فاعتبرو یا اولی الابصار(عبرت حاصل کرو اے دیدۂ بینا) – اوریا مقبول جان

Orya Maqbool

کورونا اگر کسی ایک ملک تک محدود ہوتا تو گذشتہ ایک سالہ یلغار کی وجہ سے پندرہ کروڑ تک کی آبادی والے کسی ایک ملک کا ہر فرد اس مرض کا مزا ضرور چکھ چکا ہوتا۔ آپ حیران ہوں گے کہ اتنی آبادی والے ممالک میں روس، میکسیکو، جاپان، ایتھوپیا، فلپائن اور مصر جیسے بڑے ملک بھی شامل ہیں۔ اسی طرح اگر اللہ یہ فیصلہ کر لیتا کہ اس مرض کے تحت اس نے گذشتہ امتوں کی طرح بستیوں کو اپنے عذاب سے تباہ و برباد کرنا ہے، تو اس وقت دنیا کے 232ممالک میں سے 33ممالک صفحۂ ہستی سے مٹ چکے ہوتے ۔ یعنی جن ممالک کی آبادیاں کل ملا کر 32لاکھ بنتی ہیں۔اگر32لاکھ سے کم کسی ایک ملک کوہی صفحۂ ہستی سے مٹانا مقصود ہوتا تو اب تک جارجیا، آرمینیا، کویت، پانامہ،گیمبون جیسے کسی ملک کے تمام عوام موت کی آغوش میں جا چکے ہوتے اور وہ ملک عبرت کا نشان ہوتا۔ اس وائرس کے دنیا میں پھیلاؤ اور اس کی وقفوں وقفوں کے ساتھ حملہ آور ہونے اور شکلیں بدلنے میں بھی اللہ نے لاتعداد نشانیاں رکھ دی ہیںتاکہ انسان انہی پر غور کر لے۔ ویسے تو وائرس کی دنیا کی ایک تاریخ ہے جس کے سامنے انسانی ترقی اور سائنسی دریافت بے بس ہے۔ ایک خوردبین سے نظر نہ آنے والا یہ ذرّہ جسے زندوں میں شمار کیا جاسکتا ہے اور نہ مردوں میں، جس کے آغاز کا کسی کو علم نہیں، اندازہ ہے کہ جب سے یہ کائنات چلی آرہی ہے، اتنے ہی عرصے سے وائرس بھی کروڑوں کی تعداد میں ساتھ ساتھ چلتے چلے آرہے ہیں، جسے موت دینے پر انسان آج تک قادر نہیں ہو سکا اور جو مرتا ہے تو اپنی لاش کی صورت کوئی نشانی چھوڑ کر نہیں جاتا۔ ان پُراسرارقاتل وائرسوں کی ایک وسیع دنیا ہے جہاں سے کوئی ایک وائرس کچھ عرصے کے بعد ایک خوفناک عفریت کی طرح دندناتا ہوا، انسانی آبادیوں پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔ انسان عالمِ بے بسی میں اس سے لڑنے لگتے ہیں، مگر وائرس اپنی طبعی عمر گذار کر غائب ہو جاتا ہے۔ انسان نے اب تک پانچ ہزار سال کی تاریخ کومرتب کیاہے۔ اس تاریخ کے مطابق وائرس کا سب سے قدیم حملہ 1200قبل مسیح میں بابل کی سلطنت پر ہوا تھا جو انفلوئنزا کے وائرس سے ملتاجلتا تھا۔ اس وائرس کا ذکر قدیم سنسکرت کی کتابوں ملتا ہے۔ اس کے بعد 429قبل مسیح سے لے کر 426قبل مسیح تک یونان کے ایتھنز شہر میں پلیگ (طاعون) پھیلا، جس نے پورے یونان اور شمالی افریقہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ لیکن رومن سلطنت میں 165عیسوی سے 190عیسوی تک 29سال چیچک کا وائرس ایسا پھیلا کہ اس محدود آبادی والی قدیم دنیا میں بھی ایک کروڑ لوگوں کی جانیں لے گیا۔ لیکن جس پلیگ کو اب تک عالمی تباہی کی علامت سمجھا جاتا ہے وہ رسول اکرم ﷺ کی دنیا میں آمد سے تین دہائیاں قبل ہوئی تھی، جسے پلیگ آف جسٹینن (Plage of justinian) کہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے دس کروڑ لوگ مرے تھے اور ساٹھ فیصد یورپ موت کی آغوش میں چلا گیا تھا۔1346عیسوی سے 1356ء کا پلیگ تو ابھی چند صدیا ںپہلے کی بات ہے جسے ’’کالی موت‘‘ (Black Death)کہتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وائرس سے دو کروڑ لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ گذشتہ چالیس سالوں سے ان وائرسوں کے حملوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور ان کی ہیت ترکیبی مشکل سے مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ جدید دنیا میں ان کے خاتمے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ یعنی جیسے صدیوں پہلے کی امراض کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا تھا کہ ہم نے چیچک، پلیگ اور پولیو پر قابو پا لیا ہے، آج کاانسان اب ایسے دعویٰ نہیں کر پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ 1981ء میں حملہ آور ہونے والے وائرس ’’ایڈز‘‘ کا چالیس سال کے بعد بھی خاتمہ نہیں ہو سکا۔ اب تک اس مہلک وائرس سے تین کروڑ پچاسی لاکھ اکتالیس ہزارتین سو چھتیس (5,41,336)افراد ہلاک ہوچکے ہیں اورانسان کے علم و سائنس اور ٹیکنالوجی کے سامنے یہ وائرس ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ ویسے تو انفلوئنزا کا وائرس سلطنت بابل جتنا قدیم ہے، لیکن یہ بھی بار بار شکلیں بدل کر حملہ آور ہوتاآرہا ہے۔ اس کا آخری بڑا حملہ 2009ء میں سوائن فلو کے نام سے ہوا تھاجس میں تین لاکھ افراد لقمۂ اجل بنے تھے۔ اس بے بسی کے عالم میں سائنس دان ویکسین کی تیاری میں مصروف ہیں اور اس بیماری کی گرہیں کھولنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن ان کی تمام تر جدوجہد کا تعلق صرف اور صرف ویکسین ا ور مادی دنیا تک محدود ہے۔ لیکن وہ جو اہل دانش ہیں، اہلِ فلسفہ و دلیل ہیں، ان کو میرا اللہ ایسی تمام آفات و بلّیات اور عذاب و آزمائش کوایک غیر مادی اور منطقی سطح پر سوچنے کی دعوت دیتا ہے۔ اللہ کے نزدیک یہ سب اسکی نشانیاں ہیں، جن سے عقل والوں کو سبق حاصل کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ اللہ کے نزدیک آفات و آزمائش انسان کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے نازل کی جاتی ہیںاور ایسا کرنے میں اللہ کا صرف ایک ہی مقصد پوشیدہ ہے کہ ’’انسان اللہ کی طرف لوٹ آئے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے عذاب کا کوڑا موجودہ دنیا میں اب ویسا نہیں پڑتا جیسا پچھلی امتوں کی مکمل تباہی و بربادی کی صورت میں پڑتاتھا۔ اس وقت عذابوں کی وجہ یہ تھی کہ ان کی جانب رسول مبعوث کرکے اتمامِ حجت کی جاتی تھی، ’’اور ہم عذاب بھیجنے والے نہیں ہیں جب تک کسی رسول کو مبعوث نہ کردیں‘‘ (بنی اسرائیل: 15)ایک اور جگہ وضاحت کی، ’’اور آپ کے رب کی شان نہیں ہے کہ وہ بستیوں کو ہلاک کر دے جب تک ان کے مرکزی مقام پر رسول نہ بھیج دے جو انہیں ہماری آیات سنا دے‘‘ (القصص: 89)۔ اگر اس اصول پر آج بھی عملدرآمد ہو رہا ہوتا تو اب تک کرونا کی ان 32لاکھ اموات سے کم از کم تیس سے زیادہ چھوٹے ممالک صفحۂ ہستی سے مٹ چکے ہوتے۔ سید الانبیاء ﷺ کی بعثت اور تکمیلِ دین کے بعد اللہ اب غفلت میں سوئے ہوئے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور انکو قیامت کے بڑے عذاب سے بچانے کے لیے ایسی آفتوں سے جھنجھوڑتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے، ’’ہم لازماً مزہ چکھائیں گے چھوٹے عذاب کا بڑے عذاب سے قبل شاید کہ یہ رجوع کر لیں‘‘ (السجدہ: 21)۔یہ ہے وہ اصول لیکن موجودہ دور کے اہل دانش کو غور کرنا ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے۔ کن نافرمانیوں کی وجہ سے ایسا ہورہا ہے، لوگوں نے اللہ سے کیسی دوری اختیار کر رکھی ہے کہ دنیا پر تیزی کے ساتھ بار بار آزمائشیں نازل ہورہی ہیں۔ کرونا کے اس حملے میں انسانی بے بسی اور بے بضاعتی کے عالم میں کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ دنیا کے 222ممالک آج کروناکا شکار ہیںلیکن ان میں ایسے ممالک بھی ہیں جہاں اموات ایک ہزار سے بھی کم ہیں۔ ان ممالک میں وسائل سے محروم اور پسماندہ ترین ملک بھی شامل ہیں۔ اس کے برعکس جن ممالک میں کرونا کی موت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیںوہ ترقی یافتہ ملک ہیں۔اہل دانش و دلیل اگر ان ممالک کے گذشتہ تیس سال کے اعمال و افعال ، کردار و افکار اور تعلق الٰہی کا ایک دفعہ جائزہ لیں تو اللہ انہیں اپنی ناراضگی کی وجہ ضرور سمجھا دے گا۔ انہی ملکوں کو خاص طور پر جھنجھوڑا جا رہا ہے۔اگر انسان بحیثیت مجموعی اپنے اندر جھانکنا شروع کر دے،بحیثیت قوم اپنے جرائم کا جائزہ لے تو اسے یہ بات چند سیکنڈوں میں سمجھ آجائے گی۔ اور وہ یہ یقینا جان لے گا کہ اس کرونا کا صرف ایک ہی علاج ہے۔۔۔اجتماعی ندامت ، اجتماعی شرمندگی و خجالت اور اجتماعی استغفار

Source: 92 news
Must Read Urdu column IFa tabero ya oolil Absar By Orya Maqbool jan

Leave A Reply

Your email address will not be published.