چھوٹی چھوٹی کامیابیاں – جاوید چوہدری

www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

پال ایلن مائیکرو سافٹ میں بل گیٹس کا پارٹنر تھا‘ بل گیٹس پال سے 12 سال کی عمر میں ملا‘ یہ دونوں اس وقت اسکول میں پڑھتے تھے‘ دونوں کمپیوٹر کے نشئی تھے۔

پال ایلن1971ء میں واشنگٹن اسٹیٹ یونیورسٹی گئے اور1974ء میں ڈراپ آؤٹ ہوگئے جب کہ بل گیٹس 1973 ء سے 1975ء تک ہارورڈ یونیورسٹی میں زیرتعلیم رہے‘ اس دوران پال ایلن نے بل گیٹس کو ہارورڈ یونیورسٹی چھوڑنے پر راضی کیا اور دونوں نے 1975ء میں مائیکرو سافٹ کی بنیاد رکھی اور پھر اس کمپنی نے پوری دنیا کا مزاج بدل دیا‘ کمپیوٹر آفیشل سے پرسنل بنا اور یہ آخر میں موبائل فون میں تبدیل ہو گیا‘ یہ پال ایلن 15اکتوبر2018ء کوسیاٹل میں انتقال کر گیا‘ یہ خون کے سرطان میں مبتلا تھا‘ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتا تھا۔

ذاتی دولت 20بلین ڈالر سے زائد تھی‘ اس نے 1982میں مائیکرو سافٹ چھوڑی اور زندگی کے باقی 36سال فلاح و بہبود میں لگا دیے‘ یہ دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے اپنی دولت انسانیت کے لیے وقف کر گیا‘ دنیا کے تمام نامور چیف ایگزیکٹوز کا دعویٰ ہے مائیکرو سافٹ کے پیچھے دماغ بل گیٹس کا تھا لیکن کمپنی کو دنیا کی سب سے بڑی کارپوریشن پال ایلن نے بنایا‘ یہ قدرتی طور پر بزنس کو سمجھتا تھا اور مشکل سے مشکل ڈیل کو اپنے حق میں استعمال کرلیتا تھا‘ پال ایلن کی بزنس فلاسفی کے صرف دو ستون تھے‘ بڑے فیصلوں سے پہلے چھوٹے چھوٹے فیصلے اور کامیاب مثالوں کو قبول کرنا‘ یہ دونوں فلسفے بظاہر آسان دکھائی دیتے ہیں لیکن یہ انتہائی مشکل ہیں۔
پال ایلن کا خیال تھا آپ اگر کوئی بڑی کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ پہلے چھوٹی چھوٹی کامیابیاں حاصل کریں‘ یہ چھوٹی کامیابیاں آپ اور آپ کے ساتھیوں کے اعتماد میں بھی اضافہ کریں گی اور یہ آپ کو بڑی کامیابی حاصل کرنے کا گُر بھی سکھا دیں گی‘ دوسرا وہ کہتا تھا دنیا میں اس وقت کامیابی کے بے شمار ماڈل موجود ہیں‘ آپ اپنا ماڈل تخلیق کرنے کے بجائے ان میں سے کوئی ماڈل لیں اور کام شروع کر دیں‘ آپ کا وقت اور توانائی دونوں بچ جائیں گی‘ وہ کہتا تھا آپ کامیابی کا ماڈل لیتے وقت ہر قسم کے تعصبات سے بالاتر ہو جائیں‘ اگر آپ کے دشمن نے بھی کارآمد سسٹم بنایا ہے تو آپ اس سے وہ سسٹم لیں‘ اسے استعمال کریں اور استعمال کے بعد اس کا شکریہ ادا کریں‘ آپ کبھی نقصان میں نہیں رہیں گے۔

پال ایلن کی اس فلاسفی میں عمران خان کے لیے دو شاندار ٹپس چھپی ہیں‘ پہلی ٹپ‘وزیراعظم بڑی سے پہلے چھوٹی کامیابیاں حاصل کریں‘ حکومت نے بدقسمتی سے کرسی پر بیٹھتے ہی مشکل اور بڑے فیصلے شروع کر دیے ہیں‘ یہ فیصلے حکومت اور اس کی اہلیت دونوں کو بھی لے کر بیٹھ رہے ہیں اور عوام نے بھی سر پر ہاتھ رکھ کر دہائیاں دینا شروع کر دیں‘ یہ سلسلہ اگر اسی طرح چلتا رہا تو یہ ملک کی پہلی حکومت ہو گی جس کے خلاف چھ ماہ میں عوامی احتجاج شروع ہو جائے گا‘ لوگ سڑکوں پر ہوں گے اور حکومت کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔

مجھے یہ بھی محسوس ہوتا ہے یہ لوگ جس طرح بیورو کریسی پر غیر ضروری دباؤ ڈال رہے ہیں اور یہ جس طرح متکبرانہ لہجے میں بات کرتے ہیں‘ سرکاری مشینری اس سے تنگ آ کر کام کرنا بند کر دے گی اور یہ بہت بڑا بحران ہو گا چنانچہ عمران خان کو چاہیے یہ بڑے اور مشکل فیصلوں کو ترجیحات کی فہرست میں دوسرے اور تیسرے نمبر پر لے آئیں اور پہلے چھوٹی چھوٹی کامیابیاں حاصل کریں مثلاً پاکستان میں ستر سال سے ٹریفک کے مسائل ہیں۔

موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ نہیں پہنتے‘ لوگ کسی بھی جگہ سے سڑک پار کر لیتے ہیں‘ ڈرائیور لائین کی پرواہ نہیں کرتے اور لوگ بلاوجہ ہارن بجاتے رہتے ہیں‘ گاڑیوں کی مینٹیننس اور انشورنس کے قوانین پر بھی آج تک عملدرآمد نہیں ہوا اور پاکستان روڈ سیفٹی میں بھی دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں شمار ہوتا ہے‘ حکومت یہ مسئلہ فوراً حل کر سکتی ہے‘ آپ اعلان کریں ملک میں فلاں تاریخ کے بعد لائسنس کے بغیر گاڑی چلانے والوں کو دو لاکھ روپے جرمانہ ہو گا‘ موٹر سائیکل بنانے والوں کو پابند کیا جائے یہ موٹر سائیکل کے ساتھ دو ہیلمٹ بھی دیں گے اور ہیلمٹ استعمال نہ کرنے والے کا موٹر سائیکل ضبط کر لیا جائے گا۔

آپ اسی طرح گاڑی کی مینٹیننس اور انشورنس کو بھی قانون بنا دیں‘ پاکستان میں کوئی گاڑی انشورنس اور مینٹیننس سرٹیفکیٹ کے بغیر سڑک پر نہیں آنی چاہیے‘ آپ اس کے لیے فائن (جرمانہ) پولیس بنائیں اور یورپ کی طرح فائن کرنے والے ہر اہلکار کو جرمانے کی رقم میں سے 25 فیصد بونس دیں‘ آپ چند ماہ میں یہ کامیابی حاصل کر لیں گے۔

پاکستان میں 80 لاکھ نشئی ہیں‘ ملک میں دنیا کے تمام مہلک نشے بھی عام ملتے ہیں‘ ہماری ائیر ہوسٹس اور پائلٹس تک منشیات کے جرم میں گرفتار ہوئے‘ سعودی عرب کی جیلوں میںسینکڑوں پاکستانی اسمگلر بند ہیں‘ ہمارے ائیر پورٹس پر ہر دوسرے دن منشیات پکڑی جاتی ہیں‘ اسکول‘ کالج اور یونیورسٹیاں تک اس ذلت کی آماجگاہ ہیں‘ اسلام آباد کی حالت سب سے زیادہ خراب ہے‘ شہر میں شراب فروشوں کے دو گروپ ہیں‘ پورا شہر ان سے واقف ہے لیکن کوئی ان پر ہاتھ نہیں ڈالتا‘ آپ اے این ایف کو ایکٹو کر کے پاکستان کو منشیات فری بنا سکتے ہیں اور پوری دنیا کے لیے مثال بن سکتے ہیں۔

اسی طرح پاکستان کے اڑھائی کروڑ بچے اس وقت بھی اسکول کی نعمت سے محروم ہیں‘ آپ اعلان کریں ایک سال بعد ملک کا کوئی بچہ اسکول سے محروم نہیں ہو گا‘ پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ میٹرک تک تعلیم ضرور حاصل کرے گا‘ پاکستان ’’فوڈ کوالٹی‘‘ میں بدترین ملکوں کی فہرست میں شامل ہے‘ ہمارا وزیراعظم بھی عام لوگوں کے ساتھ دودھ‘ دہی‘ پانی‘ گوشت‘ روٹی اور سبزی کے نام پر زہر کھا رہا ہے۔

آپ ملک میں کم از کم خوراک ہی کو خالص کر دیں‘ آپ فوڈ پولیس بھی بنائیں‘ یہ پولیس جو کیس پکڑے آپ اسے بھی ریکوری کا 20 فیصد ادا کریں‘ یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا‘ آپ اسی طرح اسٹریٹ چلڈرن کو بیت المال کے اسکولوں میں داخل کریں‘ ملک کے تمام بھکاریوں کو اٹھائیں اور ایدھی فاؤنڈیشن اور سکل ڈویلپمنٹ کے اداروں کے حوالے کریں‘ آپ ملک کے دس بڑے شہروں کو صاف پانی فراہم کرنا شروع کریں‘ ملک کو بچوں کی سات بیماریوں سے پاک کریں۔

یہ قانون بنا دیں ملک کے تمام بچے اسپتالوں میں پیدا ہوں گے اور یہ پیدائش کے فوراً بعد رجسٹرڈ ہوں گے اور آپ ملک کو اسلحہ فری بھی کرنا شروع کر دیں‘ یہ تمام کام معمولی بجٹ کے ساتھ بڑی آسانی سے ہو سکتے ہیں‘ یہ چھوٹی چھوٹی کامیابیاں حکومت کے اعتماد میں اضافہ کریں گی اور حکومت اگر اس کے بعد ملک کے تمام کرپٹ لوگوں کو بھی پکڑ لے گی یا یہ بجلی‘ گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں دگنا اضافہ بھی کر دے گی تو لوگ اسے خوشی سے قبول کر لیں گے ورنہ دوسری صورت میں حکومت بڑے اور بھاری پتھر اٹھانے کی کوشش میں کچلی جائے گی۔

