ڈاکٹر رضوان: قربان گاہ کی تازہ بھینٹ – اوریا مقبول جان

Orya Maqbool

آج سے ٹھیک پندرہ سال پہلے چودہ مئی 2007ء کو سول سروس کے ایک نوجوان کی اچانک موت نے مجھے چونکا دیا تھا۔ حماد رضا بلوچستان میں میرے ساتھ تھا، ایک جاذبِ نظر ، خوش گفتار اور محنتی آفیسر، جسے افتخار محمد چوہدری صاحب جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنے تو اپنے پاس لے گئے اور ایڈیشنل رجسٹرار لگا دیا۔ تھوڑے ہی عرصے بعد مشرف اور جسٹس افتخار محمد چوہدری کے درمیان کشمکش کا آغاز ہوا اور پورا ملک ایک الائو میں ڈھل گیا۔ وہ تو ایک فردِ واحد تھا جو کہ نہ سیاست دان تھا اور نہ ہی کوئی مذہبی رہنما، ایک تنخواہ دار ملازم، مگر اس کا خون اس کی بھینٹ چڑھ گیا۔ ملک میں ایک ایسی جذباتی فضا بن چکی تھی کہ کراچی شہر میں 12مئی کا وہ المناک سانحہ پیش آیا، جس میں نہتے عوام پر ریاست براہِ راست غنڈہ گردی پر اُتر آئی۔ ایک حکومتی گروہ ایم کیو ایم (لندن) نے براہِ راست اس خونی کھیل میں حکومت کا ساتھ دیا اور اس دن کے فسادات میں 48 لوگ جان سے گئے۔ رات ڈی چوک میں مشرف نے مُکے لہرا کر کہا، دیکھا ان لوگوں کی طاقت۔ مشرف انا کے گھوڑے پر سوار تھا اور اس انا کے پائوں تلے روندنے کے لئے انتہائی محفوظ اور سکیورٹی والے زون میں حماد رضا کے گھر ڈاکو داخل ہوئے اور بقول شبانہ بھابھی اسے تاک کر نشانہ بنایا اور چلے گئے۔

پندرہ سال ہو گئے، نہ ڈاکوئوں کا کچھ اَتا پتہ معلوم ہوا اور نہ ہی بعد میں آنے والے کسی شخص نے اس قتل کے محرکات جاننے کی کوشش کی۔ ایک سرکاری ملازم کو کون پوچھتا۔ کراچی میں مرنے والے اڑتالیس لوگوں کے قتل کا آج تک کسی نے حساب نہیں لیا۔ ان مقتولین میں تو ہر پارٹی کے لوگ شامل تھے۔ سب نے ان کی موت پر اپنی بدترین خاموشی کی قیمت ایم کیو ایم کی سیاسی وفاداری کی رشوت کی صورت وصول کی۔ حماد رضا جیسے سرکاری ملازمین کے خون کے بدلے تو سیاسی رشوت بھی نہیں ملتی تھی۔ ایسے بے نام و نشان لوگوں کو دوسروں کو خوف دلانے کے لئے تختۂ مشق کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ تحریکِ ختمِ نبوت 1974ء اور تحریکِ نظامِ مصطفی 1977ء میں جیل میں عام سیاسی کارکنوں کو بہت بڑی تعداد میں پکڑ کر لایا گیا تھا۔ جب کوئی بڑا لیڈر جیل میں لایا جاتا تو اس کے سامنے ایک عام سے کارکن پر بُری طرح تشدد کیا جاتا تاکہ اس کی چیخوں سے بڑے لیڈر کے دل میں خوف پیدا ہو۔ حماد رضا کی موت بھی ایسی ہی تھی۔ ایسے لوگوں کی موت پر نہ ہنگامے ہوتے ہیں اور نہ ہی خون بہا مانگنے والے عدالتوں میں کھڑے ہوتے ہیں۔ چُپ چاپ مٹی کے سپرد کر دیئے جاتے ہیں۔

