فتنہ وطنیت کے پروردہ – اوریا مقبول جان

Orya Maqbool

تاریخ کی سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ سب سے بودا اور کمزور رشتہ، انسان اور زمین کا رشتہ ہے۔ مگر اس تعلق کو انسان انتہائی منافقت کے ساتھ دھرتی ماں، ماتا، مادرِ وطن یا مدر لینڈ کہتا ہے۔لیکن تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب بھی یہ دھرتی ماں، جانوروں کے لئے گھاس اور انسانوں کیلئے اناج اگانا بند کر دیتی ہے، اس کے پانی کے چشمے سوکھ جاتے ہیں تو اسی مادرِ وطن کا بیٹا کسی سرسبز و شاداب سرزمین پر قبضہ کرنے، اس کے وسائل کو اپنے استعمال میں لانے کے لئے نکل پڑتا ہے اور اپنی گذشتہ مادر وطن کو بنجر و ویران چھوڑ دوسری ماں پر قابض ہوجاتا ہے ۔خطہ ارضی پر انسان کے وجود کی دو لاکھ سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ انسان ہمیشہ، قحط، بیماری، خشک سالی،جنگ اور آفتوں میں دھرتی ماتا کا ساتھ چھوڑدیتا ہے ۔ یہ بے وفائی صرف انسانی سرشت کا حصہ ہی نہیں بلکہ تمام جاندار اور چرندو پرند بھی ایسے ہی بے مروت و بے وفا ہوتے ہیں۔ پرندے تو سخت موسم میں بھی وہاں نہیں رہتے۔سائبریا کی سردی آتے ہی، ہزاروں میل کا سفر اختیار کرکے گرم علاقوں میں بسیرا کرتے ہیں۔یہی حال جنگلوں میں آباد جانوروں کا بھی ہے۔

