اہل ایمان کا خیمہ – اوریا مقبول جان

9759137

سب کچھ تیزی سے ہو رہا ہے اور اس میں مزید تیزی آ جائے گی اور اب کھل کر سامنے آنا پڑے گا۔ چمگادڑ کی طرح دونوں جانب کھیلنے کے دن ختم ہو جائیں گے۔ یہ زمانہ اب بہت جلد گزر جائے گا، جس میں ہیوسٹن کے بڑے ہال میں ڈونلڈ ٹرمپ ہندوستان نہیں بلکہ ہندوؤں کو اپنا محبوب قرار دے رہا ہو اور ان کے ساتھ مل کر شدت پسند اسلام کے خلاف جنگ کا اعلان کر رہا ہو۔ اسی دوران روس کے شہر ”اورن برگ” (Orenburg) میں شنگھائی کارپوریشن آرگنائزیشن کے جھنڈے تلے بھارت اور پاکستان کی افواج عالمی دہشت گردی اور خطے کی سلامتی کے لیے مشترکہ جنگی مشقوں میں شریک ہوں۔ یہ عیاشی اب زیادہ دن نہیں چلے گی۔ آپ کو مکھن میں بال کی طرح نکال کر پھینک دیا جائے گا۔ میرے آقا مخبر صادق سید الانبیاء ﷺ نے فرمایا ” عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ آپ نے فتنوں کے تذکرہ میں بہت سے فتنوں کا تذکرہ کیا، یہاں تک کہ فتنہ ”احلاس” کا ذکر بھی فرمایا تو ایک شخص نے عرض کیا اللہ کے رسول فتنہ احلاس کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا وہ ایسی نفرت و عداوت اور قتل و غارت گری ہے کہ انسان ایک دوسرے سے بھاگے گا، اور باہم برسرپیکار رہے گا، پھر اس کے بعد خوشحالی کا فتنہ ہے جس کا فساد میرے اہلبیت کے ایک شخص کے پیروں کے نیچے سے رونما ہوگا، وہ گمان کرے گا کہ وہ مجھ سے ہے حالانکہ وہ مجھ سے نہ ہوگا، میرے دوست تو وہی ہیں جو متقی ہوں، پھر لوگ ایک شخص کی بیعت پر اتفاق کرلیں گے جو کم علم، کم عقل اور کم ہمت ہوگا، اس کے بعد ایک سیاہ تاریک فتنے اور اندھی مصیبت کا آغاز ہوگا جو اس امت کے ہر فرد کو پہنچ کر رہے گا، جب کہا جائے گا کہ فتنہ ختم ہوگیا تو وہ اور بھڑک اٹھے گا، جس میں صبح کو آدمی مومن ہوگا اور شام کو کافر ہوجائے گا یہاں تک کہ لوگ خود خیموں میں بٹ جائیں گے، ایک خیمہ اہل ایمان کا ہوگا جس میں کوئی منافق نہ ہوگا اور ایک خیمہ اہل نفاق کا ہوگا جس میں کوئی ایماندار نہ ہو گا” (سنن ابو داؤد، الفتن حدیث 4242، سلسلہ الصحیحہ 972)۔ رسول اکرم ﷺنے اس دور فتن کو ”احلاس” سے تشبیہ دی ہے۔ حلس اس موٹے اور کالے کپڑے کو کہتے ہیں جو اونٹ کے کجاوے کے نیچے ڈالا جاتا ہے۔ یہ کپڑا ہمیشہ اونٹ کی کوہان اور پیٹ سے چمٹا رہتا ہے اور یہ عموماً سیاہ ہوتا ہے۔ گویا احلاس کے فتنے کا یہ دور ایسا ہوگا جس سے ہماری جان نہیں چھوٹے گی، بلکہ ہم ان تمام مراحل سے گزرتے ہوئے ایک ایسے مقام پر کھڑے ہوں گے کہ ہمارے پاس اورکوئی راستہ ہی باقی نہیں رہے گا کہ یا تو ہم علی اعلان حق کا ساتھ دینے والے خیمے میں آکرکھڑے ہو جائیں یا پھر حق کی مخالفت کرنے والے خیمے میں چلے جائیں اور مسلمانوں کے خلاف ان کفارکے شانہ بشانہ جنگ میں حصہ لیں۔ اس آخری معرکے میں منافقت نہیں چلے گی۔ منافقت کی کوئی چھتری، کوئی پناہ گاہ یا کوئی روپ اب پناہ نہیں دے سکے گا۔ دوغلے پن والی اقوام، گروہ اور افراد کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ہم کس جانب ہیں۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو آج فیصلہ کرلیں کہ وہ حق کے ساتھ ہیں ۔حزب اللہ یعنی اللہ کے گروہ کے ساتھ ہیں، ورنہ وہ دن دور نہیں جب جزب الشیاطین یعنی شیطانوں کے گروہ والے انہیں اپنے سے الگ کر دیں گے۔ کس قدر بے شرمی اور ڈھٹائی سے ڈونلڈ ٹرمپ نے ہیوسٹن میں بھارت کے ہندوؤں کو مخاطب کیا اور اس نے بالکل منافقت نہ کرتے ہوئے انھیں بھارتی انڈین نہیں کہا۔ اس سے زیادہ واضح تقسیم کیا ہو گی۔ اور پھر ایک مضحکہ خیز لفظ بولا ” ہمارے بہادر امریکی فوجی” (Our brave American Soldiers )۔