’’کہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا‘‘۔ لیکن ان کی موت بڑے لوگوں کے لئے خوف کا سامان بن جاتی ہے۔ اس کے بعد جولائی 2007ء میں ایک اور واقعہ ہوا… لال مسجد اور جامعہ حفصہ آپریشن۔ یہ بھی پورے ملک میں مخالفین پر دہشت اور خوف مسلّط کرنے کے لئے کیا گیا تھا۔ بے قصور بچے جان سے گئے لیکن کوئی آج تک صحیح تعداد بھی نہیں بتا پاتا۔ ٹھیک سات سال بعد 17 جون 2014ء کو ماڈل ٹائون میں علامہ طاہرالقادری صاحب کے منہاج القرآن میں نہتے لوگوں کو خون میں نہلایا گیا۔ چودہ لوگ جاں بحق ہوئے اور سو سے زیادہ زخمی۔ لیکن اس کے بعد برسراقتدار آنے والے مجرموں کا نام تو لیتے رہے، ان پر تقریروں میں آوازے بھی کستے رہے لیکن کوئی ان کو کٹہرے میں نہ لایا۔ میں نے بار بار یہ کہا ہے کہ میرا انتظامی تجربہ یہ کہتا ہے کہ جامعہ حفصہ، بارہ مئی اور ماڈل ٹائون کے مجرم کبھی بھی کٹہرے میں نہیں لائے جائیں گے۔ اس لئے کہ جن قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے یہ قتل کئے ہیں، وہ مقدمے کے دوران اصل راز بھی اُگل سکتے ہیں اور دوسرا اہم نکتہ یہ کہ ریاست نے ان جیسے اہلکاروں سے مزید دہشت اور بربریت کے کام لینا ہوتے ہیں۔ اگر یہ انجام کو پہنچ گئے تو آئندہ حکومتوں کے کہنے پر معصوم لوگوں پر کوئی بندوق نہیں اُٹھائے گا۔

حماد رضا ایک ایسی دہشت کا شکار ہوا تھا جس کا مقصد باقیوں کو ڈرانا تھا۔ لیکن آج پندرہ سال بعد میں جس شخص ڈاکٹر رضوان کا نوحہ لکھ رہا ہوں وہ اس خوف کی وجہ سے اس دُنیا سے چلا گیا، جو گذشتہ تیس سالوں سے پاکستان میں کام کرنے والے ہر ایماندار اور فرض شناس آفیسر کے سروں پر مسلسل طاری ہے۔ اس خوف کو ایجاد کرنے کا سہرا نواز شریف کے سر جاتا ہے جس نے سب سے پہلے سیف الرحمان کے تحت احتساب بیورو بنایا اور آصف زرداری اور بے نظیر کے خلاف تفتیش کا آغاز کیا۔ اس تفتیش کا ایک کردار سول سروس کا اہم آفیسر مرحوم حسن وسیم افضل تھا، جس نے سوئٹزر لینڈ جا کر تمام حقائق اکٹھے کئے۔ زرداری حکومت نے اسے جس طرح نشانِ عبرت بنایا وہ ایک تاریخ ہے۔ حسن ایک مضبوط اعصاب کا آدمی تھا، سب کچھ سہہ گیا۔ لیکن نواز شریف نے اس شخص کی ساری محنت کو مفادات کی میز پر قربان کرتے ہوئے ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ پر دستخط کرتے ہوئے بیچ دیا۔ بے شمار ایسے افسران تھے جو ’’ایماندارانہ احتساب‘‘ کے چکر میں مشرف دَور میں رُسوائی کی علامت بنائے گئے، پوسٹنگ اور پرموشن سے محروم کئے گئے۔ کئی ایسے تھے جو دلبرداشتہ ہو کر پہلے نوکری اور پھر ملک ہی چھوڑ کر بھاگ گئے۔ ڈاکٹر رضوان کی موت بھی ایک ایسے مسلسل خوف کے عالم کی موت ہے۔ ایک ایماندار آفیسر کے دل میں بہت سے خوف ہوتے ہیں۔ اسے اگر کسی جھوٹے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا، عدالتوں میں گھسیٹا گیا تو کون یقین کرے گا کہ وہ بے گناہ ہے۔ اگر وہ باعزت بری بھی ہو گیا تو اس کے چہرے پر ملی ہوئی کالک کون دھوئے گا۔ وہ اپنی اولاد کا سامنا کیسے کرے گا، جسے وہ رزق ِ حلال کی صعوبتوں میں پالتا رہا ہے۔

