بس میری اتنی درخواست ہے – جاوید چوہدری

Javed Chaudhry

آرمینیا دنیا کی پہلی ڈکلیئرڈ کرسچین اسٹیٹ تھی‘ حضرت عیسیٰ ؑ کے بعد عیسائی فلسطین سے ترکی میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے‘آرمینیا نے اپنے دروازے کھولے اور یہ دھڑا دھڑ یہاں آباد ہوتے چلے گئے۔

آرمینیا مختلف ادوار سے گزرتا ہوا 1920ء میں سوویت یونین کے قبضے میں چلا گیا اور یہ 1991ء میں آزاد ہو گیا‘ پاکستان اس وقت دنیا کا واحد ملک ہے جس نے آرمینیا کو تسلیم نہیں کیا‘ ہمارے آج بھی اس کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں‘کیوں؟ وجہ دو برادر اسلامی ملک ترکی اور آذربائیجان ہیں‘ آرمینیا کے عیسائیوں نے 1991ء میں آذر بائیجان کے علاقے نیگورنو کاراباخ پر حملہ کر دیا‘آذربائیجان کے30ہزار مسلمان شہید ہو گئے۔

آرمینیائی فوج نے 1994ء میں نیگورنوکارا باخ پر قبضہ کر لیا‘ آج بھی آرمینیااور آذربائیجان کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں‘ ترکی اور پاکستان دونوں نیگورنو کارا باخ کے مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور ہم آج تک ان کے ساتھ ہیں‘ ہمارا صرف ایک موقف ہے‘ آرمینیا جب تک نیگورنو کارا باخ خالی نہیں کرتا ہم اس وقت تک اسے تسلیم نہیں کریں گے‘ اب سوال یہ ہے اگر آج آذربائیجان اور ترکی دونوں آرمینیاکے ساتھ بیٹھ کر یہ مسئلہ حل کر لیتے ہیں یا آرمینیا مقبوضہ علاقے آذر بائیجان کو دے دیتا ہے یا پھر آذر بائیجان اور ترکی آرمینیا کے حق میں دست بردار ہو جاتے ہیں تو پھر پاکستان کیا کرے گا؟

پاکستان بھی یقینا آرمینیا کو تسلیم کر لے گا کیوں کہ جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی! آپ دوسری مثال بھی لیجیے‘ مشرقی پاکستان 1971ء میں بنگلہ دیش بن گیا‘ ہم نے اسے تسلیم نہیں کیا‘ ہمارے دوست ملکوں نے بھی بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا لیکن جب ذوالفقار علی بھٹو نے 1974ء میں بنگلہ دیش کو مان لیا تو اگلے ہی دن ہمارے دوست ملکوں نے بھی ڈھاکا میں سفارت خانے کھولنے شروع کر دیے یوں مسئلہ ختم ہو گیا‘میں آرمینیا اور پاکستان کے تعلقات کی طرف واپس آتا ہوں۔

آرمینیا دنیا کی پہلی عیسائی ریاست ہے اور پاکستان اسلام کے نام پر بننے والا پہلا اسلامی ملک لیکن کیا آرمینیا اور پاکستان کے درمیان عیسائیت اور اسلام کی جنگ ہے؟ جی نہیں‘ یہ مذہبی نہیں ایک سفارتی اور سیاسی ایشو ہے اور دنیا کے تمام سیاسی اور سفارتی ایشوز میز پر ختم ہوتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح آج ڈھاکا میں پاکستان اور اسلام آباد میں بنگلہ دیش کا سفارت خانہ ہے اور آج دونوں ملکوں میں کوئی لڑائی نہیں جب کہ دوسری طرف بھارت اور پاکستان 73 برسوں سے لڑ رہے ہیں‘ یہ مزید 73 برس لڑتے رہیں گے کیوں؟

کیوں کہ دونوں ملکوں نے سفارتی اور سیاسی ایشو کو مذہبی بنا دیا ہے‘ یہ لڑائی پاکستان اور بھارت کی لڑائی نہیں رہی‘ یہ ہندو اور مسلمان کی جنگ ہے لہٰذا ہم کل بھی دشمن تھے‘ ہم آج بھی دشمن ہیں اور ہم کل بھی دشمن رہیں گے اور ہم اس وقت تک لڑتے رہیں گے جب تک ہم درمیان سے مذہب کی لکیر نہیں اٹھاتے‘ ہم جب تک مذہب کو سائیڈ پر کر کے اپنے تنازعوں کو سیاسی اور سفارتی نہیں مانتے‘ ہم لڑتے لڑتے مر جائیں گے مگر ہم کسی پرامن حل تک نہیں پہنچیں گے۔

ہم سفارتی اور سیاسی ایشوز کو مقامی سیاست کے ذریعے بھی سمجھ سکتے ہیں‘ آپ 1990ء کی دہائی میں چلے جائیں‘ آپ کو پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن خونی دشمن دکھائی دیں گی‘ آصف علی زرداری نے رحمن ملک کے ذریعے میاں شریف کو دفتر سے کرسی سمیت اٹھا لیا تھا‘ نواز شریف نے سیف الرحمن کے ذریعے بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری پر دو درجن کیس بنوا دیے۔

