بینکوں کا نہیں… پارلیمنٹ کا بائیکاٹ – اوریا مقبول جان

Orya Maqbool

جس طرح ایک خاص مشروب اور ایک خاص برگر کا بائیکاٹ کرنے کے بعد صہیونیوںکی تمام مصنوعات اُمتِ مسلمہ کے غم و غصہ سے دُور ہو جاتی ہیں، یا جس طرح ایک خاص پاکستانی مشروب اور اس کمپنی کی دیگر مصنوعات کو خریدنے سے انکار کے بعد قادیانیوں کے باقی تمام کاروبار قبولیت کی سند حاصل کر لیتے ہیں، ویسے ہی ان چار شیڈول بینکوں کے بائیکاٹ کی مہم ہے، جنہوں نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ساتھ مل کر وفاقی شرعی عدالت کے اس ’’ہومیو پیتھ‘‘ قسم کے فیصلے کے خلاف بھی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے۔ فرض کر لیا جائے کہ یہ چاروں بینک اگر اس عوامی دبائو کے تحت اس اپیل کا حصہ نہ بنیں تو کیا اکیلا سٹیٹ بینک آف پاکستان سپریم کورٹ کا دروازہ نہیں کھٹکھٹائے گا۔ یہ سٹیٹ بینک کیا ہے؟۔ کیا یہ کوئی عالمی ادارہ ہے یا کسی بڑی عالمی قوت کا سفارت خانہ ہے کہ جو حکومتی اختیار سے بالاتر ہے۔ ہرگز ہرگز ایسا نہیں ہے۔ کسی بھی ملک کا سٹیٹ بینک دراصل اس ملک کے عوام کے سرمائے کا محتاج اور اس سرمائے کے تحفظ اور قواعد و ضوابط کے مطابق چلانے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس کی حیثیت، مقام اور مرتبہ ایک ملازم یا منشی کا ہوتا ہے جو عوام کے منتخب نمائندوں یا قانونی حکومت کی خواہشات اور ہدایات کے مطابق من و عن عمل کرتا ہے۔ یہ نہ اپنے طور پر کوئی قرض لے سکتا ہے اور نہ اپنے طور پر کسی قرض کی قسط ادا کر سکتا ہے۔

اس کا کام ملک میں موجود وسائل اور مجموعی پیداوار جسے "Good will of a Country” کہتے ہیں، کے مطابق نوٹ چھاپنا ہے۔ لیکن اگر ترقیاتی کاموں یا انتظامی ضروریات کے لئے حکومت کو زیادہ نوٹ بھی چھاپنا پڑیں تو یہ حکومتی ہدایات سے انکار نہیں کر سکتا۔ چاہے قانونی طور پر کتنا ہی آزاد یا خودمختار ہی کیوں نہ بنا دیا جائے۔ یہ آئینِ پاکستان کے تحت قائم شدہ ایک ادارہ ہے اور یہ "The State Bank of Pakistan Act 1956” کے مطابق کام کرتا ہے۔ یہ وفاقی حکومت کا ایک ذیلی ادارہ ہے جس کے ایکٹ میں پارلیمنٹ اپنی سادہ اکثریت کے ساتھ جس وقت اور جو چاہے ترمیم کر سکتی ہے۔ کسی گورنر سٹیٹ بینک کو کسی بھی پالیسی معاملے میں فیصلہ کرنے کا اپنے طور پر کوئی اختیار حاصل نہیں۔ یہ صرف شرح تبادلہ (Exchange Rate) کی پالیسی بنا سکتا ہے جس کی منظوری بھی وفاقی حکومت نے دینا ہوتی ہے۔ اس مملکتِ خدادادِ پاکستان کے تمام کمرشل بینک، اسلامک کمرشل بینک، معاشی ادارے (DFIs) مائیکرو فنانس بینک، اور ایکسچینج کمپنیاں اسی سٹیٹ بینک کی منظوری سے قائم ہوتی ہیں اور پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون ’’بینکنگ کمپنیز آرڈیننس 1962ء ‘‘کے تحت سٹیٹ بینک ہی ان کے تمام اداروں کے کاروبار کا نگران ہوتا ہے۔ بینکوں کو قانون کے مطابق چلانے اور عوام کے سرمائے کے تحفظ کے لئے سٹیٹ بینک کے پاس وسیع اختیارات ہیں۔

