فاطمہ بنام زینب – جاوید چوہدری

Javed Chaudhry

میں نے چند دن قبل زینب بنام چیف جسٹس کے ٹائٹل سے کالم تحریر کیا تھا‘ یہ ایک ایسی خاتون کی داستان تھی جو طلاق کے بعد عدالتوں میں خوار ہوتی رہی‘ اس کالم کے جواب میں مجھے ایک اور خاتون فاطمہ کا خط موصول ہوا‘ فاطمہ کی داستان بھی زینب سے ملتی جلتی ہے لیکن فاطمہ کی کہانی میں طلاق یافتہ خواتین کے لیے ایک مفید سبق چھپا ہوا ہے‘ میں اس لیسن کی وجہ سے فاطمہ کی کہانی بھی آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔

میرا نام فاطمہ ہے‘ میں کراچی کی رہنے والی ہوں اور ورکنگ لیڈی ہوں‘ میں نے تعلیم کے بعد ایک بڑی اور مشہور کمپنی میں جاب کر لی‘ میری پوزیشن اچھی تھی‘ کمپنی نے مجھے گاڑی اور رہائش بھی دے رکھی تھی‘ میں نے والدین کے اصرار پر ان کی مرضی سے شادی کر لی‘ خاوند دبئی میں بزنس کرتے تھے‘میں شادی کے بعد سسرال گئی تو ساس کو میری جاب پسند نہ آئی۔

میں نے ان کو خوش کرنے کے لیے جاب چھوڑ دی‘ میرے شوہر شادی کے چند دن بعد دبئی چلے گئے اور میں سسرال میں اکیلی رہ گئی‘ ساس کی خواہش تھی میں گھر کے کام کروں‘ میں نے کوشش کی مگر ساس کو مطمئن نہ کر سکی لہٰذا وہ اور ان کی بیٹیاں مجھے طعنے دینے لگیں یوں میری زندگی عذاب ہو گئی۔

میں اپنے خاوند کو دبئی بلانے کے لیے کہتی تھی مگر وہ ٹال دیتے تھے‘ بہرحال قصہ مختصر میں ایک دن خود ہی دبئی پہنچ گئی‘ وہ ایک خوش حال انسان تھے مگر بے راہ رو تھے‘ روز پارٹی کرتے تھے‘ غیر عورتوں میں رہتے تھے اور انھیں شراب کی لت بھی تھی جب کہ میں پابند صلوم وصلوٰۃ تھی‘ مجھے ان کی عادتیں اچھی نہیں لگتی تھیں۔

میں نے انھیں سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر وہ سنبھلنے کی اسٹیج سے آگے جا چکے تھے‘ وہ مجھے بھی زبردستی پارٹیوں میں لے جاتے تھے اور پارٹی میں وہ اپنی کسی گرل فرینڈ کے ساتھ نکل جاتے تھے اور میں ٹیکسیوں پر روتی پیٹتی گھر آتی تھی۔

بہرحال اس کشمکش کے دوران میں حاملہ ہو گئی جس کے بعد خاوند نے میرا سامان باندھا اور مجھے کراچی واپس بھجوا دیا‘ میری ساس نے مجھے ایئرپورٹ سے لیا اور سیدھا میرے والدین کے گھر لا پھینکا‘ ان کا کہنا تھا ’’ہمارے ہاں پہلا بچہ میکے میں پیدا ہوتا ہے۔

میں بچے کی پیدائش کے بعد تمہیں لے جاؤں گی‘‘ یہ صورت حال میرے لیے مزید اذیت ناک تھی‘ میرا شوہر دبئی میں عیاشی کر رہا تھا اور وہ مجھ سے فون پر بھی بات نہیں کرتا تھا‘ میرے والدین اس صورت حال کا مجھے ذمے دار ٹھہرا رہے تھے اور میں اس ٹینشن میں ماں بننے کے عمل سے گزر رہی تھی‘ آپ مرد لوگ میری جیسی عورت کی کیفیت کا اندازہ نہیں کر سکتے‘ بہرحال قصہ مزید مختصر اللہ تعالیٰ نے مجھے بیٹی کی نعمت سے نواز دیا۔