ہم اب پال ایلن کی دوسری فلاسفی کی طرف آتے ہیں‘ وہ کہتا تھا آپ کامیابی کا ماڈل دشمن سے لیتے ہوئے بھی نہ گھبرائیں‘حکومت یہ بھی کر سکتی ہے‘ پاکستان میں سب برا نہیں ‘ ہم نے ستر سال میں کامیابی کی بے شمار مثالیں قائم کی ہیں‘ حکومت ان مثالوں کو ماڈل بنا لے‘ قوم تبدیل ہو جائے گی‘ مثلاً پاکستان میں عبدالستار ایدھی جیسے ان پڑھ شخص نے دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس بنائی‘ آپ یہ ماڈل پاکستان کے تمام شہروں میں متعارف کرا دیں‘ پاکستان میں ٹی سی ایس اور لمز یونیورسٹی جیسے بین الاقوامی ادارے بنے‘ عالمی یونیورسٹیوں میں ان کی مثالیں دی جاتی ہیں۔

آپ محکمہ ڈاک میں ٹی سی ایس اور سرکاری یونیورسٹیوں میں لمز کا ماڈل متعارف کرا دیں‘ حکومت سے پی آئی اے نہیں چل رہی لیکن ائیر بلیو منافع میں جا رہی ہے‘ آپ پی آئی اے کو ائیربلیو کے ماڈل پر شفٹ کر دیں‘ ڈاکٹرعبدالباری خان نے کراچی میں انڈس اسپتال بنا کر پوری دنیا کو حیران کر دیا‘ آپ یہ ماڈل پاکستان کے بیس بڑے اسپتالوں میں متعارف کرا دیں‘ میاں شہباز شریف نے دوبار روایتی بیورو کریسی سے کام لے کر پنجاب کی حالت بدل دی۔

آپ گورننس کا یہ ماڈل وفاق اور چاروں صوبوں میں متعارف کرا دیں‘ قصوری فیملی نے30 شہروں میں بیکن ہاؤس اور50 شہروں میں سٹی اسکول کے کیمپس قائم کر کے پاکستان میں اسکولوں کی سب سے بڑی پرائیویٹ چین بنائی‘ آپ یہ ماڈل بتدریج سرکاری اسکولوں میں نافذ کر دیں‘ ملک میں تیس برسوں میں ہاؤسنگ کے دو کامیاب ماڈل متعارف ہوئے‘ ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن‘ آپ دونوں ماڈل لیں اور ملک کے دس بڑے شہروں کی ڈویلپمنٹ اتھارٹیز میں نافذ کر دیں‘ آپ اگر بحریہ ٹاؤن کے بائی لاز کو ہی قانون بنا دیں تو ملک کے تمام تعمیراتی ایشوز ختم ہو جائیں گے‘ آپ اسی طرح تمام سرکاری دفتروں میں پاک فوج کا احتسابی نظام نافذ کر دیں۔

آپ پوری حکومت میں فوج کا پروموشن سسٹم بھی متعارف کرا دیں‘ آپ تمام سرکاری محکموں میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ جیسا سنیارٹی سسٹم بھی بنا دیں اور آپ چپڑاسی سے لے کر سیکریٹری تک حکومت کی تمام تقرریاں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے حوالے کر دیں اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں نیسلے پاکستان‘ اینگرو اور پاکستان ٹوبیکو کمپنی کا ہائرنگ ماڈل متعارف کرا دیں تو ملک بڑی آسانی سے ٹریک پر آ سکتا ہے‘ کامیابی کے یہ تمام ماڈل پاکستانی ہیں اور ان ماڈلز نے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔

نیسلے کمپنی نے اپنا پانی کا برانڈ (پیور لائف) پاکستان سے اسٹارٹ کیا تھا‘ یہ برانڈ اب دنیا کے 40ملکوں میں چل رہا ہے‘ نیسلے کمپنی کا دنیا کا دودھ کا سب سے بڑا پلانٹ بھی پاکستان میں ہے‘ پاکستان میں اگر یہ ممکن ہے تو پھر کوئی چیز ناممکن نہیں‘ آپ بس ناکام محکموں میں یہ کامیاب ماڈل متعارف کرا دیں اور پھر پرانے پاکستان کے ملبے سے نیا پاکستان طلوع ہوتا دیکھیں چنانچہ میری درخواست ہے‘ عمران خان عوام کی مانیں یا نہ مانیں یہ پال ایلن کی مان لیں‘ یہ خسارے میں نہیں رہیں گے۔

Source
Must Read urdu column Choti choti kamyabian By Javed Chaudhry

Leave A Reply

Your email address will not be published.