زرداری صاحب نواز شریف کی وجہ سے مختلف ادوار میں 11 سال جیل میں بھی رہے اور یہ ایک دوسرے کو غدار اور سیکیورٹی رسک بھی کہتے رہے اور ایک دوسرے کو سرعام پھانسی دینے‘ پیٹ پھاڑنے اور الٹا لٹکانے کی قسمیں بھی کھاتے رہے لیکن پھر دونوں نے 2008ء میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر حکومت بھی بنائی اور دو ستمبر2020ء کو پیٹ پھاڑنے کے دعوے کرنے والے میاں شہباز شریف کراچی میں چل کر بلاول ہائوس بھی گئے اور آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو سے ملاقات بھی کی‘ دوسری طرف ایک وقت تھا جب چوہدری ظہور الٰہی نے جنرل ضیاء الحق سے وہ قلم بطور سووینئر مانگ لیا تھا جس سے انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا حکم جاری کیا تھا۔

چوہدری صاحبان الذوالفقار کو چوہدری ظہور الٰہی کا قاتل بھی سمجھتے تھے اور آصف علی زرداری نے ق لیگ کو بے نظیر بھٹو کا قاتل بھی کہا تھا لیکن پھر یہ دونوں 2011ء میں ایک دوسرے کے اتحادی بھی بنے اور چوہدری پرویز الٰہی پیپلز پارٹی کی حکومت میں ڈپٹی وزیراعظم بھی رہے‘ آپ مزید آگے بڑھیے‘ عمران خان نے میاں نواز شریف کے خلاف 126 دن دھرنا دیا‘ یہ وزیراعظم ہائوس کے گیٹ اور پارلیمنٹ کے احاطے میں بھی بیٹھے رہے لیکن پھر اے پی ایس کا واقعہ پیش آیا اور عمران خان اور میاں نواز شریف دونوں پشاور میں ایک میز پر بھی بیٹھے اور ایک دوسرے کے ساتھ ہینڈ شیک بھی کیا اور عمران خان ایم کیو ایم کے بارے میں بھی کیا نہیں کہتے تھے مگر آج ایم کیو ایم کے لوگ نفیس بھی ہیں اوریہ وفاقی کابینہ میں بھی شامل ہیں۔

عمران خان کے وزیر قانون بھی فروغ نسیم ہیں اور وہ دن بھی دور نہیں جب قوم عمران خان‘ نواز شریف اور بلاول بھٹو کو بھی ایک میز پر دیکھے گی‘ یہ ہوتی ہے سیاست‘ وہ سیاست جس میں اگر سارے دروازے بھی بند ہو جائیں تو بھی کوئی نہ کوئی روشن دان ضرور کھلا رہتا ہے اور یہ روشن دان مشکل میں پورا دروازہ بن جاتا ہے جب کہ مذہب میں کوئی دوسرا دروازہ‘ کوئی روشن دان نہیں ہوتا اور ہم من حیث القوم سفارتی اور سیاسی ایشوز کو مذہبی بنانے کی علت کا شکار ہیں‘ ہم پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات کو پاکستان اور آرمینیا کی طرح سفارتی یا سیاسی ایشو نہیں سمجھتے‘ ہم نے اسے یہود اوراسلام کا تنازع بنا دیا ہے اور ہم اس کی مذہبی تاویلیں دیتے ہیں۔

مجھے صرف یہ اعتراض ہے تاہم میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں پاکستان نے 1967ء اور 1973ء کی جنگ کے دوران گلف کے ملکوں میں پاکستانی ائیرفورس کی سپورٹ دی تھی لیکن ہم نے یہ سپورٹ فلسطینیوں کو نہیں دی تھی‘ ہم نے اردن کے شاہ حسین‘ شام کے حافظ الاسد اور مصر کے جمال عبدالناصراور انور سادات کی مدد کی تھی‘ یہ ایوب خان اور بھٹو صاحب کے دوست تھے لیکن جب انھوں نے اسرائیل کے سامنے سرینڈر کر دیا تھا تو ہم بھی فلسطینیوں کے خون پر خاموش ہو گئے تھے‘ فلسطینیوں پر اگر کسی پاکستانی نے مہربانی فرمائی تو وہ فیض احمد فیض جیسے شاعر اور عام پاکستانی ہیں لیکن جہاں تک اسٹیٹ کی بات ہے تو یہ ہمیشہ عرب حکمرانوں کے ساتھ کھڑی ہوئی‘ آج بھی اگر ہمیں عرب حکمران (عرب عوام نہیں) فلسطینیوں کو رگڑا لگانے کا حکم دے دیں تو شاید ہم 1971ء کی طرح آج بھی ان پر ٹینک چڑھا دیں‘ اللہ کرے میرایہ اندیشہ غلط ثابت ہو جائے۔

