کنفیوژن – جاوید چوہدری

Javed Chaudhry

مجھے چند دن قبل یورپ کے ایک چھوٹے سے ملک کے سفیر کے ساتھ دو گھنٹے گزارنے کا موقع ملا‘ سفیر اس سے پہلے ویت نام‘ قازقستان اور انڈونیشیا میں خدمات سرانجام دے چکا تھا‘ مجھے اس کے ملک کی وزٹ کا اتفاق ہو چکا تھا چناں چہ ایک سفارتی تقریب میں اس سے ملاقات ہوئی‘ میں نے اس کے ملک کے مختلف مقامات کا ذکر شروع کیا اور یوں ملاقاتیں ہونے لگیں اور آخر میں اس سے تفصیلی ملاقات ہو گئی۔

یہ تین ماہ قبل پاکستان میں تعینات ہوا تھا‘ ہمارے ملک کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا تھا لیکن تجربے کی وجہ سے تین ماہ میں بہت کچھ سمجھ گیا تھا‘ ملاقات میں اس نے ویت نام اور انڈونیشیا کا ذکر کیا‘ اس کا کہنا تھا‘ میں 1990 کی دہائی میں جب پہلی مرتبہ ویت نام گیا تو وہ ملک ایک گاؤں تھا‘ ہوچی من سٹی میں صرف ایک ریستوران تھا اورایک سڑک‘ شام کے بعد شہر میں کوئی سرگرمی نہیں ہوتی تھی۔

ہمیں کھانے پینے کی اشیاء اور کپڑے جوتے بھی ملائیشیا اور سنگاپور سے منگوانے پڑتے تھے لیکن پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس ملک نے ترقی کی اور آج جب میں ویت نام کو دیکھتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں‘ دنیا بھر سے سیاح وہاں جا رہے ہیں اور اس کی ایکسپورٹس بھی 370بلین ڈالرز ہو چکی ہیں‘ ملک بھی صاف ستھرا اور پرامن ہے۔

انڈونیشیا بھی میرے سامنے اپنے پاؤں پر کھڑا ہوا‘ میں پہلی مرتبہ بالی گیا تو وہاں کچھ بھی نہیں تھا‘ ٹیکسی بڑی مشکل سے ملتی تھی‘ ریستوران کے نام پر چھوٹا سا کھوکھا تھا لیکن پھر اس نے انگڑائی لی اور یہ بھی بڑی دوڑ میں شامل ہو گیا‘ قازقستان بہرحال ایک امیر ملک ہے۔۔

اس کے پاس قدرتی وسائل ہیں لیکن یہ بھی اس کے باوجود پس ماندہ تھا‘ الماتے ایک ہی بڑا شہر تھا اور اس کے بعد ٹھنڈا یخ صحرا تھا‘ سردیاں بہت طویل اور مشکل ہوتی تھیں لیکن پھر میرے سامنے آستانہ جیسا جدید شہر بنا اور آج یہ ملک سینٹرل ایشیا کا مرکز ہے‘ میں اب پاکستان آیا ہوں‘ میں نے تین مہینوں میں جو چیزیں نوٹ کیں میں وہ آپ کو بتانا چاہتا ہوں‘‘۔

اس نے لمبا سانس لیا اور بولا ’’پاکستان کی عالمی مارکیٹ میں شہرت اچھی نہیں ‘ یہ سرحدوں سے باہر دہشت گردی‘ لاقانونیت‘ فراڈ اور بھیک کا سمبل ہے‘ دنیا اسے اچھی نظروں سے نہیں دیکھتی‘ میری یہاں پوسٹنگ ہوئی تو میری گورنمنٹ اور میرے سابق سفیرکے تمام نوٹس منفی تھے۔

مجھے سختی سے کہا گیا تھا تم نے کسی کو ویزہ نہیں دینا‘ شام کے بعد گھر سے نہیں نکلنا اور کسی لوکل پر اعتبار نہیں کرنا وغیرہ وغیرہ‘ میں بھی شروع میں گھبرایا ہوا تھا مگر پھر میں نے اسلام آباد میں گھومنا شروع کیا تو یہ شہر اور یہ ملک مجھے مختلف لگا‘ اسلام آباد حقیقتاً ایک خوب صورت اور قابل رہائش شہر ہے‘ لوگ بھی بہت مہمان نواز اور ہیلپ فل ہیں مگر اس کے باوجود اس کا عالمی تاثر منفی کیوں ہے؟

میں نہیں جانتا‘ آپ کے پاس 65 فیصد نوجوان ہیں‘ یہ بہت اچھی انگریزی جانتے ہیں‘ ٹیکنالوجی میں بھی ہم سے آگے ہیں لیکن ملک اس کے باوجود غریب کیوں ہے؟ میں حیران ہوں‘‘ وہ خاموش ہو گیا‘ میں نے اس سے پوچھا ’’آپ کی نظر میں اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟‘‘ اس کا جواب بہت سادہ اور جامع تھا‘ اس کا کہنا تھا ’’آپ لوگ ابھی تک سسٹم نہیں بنا پائے‘ آپ نے یہ فیصلہ بھی نہیں کیا آپ نے کرنا کیا ہے؟ مثلاً میں جب یہاں آیا تو میں 100یورو تبدیل کرانے کے لیے منی چینجر کے پاس گیا‘ اس نے ویزہ دکھانے کا کہا‘ میں نے جواب دیا‘ میں ڈپلومیٹ ہوں۔

