’’ہماری اعلیٰ روایات اور اب؟ – ڈاکٹر عبد القدیر

dr-abdul-qadeer-khan

آج کل سیاست بہت ہی غیر معیاری ہو گئی ہے اور ہم لوگ ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے۔ غلیظ زبان کا استعمال فخر سمجھا جاتا ہے یعنی اپنے ہی قریبی لوگوں کو نہایت غلیظ و بےہودہ ناموں اور القاب سے یاد کیا جاتا ہے اور اس پر فخر بھی کیا جاتا ہے۔

دیکھئے پرانے زمانے میں سکندر نے راجہ پورس کو شکست دی تھی، اس نے راجہ سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ اس نے جواب دیا کہ وہی جو ایک بادشاہ کےشایانِ شان ہو، اس نے پورس کو اس کی سلطنت لوٹا دی اور آگے چلا گیا۔ ہماری اپنی اسلامی تاریخ ایسے اعلیٰ سلوکوں سے بھری پڑی ہے۔ آپ نے پڑھا ہوگا کہ جب مسلمان کچھ طاقتور ہو گئے اور یورپیوں کو خطرہ ہوا کہ وہ بیت المقدس پر قبضہ کر لیں گے تو انہوں نے پوپ اور دوسرے پادریوں سے درخواست کی کہ تمام ممالک میں مسلمانوں کے خلاف تقریریں کی جائیں۔ فوجیں تیار کرکے اور بادشاہوں خود کمان سنبھال کر مشرق وسطیٰ کی جانب روانہ ہوگئے۔ اس مہم کیلئے پوپ اربن IIنے پہلی صلیبی جنگ کا انتظام کیا جو 1096ء سے 1102ء تک جاری رہی اور عیسائیوں نے 1099ء میں بیت المقدس پر قبضہ کرلیا۔

تقریباً 50سال بعد مسلمانوں نے یروشلم پر قبضہ کر لیا۔ یہ تیسری کروسیڈ یعنی صلیبی جنگ کی بات ہے۔ اس میں ایک جانب سلطان صلاح الدین اور دوسری جانب عیسائی فوجوں کا سربراہ رچرڈ شیردل تھا، اگر چہ رچرڈ دشمن تھا، ہزاروں میل سے آکر حملہ آور ہوا تھا لیکن جب وہ جنگ کے دوران بیمار ہوا اور بخار میں مبتلا ہوا تو صلاح الدین ایوبی نے اس کو لبنان (جو اس وقت شام کا حصّہ تھا) کی پہاڑیوں پر سے برف اور شہر کے باغات سے تازہ پھل بھجوائے کہ وہ صحت یاب ہو جائے اور پھر برابری کا مقابلہ ہو۔ یہ دریا دلی، بہادری ہماری ثقافت تھی۔ یہی نہیں جب عیسائیوں نے پہلی مرتبہ یروشلم پر قبضہ کیا تو مسلمان مسجد الاقصیٰ میں پناہ لینے چلے گئے عیسائی گھڑ سوار اندر گھس گئے اور تقریباً 70ہزار نہتے مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ خود انگریز مورخ Trong Karen Armsنے لکھا ہے کہ مسجد میں اس قدر خون جمع ہو گیا تھا کہ گھوڑوں کے گھٹنوں تک خون تھا۔

اس کے مقابلے میں جب صلاح الدین نے یروشلم فتح کیا تو جنگی قیدیوں میں سے تمام عمر رسیدہ لوگوں، خواتین اور بچوں کو آزاد کر دیا اور ساتھ ہی یہ پیشکش بھی کی جو بھی جزیہ دے گا وہ آزاد کر دیا جائے گا۔ ان لوگوں کے پاس کوئی رقم نہ تھی، جب صلاح الدین ایوبی کے بھائی العادل کو (جو مصر کے حکمراں تھے) اس کا علم ہوا تو انھوں نے لاکھوں درہم ان لوگوں کو خفیہ طریقہ سے پہنچا دیے، تمام لوگوں کو آزاد کر دیا اور وہ کرسمس منانے اپنے اپنے عزیزوں کے پاس اپنے اپنے ملکوں کو چلے گئے۔ یہ ہماری ثقافت، نرمی و فراخ دلی کی مثال ہے۔