ایسے میں وہ لوگ جو بینکوں کا بائیکاٹ کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف شہباز شریف، زرداری، مولانا فضل الرحمن اور دیگر سیاسی جماعتوں کی حکومت اپیل میں نہیں گئی ہے بلکہ یہ تو چند شرارتی قسم کے بینک ہیں جنہوں نے سٹیٹ بینک کو آگے لگا کر یہ حرکت کی ہے۔ جلوس نکالنے، جلسے کرنے، بینکوں کے نام لکھ کر ان پر پائوں رکھ کر تصاویر بنانے کی حد تک ہے۔ اس وقت پاکستان میں بائیس شیڈول بینک ہیں جن کے خلاف شرعی عدالت کا فیصلہ آیا ہے… ان تمام بینکوں میں اسلامی بینکنگ (جسے کوئی بڑے سے بڑا مفتی بھی اسلامی بینکنگ نہیں کہتا بلکہ غیر سُودی بینکاری کہتا ہے) کے لئے مفتیانِ کرام کو ایڈوائزر رکھا گیا ہے۔ اس شرعی بینکاری کی نگرانی کے لئے سٹیٹ بینک آف پاکستان میں ایک ’’شریعہ بورڈ‘‘ بھی قائم کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہماری مذہبی جماعتیں عوام سے اپیل کرتیں کہ وہ چار بینکوں سے اپنی رقوم نکلوائیں، ان تمام مفتیانِ کرام سے دست بستہ عرض کیا جانا چاہئے تھا کہ تمام مفتیانِ کرام کم از کم ان شیڈول بینکوں کی شرعی ایڈوائزری سے نکل جائیں، ایک تو ان کے کاروبار کو شرعی عدالت ناجائز قرار دے چکی ہے اور دوسرا یہ کہ تمام بینک بیک وقت دونوں نظام ایک ساتھ چلا رہے ہیں اور علیحدہ علیحدہ کھاتے تو دُور کی بات ہے، سٹیٹ بینک سطح پر بھی کوئی علیحدہ اسلامی اور غیر اسلامی کھاتوں کی رپورٹیں موجود نہیں ہیں۔ یہ ایسے عجیب و غریب ادارے ایک ایسی دُکان کی طرح ہیں جس کی دو کھڑکیاں ہوں، ان میں سے ایک پر بکرے کے گوشت کی تختی لگی ہوئی ہے اور دوسرے پر خنزیر کے گوشت کی تختی اور سٹور میں گوشت کا ایک ہی ڈھیر موجود ہو۔ ان مفتیانِ کرام کے ان بینکوں سے بحیثیتِ شرعیہ ایڈوائزر نکل جانے کے بعد عوام کو یہ اعتماد ضرور حاصل ہوگا کہ شرعی عدالت کے فیصلے کے بعد تمام بینکاری مکمل طور پر سُودی ہو چکی ہے۔ وہ اگر اس میں سرمایہ رکھیں گے بھی تو، ایک کراہت اور نفرت کے ساتھ۔ دُنیا بھر کے عالمی سُودی مالیاتی نظام کو اسلامی غلاف پہنانے کا جو کام کئی دہائیوں سے جاری تھا اب اسلامی بینکاری کے نام سے ایک تناور درخت بن چکا ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ بینکاری اپنے مقاصد اور عمل دونوں لحاظ سے ایک بڑے نظامِ زندگی کے ایک پرزے کی حیثیت رکھتی ہے، اس لئے کہ اس کو موجودہ شکل میں ’’مسلمان‘‘ بنانا ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دُنیا بھر میں رائج اب تک کی اسلامی بینکاری کو بڑے سے بڑا مفتی بھی اسلامی نہیں بلکہ غیر سُودی بینکاری کہتا ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ میں اس وقت جو حکومت ہے وہ لاتعداد بیساکھیوں پر کھڑی ہے۔ جن میں سے ایک بیساکھی ان پندرہ علمائے کرام کی ہے جو جمعیت العلمائے اسلام مولانا فضل الرحمن گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان پندرہ علماء کرام میں سے اگر صرف تین بھی حکومت چھوڑ جائیں تو حکومت دھڑام سے گر جاتی ہے۔ پارٹی اگر نہیں بھی چھوڑنا چاہتی تو یہ تینوں استعفے دے کر گھر چلے جائیں تو پھر بھی شہباز شریف حکومت اعتماد کا ووٹ نہیں لے سکے گی۔ یہ علماء حکومت کے ساتھ رہنے کے لئے یہ شرط لگائیں کہ حکومت بذریعہ ایکٹ آف پارلیمنٹ، یا عمومی انتظامی حکم نامے سے سٹیٹ بینک کو حکم جاری کرے کہ وہ شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل واپس لے اور شرعی عدالت فیصلے کی ہدایات کے مطابق، فوراً بینکنگ نظام کو اسلامی بنانے کی کوشش میں مصروف ہو جائے۔ اپیل کرنے کا عرصہ گزر چکا ہے اور اگر یہ اپیل واپس لے لی جاتی ہے تو پھر وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ حتمی اور آخری ہو جائے گا۔ سپریم کورٹ سُود کے بارے میں پہلے ہی 1999ء میں ایک ہزار صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ دے چکی ہے۔ اسی کو رہنما مان لیا جائے کیوں بعد کے نظرثانی کے فیصلے میں مقدمہ واپس شریعت کورٹ میں آیا تھا اور شریعت کورٹ نے بھی 28 اپریل 2022ء کے اپنے فیصلے میں اپنے 1992ء کے ہی فیصلے اور سپریم کورٹ کے 1999ء کے فیصلے سے ایک بار پھر اتفاق کیا ہے۔ گویا اب تین فیصلے سُود کے خلاف آ گئے، دو شریعت کورٹ کے فیصلے اور ایک سپریم کورٹ کا۔ اب دوبارہ سپریم کورٹ میں لڑنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک بار پھر پوری قوم کو بیس سال کے لئے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جائے۔ بینکوں کا نہیں اس پارلیمنٹ اور حکومت کا بائیکاٹ کرو جس کے تحت یہ بینک چلتے ہیں۔

Source: 92 news
Must Read Urdu column Bankon ka nahi Parliment ka Boycott By Orya Maqbool jan

Leave A Reply

Your email address will not be published.