جینوئن سیاسی ورکرز کا خاتمہ – حسن نثار

hassan-nisar

بات ہو رہی تھی این اے 133 کے ضمنی الیکشن کی جب کسی نے جلے بھنے لہجے میں کہا ’’ اب جمشید چیمہ جیسے چتر چالاک، چرب زبان اور چالو قسم کے سیاسی ورکرز ہی ہماری اس بیوہ سیاست کا زیور ہیں ‘‘ کسی نے کہا ’’کیا مطلب؟‘‘ تو جواب سن کر میں حیران رہ گیا ۔ اس نے کہا کہ چیمہ نے ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی بھونڈی کوشش کی ہے، اول یہ کہ وزیر اعظم کو ٹائیگر بن کے دکھایا کہ پرویز ملک مرحوم جیسے معزز، معتبر اور مقبول شخص کی نشست پر خود کو رضاکارانہ طور پر امیدوار کے طور پر پیش کیا حالانکہ جو بھلے وقتوں میں نہ جیت سکا وہ ان حالات میں خاک جیتے گا، اس کی تو ضمانت بھی ضبط ہو جاتی سو اس نے خود ہی خود کو تکنیکی طور پر آئوٹ کر الیا کہ خرچہ بھی بچے اور عزت بھی۔ کیا اس کو علم نہیں تھا کہ اس کے تجویز کنندگان کے ووٹ تو 2018 سے ہی این اے 130میں درج ہیں پھر وہی ہوا جو ہونا تھا کہ الیکشن کمیشن نے جمشید چیمہ کے بودے ’’الزامات‘‘ مسترد کر دیئے اور یوں جمشید کی ’’کارروائی‘‘ بھی پڑ گئی اور الیکشن سے جان بھی چھوٹ گئی لیکن اس ایپی سوڈ کے نتیجہ میں میرا دھیان کسی اور طرف جا نکلا۔

بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ ہر شعبہ، محکمہ، ادارہ تو بری طرح روبہ زوال ہواور سیاسی ورکرز کا ’’ادارہ‘‘ بچا رہے جسے برباد کرنے میں جنرل ضیاءالحق مرحوم کا کردار کلیدی اور فیصلہ کن ہے ۔ ایک زمانہ تھا جب سیاسی ورکرز کسی سینٹ، سادھو، سنت سے کم نہ ہوتے تھے ۔’’گھر پھونک تماشا دیکھ‘‘ ان کا منشور ہوتا تھا ۔ پوری پوری زندگی جس کاز کو صحیح سمجھتے، اس کے لئے وقف کر دیتے۔’’ نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی‘‘۔ ’’مرے بت خانہ میں برہمن توکعبہ میں گاڑو برہمن کو ‘‘ والی کیفیت ہوتی تھی ۔ یہ وہ بے غرض، بے لو ث، مخلص اور جانثار سرفروش ہوتے جو بھوک پیاس سے بے نیاز اپنے اپنے سیاسی مورچوں پہ ڈٹے رہتے۔ اس قسم کے سیاسی ورکرز کی آخری کھیپ بھٹو کے دور میں دیکھی گئی جنہیں ’’جیالے‘‘ کہا جاتا تھا کہ پھر ضیاءالحق ملک کے سیاسی سین پر ’’طلوع‘‘ہوا اور پھر باقی سب کچھ بتدریج ’’غروب‘‘ ہوتا چلا گیا۔ ظواہر پر زور، منافقت، موقع پرستی، خود غرضی، لالچ، ضمیر فروشی ہمارے سیاسی کلچر میں بری طرح سرایت کرتی چلی گئی تو سیاست میں نواز شریف کی آمد کے ساتھ ہی دکاندار ٹائپ سیاسی ورکرز نے جنم لینا شروع کیا جن کا کوئی سیاسی دین دھرم نہ تھا۔ نہ کوئی آدرش نہ کوئی نظریہ ۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی ترجیحات میں ’’مالِ غنیمت‘‘ اور ’’کشور کشائی’’ کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا۔ اور تو اور لفافہ جرنلزم کی اصطلاح نے بھی اسی دور میں جنم لیا جو یہاں تک جا پہنچا کہ تین تین پلاٹ یہ کہہ کر عطا فرمائے گئے کہ ایک بیچ کر دوسرے پر گھر بنا لو اور تیسرا بیچ کر اس گھر کو فرنش کرلو ۔’’ورکرز‘‘ کے اوور ایج ہوچکے عزیزوں کو پٹواریوں اور نائب تحصیلداروں کے طور پر بھرتی کیا گیا۔ ”WANTED” قسم کے جرائم پیشہ لوگوں کو پولیس جیسی سروس میں اکاموڈیٹ کیا گیا ۔ ایک مرحوم سابق آئی جی پولیس عباس خان نے بطور حاضر سروس آئی جی ایک رپورٹ شائع کی جس میں ایسے جرائم کی تفصیلات تک موجود تھیں ۔سائیکل اسٹینڈز، کار پارکنگ، سرکاری دفاتر کی کنٹینوں وغیرہ کے ٹھیکے تو کسی شمار قطار میں ہی نہ تھے۔ جو اس قسم کی کلاس سے ذرا بہتر اور بااثر تھے، انہوں نے ’’شرافت کی سیاست ‘‘کے منحوس سایوں میں قبضہ گروپ ایجاد کئے جو بتدریج ہماری پہچان بنتے چلے گئے ۔ پھر جو ابلیسیت کی سنوبالنگ شروع ہوئی تو الامان الحفیظ ….پاکستان اخلاقی اقتصادی حوالوں سے وہاں پہنچ گیا ۔جہاں پہنچا ہوا ہے ۔ضیاء الحق کے دس سالہ دور آمریت نے باقی دس نمبریاں تو جو کیں سو کیں ، جو سب سے بڑا جرم کیا وہ جینوئن قسم کے بے غرض سیاسی ورکرز کا خاتمہ تھا ۔

صف اول کی قیادت میں قائد اعظم سے لیکر عبدالرب نشتر تک جیسی قدآور، قابل احترام شخصیات تو بہت دور کی بات ….آج ہے کوئی بابائے سو شلزم شیخ رشید، ملک معراج خالد، نواب زادہ نصراللہ ، ولی خان اور وہ بھٹو جسے پھانسی کے نتیجہ میں پھانسی دے دی گئی۔اس کے کسی ایک ساتھی، یہاں تک کہ ’’بدنام‘‘ ساتھی کا نام بتائیں جس پرحرام کھانے، بیرون ملک جائیدادیں اور اندرون ملک صنعتی جاگیریں کھڑی کرنے کا الزام ہو ؟

مجھ کو تو ہوش نہیں، ’’اس‘‘ کو خبر ہو شاید

لوگ کہتے ہیں کہ ’’اس‘‘ نے مجھے برباد کیا

یہی حال اس دور کے جینوئن سیاسی ورکرز کا تھا جنہوں نے فاقے بھی کاٹے، کوڑے بھی کھائے، جیلیں بھی بھگتیں، پھانسیوں کے پھندے بھی چومے، جلاوطنیاں بھی سہیں، خودسوزیاں بھی کر گزرے جبکہ آج ایسے سیاسی ورکرز کے سائے بھی کہیں دکھائی نہیں دیتے ۔

جینوئن سیاسی ورکرز جا چکے

اب تو سیاسی برگلرز (BURGLARS) وارداتیوں، نقب زنوں اور ٹھگوں کا زمانہ ہے جو اپنی اپنی قیادتوں کو بھی چکر دینے اور ٹھگنے سے باز نہیں آتے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

Source: Jung News

Read Urdu column Geniune Siasi Worker ka Khatima By Hassan Nisar

Leave A Reply

Your email address will not be published.