کہ انہیں بھی جہاں گھاس اور شکار ملے گا وہیں بسیرا کرلیں گے، اور اسی کو اپنا مسکن بنا لیں گے۔لیکن اشرف المخلوقات انسان اس قدر دھوکے باز اور منافق ہے کہ جب تک دھرتی ماتا یا مادر وطن زرخیز ہوتی ہے،اور اس کے سینے خزانے اگل رہے ہوتے ہیں،یہ اسے ماں کہتا ہے اور اس کے ایک ایک انچ کے تحفظ کیلئے ہزاروں جانیں قربان کرنے کیلئے تیار رہتا ہے،اس کیلئے ترانے لکھتا ہے، اسکے وجود پر کسی کے ”ناپاک” وجود کو برداشت نہیں کرتا۔دراصل یہ ناپاک وجود بھی اس کے نزدیک اس لئے ناپاک ہوتا ہے کہ وہ باہر سے آکر اس ”ماں” کے وسائل میں حصے دار بن جاتا ہے۔ جب سے انسان اس کرہ ارض پر آباد ہوا ہے، یہ مسلسل ایک علاقے سے دوسرے علاقے کی جانب بہترین حالات و وسائل کی خاطر مسلسل ہجرت کرتا رہتا چلا آرہا ہے۔ پہلے انسانی وجود کا پتہ افریقہ کے علاقے ایتھوپیا کی سرزمین سے ملنے والے دو لاکھ سال پرانے فوصل (Fossil) سے ملتا ہے۔ آج سے ساٹھ ہزار سال قبل جب افریقہ صحرا میں بدلنے لگا تو اس اولین مادر وطن کا یہ بیٹا اپنے گھر بار کا سامان اٹھائے اور خاندان اور قبیلے کے لوگوں کو ساتھ لئے یورپ اور ایشیا کے سرسبز و شاداب علاقوں کی جانب کوچ کر گیا اور پھر وہ اپنے اسی قدیم ”ہوم لینڈ” کو اس قدر بھولا کہ کئی ہزار سال تک وہاں پرباقی رہ جانے والے افریقیوں کو غلام بنا کر لاتا رہا اور ان کی تجارت کرتا رہا۔دنیا کی تمام جنگیں، قتل و غارت،استحصال اور ظلم کی بنیادی وجہ یہی دھرتی ماتا،مادر وطن یا مدر لینڈ کا بودا، کمزور اور مفاد پر مبنی رشتہ سمجھا جاتا ہے۔انسانی تاریخ میں اگر سو انسان قتل ہوئے ہیں تو ننانوے اسی دھرتی ماتا کے ماتھے کا ”خونیں جھومر” بنے۔جدید دنیا میں یہی تصوِر وطن اور قومی ریاستیں ہی تو ہیں جن کی وجہ سے دو عالمی جنگیں ہوئیں اورزمین پر لاتعداد جنگیں آج بھی جاری ہیں۔ گذشتہ ایک صدی سے ان جنگوں میں تقریبا تیس (30) کروڑ انسان یہ خونخوار ماں نگل چکی ہے، اقبال نے اسی لئے تو کہا تھا ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے لیکن قربان جاؤں، اس وطنیت کی منافقت پر کہ لوگوں نے اس کی خاطر جھوٹ بول کر مذہب کا دامن بھی اسی وطن کی مفاد پرست محبت سے میلا کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔اسلام جس کے ہاں ہجرت کو فضیلت حاصل ہے، مہاجرین کو اللہ نے اپنے ہاں اعلی ترین مقام عطا کیا ہے، ایسے دین کے وطن پرست پیروکاروں نے سیدالانبیا ﷺکے نام سے ایک جھوٹی حدیث گھڑی کہ ”حُبّ الوَطَن مِنَ الا یمان ” یعنی وطن سے محبت کرنا ایمان کا حصہ ہے۔ حدیث کی جانچ پرکھ کرنے اور رجال کے تمام ماہرین اور محدثین نے اسے ایک جھوٹی اور من گھڑت بات کہا ہے جو رسول اکرم ﷺسے منسوب کی گئی۔حسن بن محمد صغانی نے ”موضوعات الصخانی” میں لکھا کہ یہ جھوٹی اور من گھڑت ہے، امام سخاوی نے ”المقاصد الحسنہ”میں تحریر کیا مجھے اس حدیث کا کوئی علم نہیں،علامہ جلال الدین سیوطی نے ”الدورا لمنتثرہ” میں کہاکہ میں اس حدیث سے مطلع نہیں، ملا علی قاری نے ”الاسرار المرفوعہ” میں بتایا کہ یہ جھوٹی حدیث ہے،اسی طرح محمد بن محمد الغزی، امام زرقاونی، امام وداعی، محمد جار اللہ الصعدی، شیخ ابن عیثمین، امام احمد رضا بریلوی اور شیخ البانی تک تمام محدثین نے اسے ایک جھوٹی اور من گھڑت روایت بتایا ہے جو رسول اکرم ﷺسے منسوب کی گئی۔

اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ دھرتی ماتا، مادر وطن اور مدر لینڈ کے نام پر لڑنے اور قتل و غارت پھیلانے کیلئے لوگ اس حد تک گر جاتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺکے نام پر جھوٹ گھڑکے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لیتے ہیں۔ وطنیت کا یہی فتنہ ہی تو ہے جس سے مقامی اور غیر مقامی کی بحث شروع ہوتی ہے۔ جو جہاں پر قابض ہوجاتا ہے وہ اپنے آپ کو مقامی کہنے لگتا ہے اور جسے وہ مار بھگاتا ہے یا قتل کر دیتا ہے اسکا رشتہ اور تعلق وطن سے توڑدیا جاتا ہے۔پاکستان کی سرزمین پر یہ مقامی و غیر مقامی کی بحث ہر دوسرے دن اس لئے چھیڑی جاتی ہے کہ پاکستان جدید دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کی اساس دھرتی، زبان، نسل یا زمین نہیں بلکہ اسلام اور کلمہ طیبہ پر رکھی گئی ہے۔ہجرت مدینہ کے بعد یہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ایسی ہجرت کا امین خطہ ہے جو صرف عقیدے کی بنیاد پر لاکھوں انسانوں نے کی ہے ۔پاکستان وہ ملک ہے جو پنجابی،پشتون،بلوچ،سندھی اور بنگالیوں نے اپنی قومیتوں کا انکار کرکے بنایا تھا۔انہوں نے اپنے ان پنجابی، پشتون، سندھی اور بنگالی بھائیوں کو اپنا ہم وطن ماننے سے انکار کیا تھا جو کلمہ طیبہ نہیں پڑھتے تھے،پاکستان ہی وہ قومیت ہے جس پر مرمٹنے کو شہادت اور جس کا پرچم اٹھانے کو ایمان کہا جاسکتا ہے۔آج اس پہیے کو الٹا گھمانے کی بار بار کوشش کی جاتی ہے، کبھی راجہ داہراور رنجیت سنگھ کو ہیرو بنا کر اور کبھی ارتغرل ڈرامے پر اعتراض کرکے کہا جاتا ہے کہ اس مسلمان غیر مقامی ہیرو ہمارا کیا تعلق ہے۔