میرے غیر مقبول ترین کالموں سے میرے ذہین ترین دوستوں نے یہ اندازہ لگایا یہ کالم ’’طاقتور لوگوں‘‘ نے لکھوائے ہیں جب کہ صورت حال بڑی دلچسپ ہے‘ اس کم زور کالم نگار نے 30 اگست کے کالم ’’پلیز مجھے بھی بتا دیں‘‘ میں پہلی باریہ اطلاع دی مسقط میں چھپ چھپ کر مذاکرات ہو رہے ہیں اور یہ مذاکرات یقینا کم زور لوگ کر رہے ہوں گے کیوں کہ طاقتور لوگوں کا ایلچی کم از کم یہ انکشاف نہ کرتا لیکن میں اس کے باوجود اپنی کوتاہی تسلیم کرتا ہوں اور یہ مانتا ہوں شاید میرے کالموں سے یہ تاثر ابھر رہا ہے میں پاکستان سے اسرائیل کو تسلیم کرانا چاہتا ہوں‘ میں اسرائیل کا حامی یا مخالف نہیں ہوں‘ میں صرف اور صرف پاکستانی ہوں۔

مجھے صرف اس ملک کا مفاد عزیز ہے اور اس مفاد کی وجہ سے میری اس ریاست سے چار درخواستیں ہیں‘ ایک‘ پاکستان اور آرمینیاہو‘ پاکستان اور اسرائیل ہو یا پھر عرب اور اسرائیل تنازعے ہوں یہ مذہبی ایشوز ہیں اور نہ یہ کفر اور اسلام کی جنگ ہیں یہ خالصتاً سیاسی اور سفارتی ایشوز ہیں اور سفارتی اور سیاسی ایشوز اگر علامہ اقبال کی زندگی میں بھی آتے ہیں تو علامہ صاحب سر کا خطاب بھی قبول کر لیتے ہیں اور وہ اسرار خودی بھی لکھتے ہیں اور خطبہ الٰہ آبادبھی دیتے ہیں اور یہ جب قائداعظم کی زندگی میں آتے ہیں تو یہ بھی برطانوی شاہ کا حلف لیتے ہیں۔

گورنر جنرل کا سر ٹیفکیٹ قبول کر لیتے اورپاکستان بھی بناتے ہیں اور یہ نقطہ ثابت کرتا ہے انسان حالات میں زندہ رہتے ہیں‘ یہ ہر ایشو پر قبلے تقسیم نہیں کیا کرتے‘ دوسری درخواست ‘آپ عربوں کے ساتھ کھڑے نہ ہوں آپ فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہوں‘ عرب فلسطینیوں کو مسلسل بیچ رہے ہیں اور ہم ان کے ساتھ مفت میں بک رہے ہیں‘ آج سعودی عرب نے اسرائیلی طیاروں کے لیے اپنی فضا اور یو اے ای نے اپنے دروازے کھول دیے ہیں‘ دبئی کے ہوٹلوں نے اسرائیلی پاسپورٹ ہولڈرز کے لیے 40 فیصد رعایت کا اعلان کر دیا ہے اور کل اگر سارا عرب اسرائیل کو مان لیتا ہے تو ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟

ہم کم از کم فلسطینیوں کے ساتھ تو کھڑے ہوں تا کہ کل ان کی اگلی نسلیں یہ کہہ سکیں پاکستان واحد ملک تھا جو آخر تک ہمارے ساتھ رہا اور آپ یہ بھی یاد رکھیں عربوں نے کل ریڈ سی کے کنارے نئے شہرآباد کرنے ہیں اور ان کے لیے انھیں اسرائیل کی ضرورت ہو گی‘ تیسری درخواست‘ ہم اگر عربوں کے ساتھ ہیں تو پھر ہم اعلان کریں ہم فلسطین نہیں ہم اپنے عرب اتحادیوں کے ساتھ ہیں جس دن یہ اسرائیل کو مان لیں گے اس دن ہم بھی تسلیم کر لیں گے‘ ہم یہ مان کر کم از کم قومی منافقت سے تو باہر آ جائیں گے اور چوتھی درخواست۔

پاکستان جو بھی کرے کھل کر کرے‘ یہ نہ ہو طاقتور جنرل یحییٰ خان بریگیڈیئر ضیاء الحق کو حکم دے اور وہ فلسطینیوں پر بمباری شروع کر دیں اور طاقتور بھٹو کہیں اور ہم شاہ حسین‘ حافظ الاسد اور انور سادات کے لیے اپنے جوانوں کی قربانی دے دیں اور یہ جب چاہیں یہ ہمیں پیچھے ہٹنے کا اشارہ کریں اور ہم فلسطینیوں کو دوبارہ بھول جائیں‘ یہ فیصلے پاکستان کے فیصلے ہیں اور یہ ڈنکے کی چوٹ پر ہونے چاہئیں‘ یہ چھپ کر نہیں ہونے چاہییں بس میری اتنی درخواست ہے‘ ریاست قبول کر لے تو ٹھیک ورنہ ہم باقی سفر بھی کنفیوژن اور منافقت کے اندھیرے میں طے کر لیں گے‘ کیا فرق پڑتا ہے۔

Source

Must Read urdu column Bus Meri Itni Darkhawst hai by Javed Chaudhry

Leave A Reply

Your email address will not be published.