دیکھو یہ مسلمان ہو کر بھی – جاوید چوہدری

Javed Chaudhry

مجھے چند دن قبل بھارت کی کسی ٹرین کا وڈیو کلپ دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ کلپ میں ایک باریش شخص اپنے ہاتھوں سے ٹوائلٹ کا واش بیسن دھو رہا تھا اور کوئی ہندو مسافر ساتھ کھڑے ہو کر وڈیو بنا رہا تھا‘ وہ مسافر ساتھ ساتھ کمنٹری بھی کر رہا تھا‘ اس کا کہنا تھاپوری ٹرین میں سیکڑوں مسافر ہیں‘ ہم سب نے ٹوائلٹ اور واش بیسن میں گند ڈالا لیکن یہ واحد شخص ہے جو ہم سب کی گندگی صاف کررہا ہے.

یہ شخص قابل تقلید ہے اور ہم سب کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے‘ میں نے کلپ میں دیکھا باریش شخص نے واش بیسن کی ٹونٹی کھول کر اپنے ہاتھ سے پورا بیسن صاف کیا‘ چمکایا اور چپ چاپ اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا‘ یہ کلپ بھارت میں بہت مشہور ہوا اور وزیراعظم نریندر مودی تک نے اسے بھارتی شہریوں کے ساتھ شیئر کیا‘کلپ دیکھ کر لوگوں کا تاثر تھا ’’کیا مسلمان بھی اتنے صفائی پسندہو سکتے ہیں؟‘‘ یہ تاثر پڑھ کر میری ہنسی نکل گئی۔

ہمارے بارے میں دنیا کا یہ تاثر غلط نہیں ہے‘اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس میں صفائی کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے‘ کیوں؟ آپ نے کبھی سوچا! کیوں کہ اﷲ تعالیٰ جانتا تھا ہم مسلمان بہت گندے ہوں گے چناں چہ اس نے صفائی کو آدھا ایمان ڈکلیئر کر دیا کہ شاید ہم یہ حکم سن کر ہی صفائی پسند ہو جائیں لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے ہم اس کے باوجود انسان نہیں بن سکے اور دنیا میں جتنے ہم مسلمان بالخصوص پاکستانی گندے ہیں دنیا کی شاید ہی کوئی دوسری قوم ہو گی۔

پاکستان میں صفائی کرنے والوں کو چوہڑا کہا اور سمجھا جاتا ہے اور لوگ ان کے ساتھ ہاتھ ملانا‘ کھانا کھانا اور چائے پینا تک پسند نہیں کرتے لیکن اگر دیکھا جائے تو اصل چوہڑے گند ڈالنے والے لوگ ہیں‘ وہ لوگ ہیں جو کموڈ کا کور اٹھائے بغیر کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہیں اور کموڈ اور فرش پر اپنی گل کاری کے آثار چھوڑ جاتے ہیں اور جو واش بیسن کو غلاظت کا تحفہ دے دیتے ہیں‘ آپ ملک کے کسی بھی حصے کے پبلک ٹوائلٹس میں جا کر دیکھ لیں آپ کو ابکائی آ جائے گی۔

فائیو اسٹار ہوٹلز کے واش رومز میں بھی مہربان مہربانی فرما جاتے ہیں‘ یہ ٹوائلٹ پیپرز تک فرش اور کموڈ میں پھینک جاتے ہیں اور ہاتھ اور منہ دھوتے وقت پانی کے چھینٹوں سے آئینہ‘ وینٹی اور فرش گیلا کرجاتے ہیں‘ آپ کسی دن پوش علاقوں کی گلیاں‘ بازار اور فٹ پاتھ دیکھ لیں‘ آپ کو وہاں بھی غلاظت کے انبار ملیں گے‘ پارکوں میں چلے جائیں‘ ریستورانوں‘ کافی شاپس اور چائے خانوں میں جھانک لیں یا پھر اسپتال‘ اسکول‘ کالج اور یونیورسٹیوں میں چلے جائیں‘ آپ کو ہر جگہ گندگی اور غلاظت دکھائی دے گی۔

ہماری ہر گلی کا اختتام اور آغاز کچرے کے ڈھیر سے ہوتا ہے‘ بسوں‘ وینوں‘ ٹرینوں اور میٹروز کا کوئی حصہ بھی صاف نہیں ملتا اور یہ گند کون ڈال رہا ہے‘ یہ ہم سب کا کمال ہے‘ ہم میں سے ہر شخص دن رات گند پروڈیوس کرتا ہے اور اسے گلی‘ محلے اور سڑک پر پھینک کر اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے اور ہم ایسا کیوں کرتے ہیں؟پہلی وجہ ہم سمجھتے ہیں صفائی کسی دوسرے شخص کا کام ہے‘ ہمارا گند چوہڑے اٹھا ئیں گے یا پھر حکومت اور دوسری وجہ ہمیں من حیث القوم صرف گند پیدا کرنے اور پھیلانے کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔

ہمیں کسی نے آج تک گند صاف کرنے کا سبق نہیں دیا لہٰذا پورا ملک کچرا کنڈی بن کر رہ گیا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں آپ کو سارے کافر صاف ستھرے ملیں گے اور ان کے شہر اور ملک بھی‘ ہم ہمیشہ یہ سوچتے ہیں یورپ میں بلدیاتی سسٹم بہت تگڑا ہے‘ حکومت صفائی کا خصوصی بندوبست کرتی ہے‘ یہ بات درست نہیں‘ صفائی کا نوے فیصد بوجھ لوگ خود اٹھاتے ہیں‘ یہ گند نہیں پھیلاتے چناں چہ یورپ صاف ستھرا ہے جب کہ ہم لوگ اپنی جنت کو بھی کچرا کنڈی بنا دیتے ہیں۔

میں نے صفائی کا پہلا سبق یورپ کے ایک ائیرپورٹ پرایک کافر گورے سے سیکھا تھا‘ وہ آیا‘ اس نے واش روم کھولا‘ واش روم گندا تھا‘ اس نے الماری سے فرش کی صفائی کا سامان نکالا‘ واش روم کا فرش صاف کیا‘ سامان دوبارہ الماری میں رکھا‘ واش روم استعمال کیا‘ واش بیسن پر ہاتھ دھوئے‘ ٹشو پیپر سے اپنے گیلے ہاتھ صاف کیے اور وہ ٹشو پیپر ڈسٹ بین میں پھینکنے کے بجائے اُس استعمال شدہ پیپر سے بیسن صاف کیا اور پھر اسے ڈسٹ بین میں پھینک کر چلا گیا اور میں حیرت سے یہ ساری کارروائی دیکھتا رہا۔

اس شخص نے نہ صرف اپناگند صاف کیا تھا بلکہ میرا بھی صاف کیا تھا کیوں کہ وہ واش روم اس سے پہلے میں نے استعمال کیا تھا‘ میرا سر شرم سے جھک گیا اور میں آج بھی اسے یاد کر کے شرمندہ ہو جاتا ہوں‘ میں نے یہ سبق پلے باندھ لیا اور پچھلے 22 برس سے نہ صرف اپنا واش روم خود صاف کرتا ہوں بلکہ دوسروں کا گند بھی صاف کر دیتا ہوں‘ میں نے اپنے باتھ روم میں چھوٹے چھوٹے تولیے رکھے ہوئے ہیں‘میں بیسن استعمال کرنے کے بعد تولیے سے اسے خشک کر دیتا ہوں‘ کموڈ کو بھی صاف کر کے باہر نکلتا ہوں اور ائیرفریشنر بھی کرتا ہوں اور اس ساری کارروائی میں صرف ڈیڑھ منٹ لگتا ہے۔

مجھے اپنے گھر کی کچرے کی ٹوکریاں اٹھانے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں ہوتا‘ میرے ذاتی دفتر میں لوگ شام کو چلے جاتے ہیں تو میں ان کے ٹوائلٹس اور بیسن بھی صاف کر دیتا ہوں‘ یہ خدمت بعض اوقات ان کی موجودگی میں بھی کر گزرتا ہوں لیکن لوگ کیوں کہ شرمندہ ہو جاتے ہیں چناں چہ میں ان کے رخصت ہونے کا انتظار کرتا ہوں‘ میں نے چند دن قبل اپنے پورے دفتر کو اکٹھا کر کے انھیں سوئچ آن اور آف کرنا‘ دروازہ کھولنا‘ بند کرنا‘ جوتے صاف کر کے اندر داخل ہونا اور دیواروں کو ہاتھ کے نشانوں سے بچانے کا طریقہ بتایا۔

ہم میں سے 99 فیصد لوگ پورے ہاتھ سے سوئچ آن کرتے ہیں جب کہ سوئچ ہمیشہ انگلی کی نوک سے آن کرنا چاہیے‘ اس سے سوئچ بھی گندے نہیں ہوتے اور ہم بھی جراثیم سے محفوظ رہتے ہیں‘ اسی طرح دروازے کو ہمیشہ ہینڈل سے کھولنا اور بند کرنا چاہیے‘ پورے دروازے کے ساتھ گلے ملنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا‘ ہم میں سے زیادہ تر لوگ سیڑھیاں اترتے وقت دیواروں پر ہاتھ رگڑتے جاتے ہیں‘ ہماری اس تخلیقی حرکت سے دیواریں بھی گندی ہو جاتی ہیں اور ہمارے ہاتھ بھی‘ ہم لوگ اسی طرح سالن سے لتھڑے‘ پسینے سے بھیگے اور پانی سے گیلے ہاتھ بھی دوسروں سے ملا لیتے ہیں۔