مجھے ویزے کی ضرورت نہیں ‘ اس کا جواب تھا‘ میں ویزے کے بغیر آپ کی کرنسی تبدیل نہیں کر سکتا‘ میں بہت حیران ہوا‘ میں اس کے بعد تین منی چینجر کے پاس گیا مگر کسی نے پیسے تبدیل نہیں کیے‘ میں نے ان سے کہا‘ بھائی میںآپ کو یوروز دے رہا ہوں‘ لے نہیں رہا اور میں آپ کے ملک میں رقم خرچ کرنا چاہتا ہوں اور اس کے راستے میں بھی اتنی رکاوٹیں ہیں بہرحال قصہ مختصر میرے ڈرائیور نے مجھ سے یوروز لیے‘ وہ گیا اور چند سیکنڈز میں روپے لے آیا۔

یہ چھوٹی سی مثال ہے لیکن یہ ثابت کرتی ہے آپ کے ملک میں بیسک اسٹرکچر بھی نہیں بنا ہوا‘ دوسرا ملک میں پچھلے دو سال سے عملاً کوئی حکومت نہیں ‘ میرے ملک کی کمپنیاں یہاں کام کرنا چاہتی ہیں لیکن وہ کس کے ساتھ بات کریں؟ ملک میں عملاً کوئی اتھارٹی موجود نہیں‘ بیوروکریٹس عارضی ملازم ہوتے ہیں‘ ان کے ساتھ کون ڈیل کرے گا‘ نگران حکومت صرف نگرانی کر سکتی ہے۔

فیصلہ نہیں لہٰذا یہاں اتھارٹی کا کنفیوژن ہے اور اس کنفیوژن میں آپ لوگوں کا بہت وقت ضایع ہو رہا ہے‘ آپ جیسے تیسے اوپر نیچے کر کے یہ کنفیوژن ختم کریں تاکہ ملک چل سکے‘ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک بھی ڈیل سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں سے ملاقات کرتا ہے اور آخر میں فائل سائیڈ پر رکھ دیتا ہے اور یہ رویہ آپ کے لیے خطرناک ہے‘‘ اس کا کہنا تھا ’’میں نے چند دن قبل ایک سفارت کار سے پوچھا ‘پاکستان میں الیکشن کب ہوں گے؟ اس کا جواب تھا 8فروری کو ہوں گے لیکن کس سن میں ہوں گے یہ میں نہیں جانتا اور یہ دنیا کی آپ کے الیکشن کے بارے میں رائے ہے‘ ہم سب یہاں سفارت کاری اور بزنس کے لیے ہیں۔

ہماری موجودگی کا اگر ہمارے اور آپ کے ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا تو پھر یہ وقت کا زیاں ہے‘ اب سوال یہ ہے اگر ہمارے لوگ یہاں نہیں آئیں گے اور آپ کے لوگ ہمارے ملک میں نہیں جائیں گے تو پھر سفارت کاری اور بزنس کیسے ہو گا؟ ہمارے لوگ دہشت گردی‘ طویل بیوروکریٹک سسٹم اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے یہاں نہیں آتے جب کہ آپ کے لوگوں کو ویزے نہیں ملتے اور یوں دو قوموں کے درمیان انٹرایکشن نہیں ہوتا اور اس کے نتیجے میں بزنس اور سفارت کاری دونوں مار کھا رہی ہیں۔

آپ ملک میں استحکام لے کر آئیں‘ وقت پر الیکشن ہوں‘ حکومت کو بھی پتہ ہو وہ کتنے عرصے کے لیے ہے اور دنیا بھی اس کی مدت سے واقف ہو‘ سسٹم کو بھی آسان اور سادہ کریں اور اپنی آبادی کو بھی کام پر لگائیں تاکہ ملک چل سکے‘ آپ دائرے میں کیوں گھوم رہے ہیں‘‘۔

سفیر کی باتوں میں دم تھا‘ ہم نے واقعی اپنی مت مار لی ہے‘ میرے پاس چند دن قبل ایک نوجوان آیا‘ اسے اٹلی کی ایک یونیورسٹی نے مکمل وظیفہ دیا تھا‘ اس کی فیس‘ رہائش اور کھانا پینا تک فری تھا‘ کلاسز شروع ہو گئیں لیکن اس کے ویزے کی باری نہیںآئی‘ میں نے اس کے لیے اپنے فارن آفس سے رابطہ کیا‘ پتا چلا یہ اکیلا نہیں ہے‘ اٹلی کے سفارت خانے میں 1200 طالب علموں کی فائلیں اٹکی ہوئی ہیں۔