میری آنکھوں کے سامنے آج بھی بریگیڈیئر اسد منیر کا معصوم چہرہ گھومتا ہے جس کے خلاف نیب نے تحقیقات کا آغاز کیا تو اس نے چودہ مارچ 2019ء کو چیف جسٹس سپریم کورٹ کے نام ایک خط تحریر کیا کہ وہ بے قصور ہے، لیکن ایسی بدنامی برداشت نہیں کر سکتا اور پھر اس نے خودکشی کر لی۔ اپنی موت کے دو سال بعد مارچ 2022ء میں اسے باعزت طور پر بری کرتے ہوئے تمام الزامات کو جھوٹ قرار دے دیا۔ لیکن اس شخص کی قبر ہمارے بدترین نظامِ حکومت اور مفلوج نظامِ عدل کا منہ چڑا رہی ہے۔ ڈاکٹر رضوان نے جن دو باپ بیٹوں کے بارے میں منی لانڈرنگ کی تفتیش مکمل کی ہے، ان میں سے باپ کی وزارتِ اعلیٰ کے دوران مَیں نے بحیثیت ِصوبائی سیکرٹری سات سال کام کیا ہے۔ ڈاکٹر رضوان بھی ان دنوں کا ہمارا ساتھی تھا۔ ایک مرنجاں مرنج، ایماندار، محنتی اور فرض شناس آفیسر۔ ہمیں معلوم تھا کہ کیسے وزیر اعلیٰ ہائوس سے آفیسران کو علیحدہ علیحدہ بلا کر کبھی خوفزدہ کیا جاتا تھا اور میٹنگوں میں بھی سب کے سامنے ذلیل و رُسوا کیا جاتا تھا۔

ڈاکٹر رضوان کی شو مئی قسمت کہ اسے انہی باپ بیٹوں کی منی لانڈرنگ کا کیس تفتیش کیلئے ملا۔ اسے عدالت میں بیٹے نے دھمکی دی، پارٹی کے دو وکیل رہنمائوں نے پریس کانفرنس کر کے کہا کہ ہم تمہیں عبرت کا نشان بنا دیں گے۔ وہ حکومت کے آتے ہی طویل رُخصت پر چلا گیا کہ بوجھ کم ہو۔ لیکن ایسے شریف النفس اور ایماندار آدمی کے دل کا خوف کبھی نہیں جاتا۔ وہ معمولی سی بدنامی کو بھی اپنے لئے ہتک سمجھتا ہے۔ موت سے دو دن پہلے بات ہوئی، سخت پریشان تھا۔ کہنے لگا مقدمے کا چالان میں نے بنایا تھا۔ میری گواہی بہت اہم ہے۔ لیکن مجھے کون گواہی دینے کے قابل چھوڑے گا۔ وہ اس دُنیا سے چلا گیا۔ اس دن کی گواہی کے لئے کہ جس دن کے بارے میں اللہ فرماتا ہے۔ ’’ہم آج کے دن ان کے منہ پر مہریں لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور ان کے پائوں گواہیاں دیں گے‘‘۔ (یٰسین: 65) اگر اس دُنیا میں مکمل انصاف ہونا ہوتا، تو اللہ کبھی روزِ جزا نہ رکھتا۔

Source: 92 news
Must Read Urdu column Doctor Rizwan Qurban Gah ki Taaza Bheant By Orya Maqbool jan

Leave A Reply

Your email address will not be published.