دنیا ہم سے خوفزدہ ہے – جاوید چوہدری

Javed Chaudhry

سندر پچائی گوگل کے ’’سی ای او‘‘ ہیں‘ یہ 1972 میں تامل ناڈو میں پیدا ہوئے اور43سال کی عمر میں دنیا کی امیر اور بااثر ترین کمپنی کے سربراہ بن گئے‘ یہ دنیا میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے ’’سی ای اوز‘‘ میں بھی شامل ہیں‘ گوگل انھیں ساڑھے تین کروڑ روپے روزانہ (تنخواہ‘ مراعات اور اسٹاک) ادا کرتا ہے‘ دنیا میں اس وقت اس انکم بریکٹ میں صرف پندرہ لوگ آتے ہیں۔

گوگل نے اگست 2015میں سندر پچائی کو سی ای او بنانے کا فیصلہ کیا‘ بورڈ نے انھیں انٹرویو کے لیے بلایا‘ یہ پیش ہوئے تو ان سے صرف ایک سوال کیا گیا ’’آپ کی زندگی کی سب سے بڑی ناکامی کیا تھی اور آپ نے اس ناکامی کو کس طرح ہینڈل کیا‘‘ سندر پچائی کو جواب کے لیے 35 منٹ دیے گئے تھے‘ سندر 35 منٹ بولتا رہا اور بورڈ سنتا رہا اور گوگل نے ان 35 منٹوں میں سندر پچائی کو دنیا کے سب سے بڑے برانڈ کا سی ای او بنانے کا فیصلہ کر لیا‘یہ دنیا میں کوئی انوکھا واقعہ نہیں تھا‘کرہ ارض کے زیادہ تر بڑے ’’سی ای اوز‘‘ کا تقرر اسی سوال کی بنیاد پر ‘ اسی طریقے سے کیا جاتا ہے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ معروف لوگ ہوتے ہیں۔

پوری دنیا ان کے تعلیمی کیریئر‘ بیک گراؤنڈ اور ان کی اچیومنٹس سے واقف ہوتی ہے‘ کمپنیوں کے بورڈز اگر نہیں جانتے تو یہ ان کے فیلیئر‘ ان کی ناکامیوں سے آگاہ نہیں ہوتے چنانچہ یہ وہ راز جاننا چاہتے ہیں جس سے نکل کر یہ لوگ سندر پچائی بنتے ہیں‘ سندر پچائی نے بھی جب اپنی ٹیم ہائر کی تو اس نے بھی اپنے ہر ممبر سے یہی سوال کیا تھا اور ممبر کے جواب نے اس کے مقدر کا فیصلہ کیا تھا‘یہ حقیقت ہے ہماری کامیابی اور استطاعت کا فیصلہ ہماری کامیابیاں نہیں کرتیں ہماری ناکامیاں‘ ہمارے فیلیئرز کرتے ہیں‘ لوگ نارمل حالات میں صادق بھی ہوتے ہیں اور امین بھی لیکن کیا یہ لوگ یتیمی‘ مسافرت‘ بے بسی اور غربت میں بھی امانت اور صداقت پر قائم رہتے ہیں‘ یہ سوال ہمارے کردار کا فیصلہ کرتا ہے۔