میں نے اپنے خاوند اور ساس کو اطلاع دی مگر ان کی طرف سے کسی قسم کی خوشی کا اظہار نہیں کیا گیا‘ وہ مبارک باد کے لیے بھی ہمارے گھر نہیں آئے‘ حالات مزید کشیدہ ہو گئے‘ میں نے آخری ٹرائی کی اور اپنی تین ماہ کی بچی کو لے کر اپنے سسرال پہنچ گئی‘ میری ساس کا رویہ بہت توہین آمیز تھا‘ اس نے اپنی پوتی کی شکل تک نہ دیکھی اور مجھے واپس والدین کے گھر بھجوا دیا‘ اس کا کہنا تھا آپ کو گھر پر طلاق مل جائے گی۔

یہ بات میرے سر پر بم کی طرح گری‘ قصہ مزید مختصر مجھے طلاق کے کاغذات مل گئے‘ میرے خاندان میں یہ پہلی طلاق تھی‘ میرے بہن بھائیوں اور والدین نے مجھے اس صورت حال کا ذمے دار قرار دینا شروع کر دیا‘ میں حالات سے سمجھوتہ کر لیتی لیکن میرے سسرال نے بچی کی کسٹڈی کے لیے مجھ پر کیس بھی کر دیا۔

میں حیران تھی میرا سسرال ایک ایسی بچی کی کسٹڈی مانگ رہاتھا جس کی شکل تک انھوں نے نہیں دیکھی تھی‘ میرے نانا اور میرے والدین بچی ان کے حوالے کرنے پر تیار تھے مگر میں ڈٹ گئی اور میں نے کیس لڑنے کا فیصلہ کر لیا اور یوں عدالتوں میں میرے دھکے شروع ہو گئے‘ مجھے کس کس اذیت کا سامنا کرنا پڑا آپ اندازہ نہیں کر سکتے۔

میرے بوڑھے والد کو بار بار میرے ساتھ عدالت جانا پڑتا تھا‘ میرے سسرال نے بچی کے لیے میرے اوپر ایسے ایسے الزامات لگائے کہ والد کے لیے سننا ممکن نہیں تھا‘ وہ ہر بار روتے ہوئے عدالت سے واپس آتے تھے‘ اس کھینچا تانی کے دوران ایک دن عدالت سے واپسی پر ان کا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور وہ میرے ساتھ عدالت جانے کے قابل نہ رہے۔

میں مزید اکیلی ہو گئی‘ اس اکیلے پن میں میرے ساتھ کیا کیا نہیں ہوا ؟آپ سوچ بھی نہیں سکتے تاہم میں ایک وکیل فاروق راشد کا ذکر ضرور کروں گی‘ اس فرشتہ صفت انسان نے میرا بہت ساتھ دیا اور یوں میں کیس جیت گئی مگر اس دوران مجھے السر بھی ہو گیا‘ میں سوکھ کر کانٹا بھی ہو گئی اور میری زندگی کے چھ سال بھی ضایع ہو گئے‘ میں نے اس دوران مرنے کی کوشش بھی کی مگر اپنی بیٹی کے لیے زندہ رہی۔

’’میں نے مقدمے سے فارغ ہو کر نوکری کی تلاش شروع کر دی‘ اس تلاش میں بھی کس کس نے اکیلی عورت کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی‘ میں یہ سوچ کر آج بھی لرز جاتی ہوں‘ بہرحال میں نے اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ رکھا ہے اور اللہ روز میرا بدلہ لیتا ہے‘ مجھے بہرحال اپنی سابق پوزیشن واپس مل گئی اور میں بیٹی کو پالنے کے قابل ہو گئی‘ میں نے سکھ کا سانس لیا مگر پھر پتا چلا اصل مسئلہ تو اس کے بعد ہے۔

میری بیٹی نے اسکول جانا شروع کیا تو اسے باپ کی کمی کا احساس ہونے لگا‘ اس کی کلاس فیلوز کے والد اسکول آتے تھے اور وہ مجھ سے واپس آ کر پوچھتی تھی میرے ابو اسکول کیوں نہیں آتے؟ یہ مجھ سے کیوں نہیں ملتے؟ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا۔

ان دنوں ٹی وی پر بسکٹ کا اشتہار آتا تھا جس میں ایک باپ اپنی بیٹی کو بسکٹ کا پیکٹ دیتا تھا اور وہ اس کے بعد قہقہے لگاتی تھی‘ میری بیٹی یہ اشتہار دیکھ کر ٹی وی کے سامنے ہاتھ پھیلا کر کھڑی ہو جاتی تھی اور میں رونا شروع کر دیتی تھی‘ میرے والدین اسے روز اس کے والد کے خلاف لیکچر دیتے تھے تمہارا باپ یہ تھا۔

