بے راہ روی کے فروغ کا بل – انصار عباسی

Ansar Abbasi

گھریلو تشدد کے خاتمہ کے نام پر بنایا جانے والا Domestic Violence Bill شدید تنازع کی وجہ بننے کے سبب اب اسلامی نظریاتی کونسل کو نظرثانی کے لئے بھیجا جائے گا تاکہ دیکھا جائے کہ آیا یہ قانون اسلامی تعلیمات کے خلاف تو نہیں اور اگر ایسا ہے تو اس کی کون کون سی شقیں خلافِ اسلام ہیں؟ یاد رہے کہ اگرچہ اس بل کے حامی بشمول کچھ وفاقی وزراء اس بل کو Justify کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ بلاوجہ کا تنازع کھڑا کر دیا گیا ہے حالاں کہ صوبوں میں اس سے ملتے جلتے قانون پہلے سے ہی بن چکے ہیں اور اُن کا نفاذ بھی عمل میں آچکا ہے۔ اس بارے میں جب میری اسلامی نظریاتی کونسل کے ذمہ داروں سے بات ہوئی تو مجھے بتایا گیا کہ کونسل نے صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختون خواہ کے ان قوانین کا جائزہ لیا اور ان قوانین کی کئی شقوں کو خلافِ اسلام قرار دیا۔ بدقسمتی سے دونوں میں سے کسی بھی صوبہ نے اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلوں کے مطابق ان قوانین کو درست نہیں کیا۔ سندھ کے بارے میں کونسل کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ سندھ نے یہ قانون تو بنا لیا لیکن اسے کبھی کونسل کو جائزہ کے لئے نہیں بھیجا گیا۔ یہ تاثر ہے کہ سندھ کا قانون پنجاب اور خیبر پختون خواہ سے زیادہ متنازعہ ہے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے جب یہ بل گزشتہ سال کے آخری مہینوں میں قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تواسی دوران اسلامی نظریاتی کونسل نے اس بل کا سرسری جائزہ لیا اور یہ فیصلہ کیا کہ اس بل کی کئی شقیں قابلِ اعتراض ہیں۔ کونسل نے یہ کہتے ہوئے کہ اس بل پر کونسل تفصیلی غور و خوض کرے گی اور قابلِ اعتراض شقوں کا حوالہ دیتے ہوئے یہ سفارش کی کہ اس بل پر قانون سازی کا عمل روک دیا جائے۔ اگرچہ کونسل کا یہ اجلاس گزشتہ سال نومبر میں ہوا لیکن اس فیصلہ کے بارے میں وزارتِ انسانی حقوق کو گزشتہ ماہ کی 17تاریخ کو آگاہ کیا گیا۔ اب حکومت یہ فیصلہ کر چکی کہ اس معاملے کو آگے بڑھانے سے پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے معلوم کر لی جائے جو ایک خوش آئند بات ہے۔ کونسل اس معاملہ میں اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی تجاویز دے گی جس کا سب کو انتظار کرنا چاہیے۔ لیکن ایک عام فرد کی طرح جب آپ اس بل کو پڑھتے ہیں تو اس میں قابلِ اعتراض بات کیا ہے؟ جہاں تک جسمانی تشدد کی بات ہے تو اس کو روکنے پر تو کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا لیکن اس بل میں تشدد کی تعریف میں’’جذباتی،ـ نفسیاتی اور زبانی‘‘ عمل کو بھی شامل کر دیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ مالی تشدد کو بھی تشدد میں شامل کیا گیا ہے۔ تشدد کی اس لامحدود تعریف کی وضاحت کے لئے جن چند ’’افعال‘‘ کا بل میں ذکر کیا گیا اُن میں سے کچھ کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے جیسے یہ بل گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کلچر کو فروغ دینے کا رستہ کھول سکتا ہے، خاندان اور شادی کے اداروں کو کمزور کر سکتا ہے۔ ایک شق کے مطابق اگر شکایت کنندہ چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی اپنے باپ، ماں، بھائی یا بڑی بہن کے متعلق شکایت کرتا ہے کہ اُس کی توہین کی گئی یا اُس کی توہین کی جاتی ہے تو یہ تشدد کے زمرے میں آئے گا جس کی سزا تین سال تک ہے اور جس کے نتیجے میں جس فرد کے خلاف شکایت کی گئی اُسے گھر سے بھی بے دخل ہونا پڑے گا۔ اس طرح اگر باپ، ماں، بھائی، بڑی بہن کو اپنے گھر کے کسی لڑکے یا لڑکی کے بارے میں شک ہے کہ اُس کا بوائے فرینڈ یا گرل فرینڈ ہے تو اس کے لئے اُس لڑکے یا لڑکی کی نگرانی کی جاتی ہے، اُسے تربیت کے مقصد کے لئے یہ کہا جاتا ہے کہ تم گھر سے نہیں نکل سکتے یا نکل سکتی تو نگرانی کرنا اور اُس کو گھر سے نکلنے سے روکنا بھی اُس کے لئے جذباتی اور نفسیاتی تشدد بن جائے گا۔ اگر باپ نے، ماں نے، بڑی بہن یا بھائی نے اپنے ہی خاندان کے لڑکے لڑکی کو یہ بھی کہہ دیا کہ میں تمھیں ماروں گا اگر تم نے یہ کیا ۔۔۔ تو یہ جسمانی اور ذہنی طور پر تکلیف دینے کی دھمکی کے زمرے میں آئے گا جو اس بل کے مطابق قابل گرفت گھریلو تشدد ہو گا۔ اگر گھر کا کوئی فرد یہ شکایت کر دے کہ اُسے اُس کے باپ، شوہر، بھائی، ماں، بہن نے ہراساں کیا اور اس میں جسمانی تشدد شامل نہ ہو تو بھی یہ اس بل کے تحت جرم تصور ہوگا۔ اس قانون میں کچھ اچھی چیزیں بھی ہیں لیکن اس کے خدوخال کو دیکھ کر واضح طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس کا اصل مقصد وہ نہیں جو بتایا جا رہا ہے بلکہ خاندانی نظام اورشادی کے بندھن کو کمزور کرنا اور بوائے فرینڈ گرل فرینڈ کلچر کو فروغ دینا ہے جس پر والدین، بڑے بھائی بہن کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہ ہو۔ آج کل سکولوں کالجوں کا کوئی حال نہیں۔ اگر آپ اپنے بچوں کو ڈسپلن کرنا چاہیں گے اور اُن پر تربیت کی غرض سے جائز سختی کریں گے، روک ٹوک کریں گے ، اُنہیں بوائےفرینڈ گرل فرینڈ کلچر سے بچائیں گے تو پھر آپ جذباتی، نفسیاتی یا زبانی تشدد کرنے کے مجرم قرار پا سکتے ہیں۔ اس بل کا سب سے خطرناک پہلو بچوں کو بوائے فرینڈ گرل فرینڈ کلچر اپنانے جبکہ ماں باپ کو جیل بھیجنے، گھر سے بے دخل کرنے اور مجرموں کے ہاتھوں اور پائوں میں کڑے پہنانے کا ڈر پیدا کرنا ہے۔ بل پڑھ کر سوچتا ہوں کہ ہماری پارلیمنٹ کے ارکان کیا سوئے ہوئے ہیں؟

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

Source: Jung News

Read Urdu column Bay Rah Ravi k Farog ka Bill By Ansar Abbasi

Leave A Reply

Your email address will not be published.