ایک اور واقعہ قابلِ بیان ہے، کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں ایک زرتشت (ایرانی) سردار مسلمان افواج پر شب خون مارتا تھا اور اس نے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا۔ حضرت عمرؓ نے وامق ابولہول جو بدّو نسل سے تھے، کو حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کے پاس روانہ کیا اور کہا کہ وامق ایک ہزار بہادروں کے برابر ہیں۔ انہوں نے فوراً ہی اس (غالباً ہرمزان نام تھا) پر زندگی تنگ کر دی اور اس نے اس شرط پر مجبوراً ہتھیار ڈال دیے کہ اسے حضرت عمرؓ کے پاس روانہ کیا جائے۔ جب وہ حضرت عمرؓ کے پاس لیجایا گیا تو آپؓ نے اس سے پوچھا کہ کیا اس کی کوئی خواہش ہےَ اس نے کہا کہ ایک پیالہ پانی دے دیا جائے۔ اس کو پانی بھرا پیالہ دے دیا گیا۔ اس نے منہ سے نہیں لگایا۔ جب حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ پانی کیوں نہیں پی رہے تو بولا، مجھے ڈر ہے کہ جب میں پانی پینے لگوں گا تو میرا سر قلم کر دیا جائے گا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ڈرو مت، جب تک تم یہ پانی نہیں پی لیتے، تمہیں کوئی گزند نہ پہنچائی جائے گی۔ آپ کے منہ مُبارک سے جونہی یہ الفاظ نکلے اس نے وہ پانی ریت پر ڈال دیا اور کہا کہ آپ نے وعدہ کیا ہے کہ میں جب تک یہ پانی نہ پی لوں تو مجھے نہیں مارا جائے گا۔ حضرت عمرؓ شش و پنج میں پڑ گئے، کئی صحابہ کرام نے کہا کہ یہ مکاری ہے، اس کا سر قلم کر دیا جائے مگر کچھ سوچ کر آپؓ نے فرمایا کہ نہیں، میں نے جو قول دیا ہے اس پر قائم ہوں، اس کو آزاد کر دو۔ اس نے فوراً کہا کہ مجھے کلمہ پڑھائیے کہ میں مسلمان ہوتا ہوں۔ یہ تھا قول کا احترام کہ سخت دشمن کو چھوڑ دیا اور اللہ کی مصلحت سے وہ فوراً مسلمان ہو گیا۔

ہمارے مذہب میں بدلہ لینے کے بجائے درگزر اور معاف کرنے کو ترجیح دی گئی ہے اور بہت بہتر اور قابلِ ثواب بتایا گیا ہے۔ حکومت کو قانون، امن و امان قائم کرنا چاہئے اور بیٹھ کر تماشا نہیں دیکھنا چاہئے۔ دُشمنی، گالم گلوچ، بدزبانی کسی کو بھی زیب نہیں دیتی۔ بہتر ہوگا کہ خاموشی اختیار کرکے بعض معاملات عدلیہ پر چھوڑ دیں اور جو بھی فیصلہ عدلیہ کرے اسے خاموشی اور فراخدلی سے قبول کریں اور اس پر عمل کریں۔ بدزبانی سے کچھ فائدہ نہ ہوگا، وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ جس طرح یہ حکمراں آگئے ہیں، اسی طرح یہ واپس بھی جا سکتے ہیں اور پرانے حکمراں ان کی جگہ آسکتے ہیں اور پھر ان کا رویہ ان کے ساتھ اِس سلوک سے بھی بدتر اور سخت ہوگا۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی مذہبی اور اخلاقی اقدار پہ عمل کرنے پر بالکل آمادہ نہیں ہیں جبکہ ہماری تاریخ میںدرگزر کرنے ،معاف کرنے کی بےتحاشا مثالیں موجود ہیں اگر ہم عہد کرلیں کہ ہم اپنی مذہبی اور اخلاقی اقدار پر عمل کریں گے تو ہماری بہت سی ناکامیاں کامیابیوں میں تبدیل ہوسکتی ہیں۔ ہمارے سیاسی رہنمائوں کو گفتگو کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ ان کی یہ گفتگو نئی نسل بھی سن رہی ہے جس کی ان کو رہنمائی کرنی ہے۔

source

Read Urdu column Hamari Ala Rawayat aur ab by Dr Abdul Qadeer khan

Leave A Reply

Your email address will not be published.