ان میں سے 400کو اٹلی کی سرکاری یونیورسٹیوں نے فل اسکالر شپ دے رکھا ہے‘ باقی نے فیسیں جمع کرا رکھی ہیں اور یہ رقم کئی ملین یوروز بنتی ہے‘ میں نے رابطہ افسر سے پوچھا‘ آپ ایمبیسی سے بات کیوں نہیں کرتے؟ اس کا جواب تھا ایمبیسی پر بہت ورک لوڈ ہے‘ عملہ کم اور درخواستیں زیادہ ہیں‘ دوسرا ہمارے طالب علموں نے جعلی کاغذات سے ایمبیسی کا اعتماد کھو دیا ہے۔

یہ یونیورسٹی کے آن لائین انٹرویوز میں کسی دوسرے کو بٹھا کر داخلہ لے لیتے ہیں اور جب سفارت خانے میں انٹرویو ہوتا ہے تو پتا چلتا ہے یہ جس شعبے میں تعلیم حاصل کرنے جا رہے ہیں یہ اس کی الف ب بھی نہیں جانتے اور اس ایک آدھ واقعے کی وجہ سے باقی طالب علموں کی فائلیں بھی رک جاتی ہیں‘ یہ مثال ثابت کرتی ہے ہم ابھی تک بیرون ملک تعلیم کے لیے بھی کوئی سسٹم نہیں بنا سکے۔

ہمیں چاہیے ہم ہائیر ایجوکیشن کمیشن میں ایک یونٹ بنائیں‘ اس میں اہل اور ایمان دار لوگ تعینات کریں اور پھر ایک ایسا سسٹم بنائیں جسے کوئی بریک نہ کر سکے‘ اس سے ملک کی کریڈیبلٹی میں بھی اضافہ ہو گا‘ طالب علموں کے سال اور سرمایہ بھی بچ جائے گا اور سفارت خانوں پر بھی غیر ضروری بوجھ نہیں پڑے گا‘ دوسرا ہم نے باہر سے پاکستان آنے والوں کے لیے بھی ویزہ بہت مشکل کر دیا ہے‘ مجھے کینیڈا سے ایک کینیڈین نے بتایا‘ وہ میاں بیوی پاکستان وزٹ کرنا چاہتے تھے۔

ہماری ایمبیسی نے ان سے نکاح نامہ مانگ لیا‘ وہ لیونگ ریلیشن شپ میں تھے‘ وہ سر ٹیفکیٹ کہاں سے لاتے لہٰذا یہ مسئلہ الجھا رہا‘ ہم ملک کو پوری دنیا کے لیے اوپن کیوں نہیں کر دیتے؟ آج اگر آپ کے پاس امریکا‘ برطانیہ یا یورپ کا ویزہ ہو تو آدھی دنیا آپ کو آن لائین یا آن ارائیول ویزہ دے دیتی ہے جب کہ یہاں یورپ‘ برطانیہ‘ امریکا‘ جاپان‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے شہری بھی نہیں آ سکتے‘ ہم نے ماضی میں آن لائین ویزے کی سروسز شروع کی تھیں مگر ہمارا سسٹم ہی ڈاؤن رہتا ہے اور دوسرا اگر وہ شخص بدقسمتی سے بھارت میں پیدا ہو گیا تو پھر وہ آن لائین ویزہ حاصل نہیں کر سکتا‘دنیا کو ہمارے آن ارائیول سسٹم پر بھی یقین نہیں ہے۔

یہ سمجھتے ہیں ہم اگر چلے گئے اور ہمیں ائیرپورٹ پر ویزہ نہ ملا تو ہم کہاں جائیں گے اور ان کا یہ خدشہ غلط نہیں‘ میں نے عمران خان کے دور میں تجویز دی تھی آپ دنیا بھر میں بکھرے ہوئے ہندوؤں‘ سکھوں اور بودھوں کے لیے ایک اسکیم لانچ کر دیں‘ یہ لوگ ویزے کے بغیر آئیں‘ ائیرپورٹ سے ہزار ڈالر تبدیل کرائیں اور آپ سلپ دیکھ کر انھیں ویزہ دے دیں‘ اس سے سیاحت میں بھی اضافہ ہوگا اور ہمارے فارن ریزروز بھی بڑھ جائیں گے‘ ہم اسی طرح افغانوں کے لیے بھی اسکیم لانچ کر سکتے ہیں۔

آپ ان سے دو لاکھ ڈالرز تک سرمایہ کاری کرائیں اور انھیں شہریت دے دیں‘ آخر اس میں کیا حرج ہے؟ اور آخری بات ہم الیکشن کا فیصلہ کیوں نہیں کرتے‘ ہم نے الیکشن کرانے ہیں تو کرائیں اور اگر نہیں کرانے تو ایک ہی بار اعلان کر دیں‘ ہم کنفیوژن میں کیوں زندگی گزارنا چاہتے ہیں؟یہ کنفیوژن ملک کو مزید نگل جائے گی۔

Source: Express News

Must Read Urdu column Confusion By Javed Chaudhry

Leave A Reply

Your email address will not be published.