تمہارا باپ وہ تھا‘ اس نے تمہارے ساتھ یہ کیا‘ اس نے تمہاری ماں کے ساتھ وہ کیا وغیرہ وغیرہ لہٰذا میری بیٹی باپ کی کمی اور نفرت دونوں کے ساتھ پلنے لگی‘ یہ جوں جوں بڑی ہوتی رہی میں نے محسوس کیا اس میں مردوں کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے۔

یہ میرے والد‘ میرے بھائیوں اور اپنے کزنز سے بھی دور رہنے کی کوشش کرتی ہے‘ مجھے محسوس ہوا یہ نفرت اگر اسی طرح جاری رہی تو میرے ساتھ ساتھ اس کی زندگی بھی تباہ ہو جائے گی‘ یہ شادی نہیں کرے گی اور اگر کرے گی تو اپنے شوہر کے ساتھ اچھی زندگی نہیں گزار سکے گی اور یہ اس کے ساتھ زیادتی ہے‘ باپ اس کا حق ہے۔

یہ حق اسے ملنا چاہیے اور اگر یہ اسے نہ ملا تو اس کی زندگی برباد ہو جائے گی‘ یہ سوچ کر میں نے اپنے سابق خاوند کا ای میل ایڈریس تلاش کیا‘ بیٹی کا ای میل ایڈریس بنایا اور دونوں کے درمیان رابطہ کرا دیا‘ میرے والدین شدید مخالف تھے مگر میں نے ان کی نہیں سنی‘ باپ اور بیٹی کا رابطہ ہوا‘ یہ دونوں ملے اور دیر تک روتے رہے‘ وقت کے ساتھ ساتھ یہ رابطہ بڑھتا رہا اور یہ اب زیادہ تسلسل کے ساتھ ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔

میرے سابق خاوند بیٹی کی سالگرہ پر بھی آتے ہیں‘ اس کے اسکول بھی جاتے ہیں‘ دونوں فون پر ایک دوسرے سے بات بھی کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو تحفے بھی دیتے ہیں‘ میری بیٹی اب نارمل ہے‘ یہ عام بچوں کی طرح خوش اور مطمئن ہے۔

میں بھی ریلیکس ہوں اور اپنی جاب پر زیادہ توجہ دے پا رہی ہوں‘ میرا زینب کو مشورہ ہے آپ طلاق کو ایک حادثہ سمجھ کر بھول جائیں‘ کام یا نوکری کریں اور بیٹی کو اپنے سابق خاوند سے ملاقات کا موقع دیں۔

بچوں کو باپ اور باپ کو بچوں کی ضرورت ہوتی ہے مگر ہم طلاق یافتہ مائیں مردوں یا خاوندوں سے نفرت میں اپنے بچوں بالخصوص اپنی بچیوں کو اس محبت سے محروم کر دیتی ہیں اور اس کے نتیجے میں ہماری بچیوں کے دل میں مرد ذات سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے اور یہ نفرت بعدازاں ان کی ازدواجی زندگی میں رکاوٹ بن جاتی ہے چناں چہ میرا مشورہ ہے ہم والدین اگر ایک دوسرے کے ساتھ نہیں چل سکتے تو نہ چلیں مگر ہم اپنے بچوں کو نفرت کے تنور میں نہ پھینکیں‘ آپ اگر والد ہیں تو آپ اپنے بچے سے ماں نہ چھینیں اور اگر ماں ہیں تو بچے کو والد سے محروم نہ کریں۔

معاشرہ اس سے چلے گا ورنہ ہم مائیں‘ ہمارے بچے اور ہمارے سابق خاوند تینوں کی زندگیوں میں خلا رہ جائے گا‘ ہم تینوں ناآسودہ زندگی گزاریں گے‘ میری زینب کی طرح چیف جسٹس سے بھی درخواست ہے آپ پلیز یہ یقینی بنائیں طلاق کے بعد بھی والدین کا بچوں سے رابطہ اور ذمے داری قائم رہے‘ نان نفقہ صرف رقم تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔

اس میں ماں کی محبت اور باپ کی شفقت بھی شامل ہونی چاہیے لہٰذا عدالت ماں کو پابند کرے یہ باپ کو اس کا حق ضرور دے گی اور باپ کوبھی حکم دے یہ مرنے تک باپ کی ذمے داری نبھائے گا تاکہ ہمارے بچے محرومی سے بچے رہیں‘‘۔

Source: Express News

Must Read Urdu column Fatima Banaam Zainab By Javed Chaudhry

Leave A Reply

Your email address will not be published.