آدمی میں حیا،شرم اور غیرت نہ ہو اور سامنے ہجوم میں ستر ہزار ہندو تالیاں بجانے کے لیے موجود ہوں، تو پھر آپ اس امریکی فوج کو بہادر کہہ سکتے ہیں جو ابھی ابھی اٹھارہ سالہ طویل جنگ میں طالبان کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کھا چکی ہے۔ جس کے افغانستان اور عراق سے واپس آنے والے فوجیوں میں سے بائیس روزانہ خودکشی کرتے ہیں، جس کے ساڑھے چار لاکھ کے قریب فوجی ان جنگوں کے بعد اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھیں اور امریکہ کو ان کے علاج پر ساٹھ ارب ڈالر سالانہ خرچ کرنے پڑ جائیں۔ یاد رکھو تاریخ کا سبق یہ ہے کہ امریکہ کے 1872، برطانیہ کے 444، بھارت کے 293 اور دیگر یورپی ممالک کے کئی ہزار تھنک ٹینک، سب ملکر ایک پیشگوئی کریں کہ افغانستان میں رکھا گیا عالمی قدم اب صرف فتح سے ہی ہمکنار ہوگا، اور پھر ایک دن ان تمام عقل و خرد کے پجاریوں کے تمام دعوے عالمی ٹیکنالوجی کے ساتھ زمین بوس ہوجائیں۔ کیا وجہ ہے، کبھی اس پر کسی نے غور کیا ہے۔ وجہ صرف اور صرف ایک ہے کہ آج کے اس دور فتن کے آغاز میں ہی جس قوم نے یہ واضح اعلان کر دیا تھا کہ ہم علی الاعلان حق کے خیمے میں ہیں، ہم کسی دوسری طاقت کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی کسی دوسرے فورم کی اجارہ داری۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم اقوام متحدہ کی قراردادوں کا بھی احترام کریں اور اللہ کے بھروسے پر جنگ بھی لڑیں۔ ہمیں توکل کی مکمل تصویر بننا ہوگا ۔ورنہ اللہ ہماری نصرت کے لیے نہیں آئے گا۔ کمال کی بات یہ ہے کہ طالبان کے پاس اللہ کی قوت و طاقت کے ساتھ ساتھ کسی دنیاوی قوت پر بھروسہ کرنے والے شرک کے لئے بھی کچھ نہ تھا۔ ان کے پاس تو ایٹم بھی نہیں تھا کہ وہ پکارتے اگرآج ہمارے پاس ایٹم بم نہ ہوتا تو لوگ ہم پر چڑھ دوڑتے یا پھر ہمیں تو ایٹم بم نے بچا لیا۔ ٹیکنالوجی، اسلحے کی قوت کو نجات دہندہ اور تحفظ سمجھنے سے بڑا شرک اور اس سے بڑا نفاق کیا ہو سکتا ہے۔ اللہ نے انہیں اس شرک اور نفاق سے بھی بچایا۔ اللہ نے ان کے سامنے اپنی نشانیاں دس سال پہلے ہی واضح کردی تھیں کہ جب سوویت یونین ٹوٹا، ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوا تو اس وقت اسکے پاس45 ہزار ایٹمی ہتھیار تھے، ” میرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی”، سب دھرے کے دھرے رہ گئے اور روس کے سرکاری راشن ڈپوؤں پر ڈبل روٹیاں لینے والوں کی لائنیں لگ گئیں اقوام متحدہ کی راہداریاں، انسانی حقوق کے فورم، عالمی برادری کے اجتماعات اب بے معنی ہو کر رہ جانے والے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے اقوام متحدہ نے عراق پر حملے کی اجازت نہیں دی تھی مگر امریکہ اپنے حواریوں کے ساتھ وہاں حملہ آور ہو گیا۔ یاد رکھو وہ وقت قریب ہے جب تمہارا کوئی ساتھی نہ ہوگا،سوائے اہل ایمان کے، اور یہ ایسے اہل ایمان جو صبح و شام اہل ایمان ہوں گے۔ رسول اکرم ﷺنے فرمایا ” صبح ایمان والا شام کو یا شام کو ایمان والا صبح کافر یعنی وہ دنیاوی نفع کی خاطر اپنا دین بیچ ڈالے گا (صحیح مسلم)۔ اس سے پہلے کہ کفر اور نفاق کے خیمے والے تمہیں اپنی صفوں میں ناقابل بھروسہ قرار دے کر خود نکال دیں، تمہارا روہنگیا مسلمانوں کی طرح کوئی وطن، شہریت اور پاسپورٹ بھی نہ رہے، خود نکل آؤ۔ اس سے پہلے کہ تمہیں ان کے خیمے میں کھڑے رہنے کے لئے ایمان کا واضح انکار کرنا پڑے۔ ابھی تو تم اپنے مسلمان بھائی کو دہشت گرد کہہ کر قتل کر رہے ہو، پھر تمہیں اپنے ہی مسلمانوں کو اپنا حریف اور مقابل سمجھ کر قتل کرنا پڑ جائیگا۔ ایسے وقت سے پہلے اعلان کر دو کہ ہم اس خیمے کے لوگ ہیں جس میں مکمل ایمان ہوگا اور کوئی نفاق نہیں۔ سب اہل ایمان ہونگے کوئی منافق نہیں۔

Source: 92 news
Must Read Urdu column ehl e iman ka khaima By Orya maqbool jan

Leave A Reply

Your email address will not be published.