جس ”دھرتی ماں” کے تصور کی کوکھ سے آج یہ آواز اٹھی ہے، تاریخ اس خطہ،سندھ کے اصل مالکان ان لوگوں کو بتاتی ہے جو ہڑپہ اور موہن جو داڑوکے پرامن مہذب شہری تھے۔ وہ یہاں صدیوں سے آباد تھے۔ تقریبا 1700 قبل مسیح ایشیائے کوچک سے ا یسی آریائی اقوام یہاں حملہ آور ہوئیں جو ظالم، غیر مہذب اور خونخوار تھیں۔انہوں نے سندھ دھرتی کے ان پرامن شہریوں کو بیدریغ قتل کیا،یہاں سے مار بھگایا اورپھر یہاں قابض ہو گئے۔یہ لوگ اس قدر غیر مہذب تھے کہ کئی صدیاں کوئی بڑا شہر تک نہ بنا سکے۔بس خیموں اور کچی بستیوں میں رہے اور سندھ کی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ برقرار رکھا۔اسکے بعد ہر حملہ آور کے ساتھ جو لوگ بھی یہاں آئے،وہ مقامی نوآباد آریائی باشندوں کو ہی شکست دے کریا ان کے ساتھ مل کر اس دھرتی ماتا کے بیٹے کہلانے لگے۔آج سید،بلوچ،آرائیں، مغل،ترک،پٹھان،جاٹ،اور دیگر نسلی تفاخر کی پگڑیاں پہننے والے انہی حملہ آوروں اور دراندازوں کی اولادیں ہیں جو اس خطے پر مقامی لوگوں کا خون بہانے کے بعد آباد ہوئے تھے۔یہ سب سندھ دھرتی ماں کے اصل باسیوں کے قاتل ہیں۔ اس دنیا میں کوئی مقامی نہیں ہے اور کوئی ”دھرتی ماں” سے آفت میں محبت نہیں کرتا۔سب مفاد کے رشتے سے اس کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں۔یہ رشتہ اگر اتنا مضبوط ہوتا تو اس وقت دنیا کے نقشے پر 33 کروڑ لوگ ایسے نہ ہوتے جو پیدا کہیں اور ہوئے تھے، مگر آج جنگ، آفت، بیماری، قحط بے روزگاری اور بہتر مستقبل کیلئے مادر وطن، دھرتی ماتا اور ہوم لینڈ چھوڑ کر بہتر، پرامن اور وسائل سے بھرپور ایک نئی ماں کی آغوش میں آباد ہوگئے ہیں۔آج خدانخواستہ اگر سندھ دریا رخ بدل لے، خشک ہوجائے اوروہاں ریت اڑنا شروع ہوجائے تو تاریخ شاید ایک اور ہجرت کا منظر دیکھے۔

Source: 92 news
Must Read Urdu column Fitna Wataniat kay perwardah By Orya Maqbool jan

Leave A Reply

Your email address will not be published.