دنیا میں یہ چلن عام ہے لوگ مشکل حالات میں حرام کو بھی حلال سمجھ لیتے ہیں‘ یہ مسائل کی چکی میں پہنچ کر اپنے اصول قربان کر دیتے ہیں لیکن جو شخص زندگی کا دھاگہ قائم رکھنے کے لیے چمڑا ابال کر کھا لیتا ہے لیکن اپنی صداقت اور اپنی امانت قربان نہیں کرتا‘ جو جلاوطن ہو کر بھی اپنے اصولوں پر قائم رہتا ہے‘ وہ عظیم ثابت ہوتا ہے‘ وہ انسانیت کے لیے مشعل راہ بنتا ہے‘ ہم مشکل ترین حالات میں کتنے پر امید رہتے ہیں‘ ہم مصائب کی آندھیوں میں اپنے اصولوں کی گانٹھ کو کتنی دیر تک سنبھال سکتے ہیں‘ ہم اپنی ناکامیوں کو کسی طرح ہینڈل کرتے ہیںاور ہم مار کھا کھا کر بھی کتنی دیر اپنے پاؤں پر کھڑے رہتے ہیں؟ یہ استقامت ہمارے مقدر‘ ہمارے مستقبل کا فیصلہ کرتی ہے‘ یہ ہمیں عام آدمی سے خاص آدمی بناتی ہے‘میں دل سے سمجھتا ہوں دنیا میں جس شخص نے ناکامی کا ذائقہ نہیں چکھا وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا‘ وہ کبھی بڑا آدمی ثابت نہیں ہو سکتا۔

ہم اگر وزیراعظم عمران خان کو سمجھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ان کے پس منظر میں جھانکنا ہوگا‘ ہمیں ان کی کامیابیاں اور ناکامیاں دیکھنا ہوں گی‘ کرکٹ فٹ بال کے بعد دنیا کا مہنگا ترین کھیل ہے‘ یہ کھیل صرف کھیل نہیں یہ 100 بلین ڈالر کی مارکیٹ بھی ہے اور اسٹارز اس مارکیٹ کی فیکٹریاں‘ اس مارکیٹ کے برانڈز ہوتے ہیں چنانچہ کرکٹ کی مارکیٹ زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لیے ہر سال نئے اسٹارز پیدا کرتی ہے‘ ان میں سے زیادہ تر اسٹارز تھوڑی دیر چمک کر بجھ جاتے ہیں لیکن ان میں سے کچھ سپر اسٹارز بن جاتے ہیں‘ عمران خان سپر اسٹار تھے‘ یہ سترہ سال کی عمر میں سپر اسٹار بنے اور پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا‘ یہ 66 سال کی عمر تک لائم لائٹ میں رہے اور یہ اعزاز دنیا میں بہت کم کھلاڑیوں کو نصیب ہوا‘ یہ قدرت کا بہت بڑا کرم تھا لیکن اس کرم نے عمران خان میں دو عادتیں ڈویلپ کر دیں۔

یہ انا پرست ہو گئے اور یہ بجٹ بنانے کی صلاحیت سے محروم رہ گئے‘ میں اور آپ بھی اگر ان کی جگہ ہوتے اور ہم نے بھی اگر 20 سال کی عمر کے بعد 46 سال تک کوئی خریداری نہ کی ہوتی‘ ہمیں بھی ہمارے فینز کپڑے‘ جوتے‘ گاڑیاں‘ فلیٹس‘ جہاز اور کریڈٹ کارڈز دے رہے ہوتے‘ ہمارے بھی اگر کھانے اسپانسر ہوتے‘ ہم بھی اگر کمنٹری کرتے‘ ہم بھی اگر کسی ملک کی کرکٹ ٹیم کو چند ٹپس دیتے اور وہ ملک ہماری سال بھر کی ذمے داری اٹھا لیتا‘ ہمیں بھی اگر لوگ زمین گفٹ کر دیتے اور لوگ ہی اس پر گھر بنا دیتے‘ ہمارے ساتھ بھی لوگ اگر ڈنر کے لیے دس دس ہزار ڈالر کے ٹکٹ خریدتے‘ ہم بھی اگر کینسر اسپتال بنانے کا اعلان کرتے اور لوگ ہمیں بھی اگر اربوں روپے دے دیتے‘ ہم بھی اگر سیاسی جماعت بناتے اور ہمیں بھی اگر اربوں روپے ڈونیشن مل جاتے اور لوگ اگر ہمارا بھی بیٹ‘ پیڈ‘ ہیلمٹ اور گیندلاکھوں روپے میں خریدتے تو ہمارا مزاج بھی آسمان تک پہنچ جاتا‘ ہم بھی یقینا خود کو سپر مین‘ سپر ہیومین بیئنگ اور دیوتا سمجھتے‘ عمران خان پچھلے 46 برسوں سے اس عمل سے گزر رہے ہیں‘ ان کی جیب میں 46 برس سے بٹوہ نہیں ہے۔