یہ انتہائی بدتہذیبی اور ناشائستگی ہوتی ہے‘ یورپ میں ہر نوجوان کے کیریئر کا آغاز واش رومز کی صفائی سے ہوتا ہے اور وہ نوجوان خواہ صدر یا وزیراعظم کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو یا وہ کمپنی کے سی ای او کی اولاد ہی کیوں نہ ہو جب کہ ہم لوگ اپنے بچوں کو اپنے واش رومز صاف کرنے کی ٹریننگ بھی نہیں دیتے چناں چہ آپ حالت دیکھ لیں پورا ملک کچرستان بنا ہوا ہے اور ہم صفائی کے لیے آسمان سے نصرت کے نزول کا انتظار کر رہے ہیں۔

میری آپ سب سے درخواست ہے آپ اپنے گھر اور محلے کی صفائی اپنے ہاتھوں سے کیا کریں اور اپنے بچوں کو اپنے واش رومز اور بیڈرومز صاف کرنے کی ٹریننگ بھی دیں‘ آپ گھر کے کچرے کو ٹھکانے لگانے کا کوئی سسٹم بھی بنا لیں‘ اپنے کوڑے کو جلا سکتے ہیں تو جلا دیا کریں‘ آپ کے قریب اگر کوئی ڈمپنگ سائیٹ ہے تو آپ روزانہ یا ہفتے میں ایک دن اپنا کوڑا وہاں ڈمپ کر آیا کریں اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو آپ دو چار گھر مل کر کچرا اٹھانے والوں کی خدمات حاصل کر لیں‘ اس سے بھی ماحولیاتی آلودگی کم ہو جائے گی اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو آپ کم از کم اپنا گند تو خود صاف کر لیا کریں۔

آپ یہ تحفہ دوسروں کے لیے کیوں چھوڑ جاتے ہیں؟ حکومت بھی مہربانی فرمائے اور یہ اسکولوں میں بچوں کو پہلے دو سال صفائی‘ ٹائم مینجمنٹ‘ ڈسپلن‘ دوسروں کی مدد‘ قطار بندی‘ گفتگو‘ پانی ‘ہوا اور درختوں جیسے قدرتی وسائل کی قدر اور ماحولیات کے بارے میں ٹریننگ دیں‘ ہمیں من حیث القوم تعلیم کے بجائے تربیت کی ضرورت ہے لہٰذا آپ مہربانی فرما کر تعلیم وتربیت کی ترتیب بدل کر اسے تربیت و تعلیم کر دیں‘ تربیت پہلے اور تعلیم بعد میں‘ ہمیں خوف ناک حد تک فنشنگ (Finishing) اسکولوں کی ضرورت ہے۔

یہ ایسے اسکول ہوں جو تعلیم مکمل کرنے والی خواتین اور مردوں کو سی وی بنانے‘ انٹرویوز دینے‘ ڈریسنگ سینس‘ کیمونی کیشن‘ ڈائیلاگ اور ماحول کی صفائی کی ٹریننگ دیں‘ نوجوانوں کو زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھائیں‘ ہم آج تک لوگوں کو کھانسنے‘ ناک صاف کرنے اور جمائی لینے کا طریقہ نہیں سکھا سکے‘ ہم چائے بھی لسی کی طرح پیتے ہیں چناں چہ پوری قوم کو ٹریننگ کی ضرورت ہے۔

آپ کسی دن اپنے آپ اور دائیں بائیں موجود لوگوں کو دیکھیں اور یہ سوال کریں کیا ہم لوگ کسی بھی طرح اس معیار پر پورے اترتے ہیں جس میں صفائی آدھا ایمان ہے اور کیا ہماری حالت یہ نہیں کہ اگر کوئی باریش مسلمان واش بیسن صاف کر رہا ہو تو وہ خبر بن جاتا ہے اور لوگ حیرت سے کہتے ہیں دیکھو یہ مسلمان ہو کر بھی صفائی کر رہا ہے‘ کیا یہ ہم مسلمانوں کے لیے ڈوب مرنے کا مقام نہیں؟

Source: Express News

Must Read Urdu column Dekho ye Musalman ho ker bhi By Javed Chaudhry

Leave A Reply

Your email address will not be published.