے ساتھ تصویر بنواتا ہے۔

ہمارا گروپ 31 دسمبر کی رات باکو کے عوام کے ساتھ سمندر کے کنارے کھڑا تھا‘ نیوایئر کی دو تقریبات تھیں‘ ایک نظامی اسٹریٹ پر تھی اور دوسری کیسپیئن سی کے کنارے ‘ ہمارا گروپ کیسپیئن سی کے کنارے تھا‘ پورا شہر کھل کر ناچ گا رہا تھا‘ بارہ بجے فائر ورک شروع ہوا اور باکو کا آسمان روشن ہو گیا۔

اسٹیج پر فن کار اونچی آواز میں گا رہے تھے اور نیچے لوگ ناچ کود رہے تھے اور ایک دوسرے سے گلے مل کر نئے سال کی مبارک باد دے رہے تھے‘ ہجوم میں عورتیں بھی تھیں‘ جوان بھی‘ بوڑھے بھی اور بچے بھی‘ سب خوش تھے اور اس خوشی میں کسی بھی جگہ اسلام خطرے میں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

میری صبح فلائیٹ تھی لہٰذا میں ہوٹل کی کھڑکی سے یہ منظر دیکھ رہا تھا‘ مجھے یقین تھا عین اس وقت پاکستان میں پولیس نوجوانوں کو ڈنڈے مار رہی ہوگی اور یہ موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکال کر پورے ملک کو نئے سال کی نوید سنا رہے ہوں گے‘ میں آج تک حیران ہوں ہمارے ملک میں نئے سال کا استقبال کرنے والے بدتمیزی اور دوسروں کو تکلیف دے کر سال کا آغاز کیوں کرتے ہیں اور روکنے والے گالی اور ڈنڈے سے پرانے سال کو کیوں رخصت کرتے ہیں؟ میں نے وہاں ہوٹل کی کھڑکی میں کھڑے ہو کر سوچا ہم ایسے کیوں ہیں اور دنیا ہم سے مختلف کیوں ہے؟ مجھے کوئی جواب نہیں ملا اگر آپ کے پاس ہے تو آپ ضرور دیجیے گا۔

نوٹ: میں نے پاکستانی سیاحوں کی سہولت کے لیے ٹریول ود جاوید چوہدری کے نام سے ایک نیا یوٹیوب چینل بنا دیا ہے‘ آپ نیچے دیے گئے لنک پر جا کر اب میرے ساتھ پوری دنیا دیکھ سکتے ہیں۔

https://www.youtube.com/@TravelwithJavedChaudhry

Source: Express News

Must Read Urdu column Baku main Aik Din By Javed Chaudhry

Leave A Reply

Your email address will not be published.