دنیا میں آج تک کسی شخص نے انھیں کسی کیش کاؤنٹر پر ’’پے منٹ‘‘ کرتے نہیں دیکھا‘ یہ ہنی مون پر بھی جاتے تھے تو لوگ ان کے میزبان ہوتے تھے‘ لوگ ان کی پے منٹ کرتے تھے چنانچہ جس شخص نے 46 برس سے کوئی شرٹ‘ کوئی جوتا‘ دودھ کا کوئی ڈبہ اور کوئی سبزی نہ خریدی ہو‘ جس کے بجلی اور گیس کے بل بھی دوسرے لوگ ادا کرتے ہوں اور گاڑیوں میں پٹرول بھی اجنبی ڈلواتے ہوںآپ خود فیصلہ کر لیجیے وہ شخص مہنگائی‘ بے روزگاری‘ غربت اور عوامی مسائل کا ادراک کیسے کرے گا‘ وہ لوگوں کے مسائل کیسے سمجھ سکتا ہے؟ عمران خان غربت اور مہنگائی دونوں سے بالاتر ہیں‘ یہ ان کو انڈر اسٹینڈ ہی نہیں کر سکتے! میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو بھی اس علت کا شکار تھے لیکن عمران خان اس معاملے میں ان دونوں سے بہت آگے ہیں چنانچہ حکومت نے 9 ماہ میں ملکی معیشت کا کباڑہ کر دیا‘یہ معیشت کو انڈراسٹینڈ کر سکے اور نہ یہ کر سکیں گے۔

عمران خان کا دوسرا ایشو انا پرستی ہے‘ ان کی انا تکبر بلکہ غرور تک پہنچ چکی ہے‘ یہ صدرذی جن پنگ‘ شاہ سلمان اور آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لیگارڈکے ساتھ بھی آدھا ہاتھ ملاتے ہیں‘ آپ نے سوشل میڈیا پر شاہ سلمان کے ساتھ ان کی ملاقات کی فوٹیج دیکھی ہو گی‘ سعودی ترجمان ابھی ان کے خیالات کا ترجمہ ہی کر رہا تھا اور یہ شاہ سلمان کے ساتھ الوداعی ہاتھ ملائے بغیر دوسرے دروازے سے باہر نکل چکے تھے‘ کرسٹین لیگارڈ بیجنگ میں 26 اپریل کو ان کے سامنے کھڑی تھیں اور یہ آدھا ہاتھ ملا کر کرسی پر بیٹھ بھی چکے تھے‘ عمران خان نے چینی صدر کے ساتھ بھی آدھا ہاتھ ملایا تھا‘ یہ مسجد نبوی اور خانہ کعبہ میں بھی جس طرح سینہ پھلا کر چل رہے تھے یہ حرکتیں سپراسٹارز کو سوٹ کرتی ہیں۔

یہ سوشل میڈیا پر بھی اچھی لگتی ہیں‘ آپ ان سے اپنے لائیکس بڑھا لیتے ہیں لیکن یہ ملکوں کے سربراہوں کے لیے زہر قاتل ثابت ہوتی ہیں‘ یہ ملکوں کا امیج اور تعلقات دونوں کو تباہ کر دیتی ہیں‘ مصر کے موجودہ صدرجنرل السیسی صدر مورسی کی حکومت گرا کر اقتدار میں آئے‘ یہ امریکا عرب اسلامی کانفرنس میں شریک ہوئے‘یہ میاں نواز شریف کے ساتھ بیٹھے تھے‘ میاں صاحب صدر مورسی کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھتے تھے چنانچہ یہ جنرل السیسی کی طرف دیکھنے کی بجائے دوسری طرف دیکھتے رہے‘ یہ ایک حرکت مصر اور پاکستان کے تعلقات کو نگل گئی‘ یہ دونوں ملک آج تک قریب نہیں آ سکے۔

ملکوں کے تعلقات میں سربراہوں کا ’’ایٹی چیوڈ (Attitude) بہت اہم ہوتا ہے‘ سوویت یونین کے صدر خروشیف نے1960 میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ڈائس پر اپنا جوتا مارا تھا‘ دنیا نے آج تک روس کو معاف نہیں کیا‘ صدام حسین کے غرور نے عراق‘ کرنل قذافی کے تکبر نے لیبیا اور ہیوگو شاویز کی انا نے وینزویلا کو تباہ کر دیا‘ یہ تینوں ملک تیل کی وجہ سے دنیا کے امیر ترین ممالک تھے لیکن یہ اپنے حکمرانوں کے تکبر کی وجہ سے آج بھکاری اور قبرستان بن چکے ہیں‘ تاریخ گواہ ہے حکمرانوں کے تکبر کا بوجھ قوموں کو اٹھانا پڑتا ہے اور ہمیں اب اس بوجھ کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔

آپ کو یاد ہوگا عمران خان 18 ستمبر 2018کو عمرے کے لیے سعودی عرب گئے تھے‘ یہ مدینہ میں ننگے پاؤں اترے تھے اور یہ ننگے پاؤں وہاں پھرتے رہے لیکن آج ان نو ماہ میں کتنی تبدیلی آ چکی ہے‘ آپ ان کا 30مئی کا دورہ دیکھ لیجیے‘ یہ اب اسی مدینہ میں جوتے پہن کر پھر رہے تھے‘ کیا ان 9 ماہ میں (نعوذ باللہ) مدینہ منورہ بدل گیا یا پھر عمران خان تبدیل ہو گئے؟ آپ اگر غور کریں تو آپ کو اس سوال میں ملک کا مقدر نظر آ جائے گا اورآخری بات دنیا میں ہر وہ کاروبار‘ ہروہ فیکٹری بند ہو جاتی ہے جس کے مالکان لوگوں کو بتاتے پھرتے ہیں ہماری مل‘ہماری دکان میں روزانہ چوری ہوتی ہے یا ہمارے پاس ادائیگیوں کے لیے رقم نہیں اور ہماری حکومت 9 ماہ سے دنیا کو یہ بتاتی پھر رہی ہے ہمارا ملک کرپشن کی وجہ سے تباہ ہو چکا ہے اور ہم دیوالیہ پن کے قریب ہیں۔

لوگ ایسے لوگوں کو سائیکل ادھار نہیں دیتے لیکن ہم اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھا کر ملکوں سے اربوں ڈالر مانگ رہے ہیں‘ ہم پوری دنیا کے سرمایہ کاروں کو دعوت دے رہے ہیں‘آپ خود بتائیے ہماری بات پر کون اعتبار کرے گا چنانچہ ہماری حکومت‘ ہمارے وزیراعظم کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے یہ پوری زندگی سپراسٹار رہے ہیں اور تاریخ یہ بتاتی ہے کشتی ہو‘ کمپنی ہو یا پھر ملک ہوں سپر اسٹارز ان کے بحرانوں میں اضافہ تو کر سکتے ہیں یہ انھیں بحرانوں سے نکال نہیں سکتے چنانچہ عمران خان ملک کو وہاں لے آئے ہیں جہاں سے پوری دنیا ہمیں وحشت بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے‘ یہ ہم سے خوف زدہ ہوتی چلی جا رہی ہے‘ہمارے پاس اب صرف ایک آپشن بچا ہے عمران خان یا پھر ملک۔

Source

Must Read urdu column Dunya Hum se Khofzada hai By Javed Chaudhry

Leave A Reply

Your email address will not be published.