حیاتِ طیبّہ ؐ – ڈاکٹر عبد القدیر

dr-abdul-qadeer-khan

ہر مسلمان محمدؐ پر دل و جان سے فدا ہے اور ناموسِ رسالتؐ کی خاطر اپنی جان دینے کو تیار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے 14,13سو برسوں میں رسول ﷲﷺ کی حیاتِ طیبہ یا سیرت النبیؐ پر بے شمار کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ ہر عاشقِ رسولؐ اپنی عقیدت کو اپنے الفاظ میں بیان کرتا آیا ہے اور جس طرح ﷲ رب العزّت کی تمام صفات سات سمندر کے پانیوں اور دنیا کے تمام درختوں کے قلم سے مکمل نہیں لکھی جاسکتیں، اسی طرح حیاتِ طیبہ رسولﷺ پر جتنا بھی لکھیں آپ کبھی نبی کریمؐؐ کی حیاتِ مبارکہ کے تمام پہلوئوں کو کوزہ میں بند نہیں کرسکتے۔

اِس وقت زیر تبصرہ ایک نہایت ضخیم کتاب ’’حیاتِ طیبہ ﷺ پر ایک نظر‘‘ ہے۔ اس کے مصنف جناب پروفیسر میاں محمد ظفر اقبال ہیں اور انہوں نے یہ کتاب خود ہی شائع کرائی ہے، یہ کتاب 1015 صفحات پر مشتمل ہے اس میں مصنف نے 5 سال کی محنت و مشقت اور بڑے محبت اور خلوص سے آپؐکی زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی ہے۔ جن پہلوئوں پر آپ نے طبع آزمائی کی وہ مختصراً بیان کرنا اس کالم میں ناممکن ہے، عنوان 30 صفحات پر مشتمل ہیں۔ دنیا کے تقریباً ہر ملک کے مسلمانوں نے اس موضوع پر طبع آزمائی کی ہے۔ ہم نے بچپن میں مولاناشبلی نعمانی اور علامہ سیّد سلیمان ندوی کی مؤلف کردہ سیرت النبی ؐجو انہوں نے مشترکہ طور پر تحریر کی تھی، پڑھی تھی۔قاضی سلیمان ندوی میرے شہر بھوپال جنت مقام میں 1948سے 1952تک قاضی شہر (ریاست) رہے تھے اور ان کے بنگلے کے سامنے بہت ہی خوبصورت موتی مسجد تھی جو کہ بادشاہی مسجد لاہور کا چھوٹا ماڈل تھا مگر پھر بھی کم از کم 2 ہزار افراد نماز پڑھ سکتے تھے۔ میرے چچا خان صاحب محمد امیر خان (جج) کا مکان ملا ہوا تھا۔ ہم لوگ اکثر موتی مسجد (جس کے ساتھ بڑا خوبصورت پارک تھا) میں قاضی صاحب کی امامت میں نماز ادا کیا کرتے تھے۔ ان کے صاحبزادے ڈاکٹر سلمان ندوی میرے بڑے بھائی کے کلاس فیلو تھے ، میرے پیارے دوست ہیں، جنوبی افریقہ میں رہائش اختیار کرلی ہے وہاں ڈربن کی یونیورسٹی میں پروفیسر تھے اب ریٹائر ہو کر دین کی تبلیغ کرتے ہیں۔ اسلامک یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد الغزالی (جو میرے پیارے دوست ہیں) ان کے دوست ہیں وہ جب بھی اسلام آباد آتے ہیں تو مجھ سے بھی مل لیتے ہیں ورنہ فون پر ضرور بات کرلیتے ہیں۔

اَب پروفیسر میاں محمد ظفر اقبال کی اعلیٰ کتاب کے صرف ایک موضوع کی جانب آپ کیتوجہ دلانا چاہتا ہوں۔ آپ نے صفحہ 478 پر خطبہ حجتہ الوداع تحریر کیا ہے۔ میں نے جنگ اور نیوز میں اپنے کالموں میں اکثر مذہبی موضوعات پر طبع آزمائی کی ہے۔ بھوپال میں تمام مسلمانوں کو مذہب سے بہت رغبت تھی اور نماز بھی باقاعدگی سے پڑھا کرتے تھے اور پورے سینٹرل انڈیا میں ہمارے یہاں سب سے زیادہ حفاظ تھے جو رمضان میں دور دور جاکر تراویح پڑھاتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ اس کتاب میں جو ٹیکسٹ خطبہ حجتہ الوداع کا ہے اس میں آخر میں جو ہدایت یا بیان رسول ؐ نے دیا تھا وہ نہیں ہے۔ وہ بیان یہ تھا۔’’اے لوگو! میرے بعد کوئی اور نبی (پیغمبر) نہیں آئے گا اور نہ ہی کوئی اور نئی اُمت آئے گی، میں تمہارے لئے ایک نعمت چھوڑے جارہا ہوں اگر تم اس کو مضبوطی سے پکڑو گے (یعنی اس پر مکمل عمل کروگے) تو گمراہ نہیں ہوگے اور وہ نعمت کتاب ﷲ (یعنی کلام مجید) اور میری سنت (یعنی احادیث) ہیں‘‘۔ میں نے اپنے پیارے دوست پروفیسر ڈاکٹر محمد الغزالی سے اس پر بات کی انہوں نے فرمایا اس وقت ایک لاکھ سے زیادہ حاجی موجود تھے اور یہ خطبہ عرافات کے میدان میں دیا گیا تھا اور اس میں آخری نبیؐ اور آخری اُمت کا بیان شامل تھا۔

پروفیسر میاں ظفراقبال صاحب نے آگے چل کر صفحہ 487پر خطبہ النحر (یعنی قربانی یا عید کے خطبہ) کا ذکر کیا ہے اور اس میں آخری نبیؐ اور آخری اُمت کا تذکرہ کیا ہے۔ میں نے کبھی خطبہ النحر کے بارے میں نہیں پڑھا، جبکہ خطبہ حجتہ الوداع میں ہمارے پیارے رسولؐ نے کلام مجید کو ایک کوزے میں بند کرکے پیش کردیا تھا اور یہ ہی وہ خطبہ تھا جو بے حد اہم تھا اور آپؐ نے فرمایا تھا کہ اس کے بعد وہ موجود نہ ہوںگے تو پھر یہ آخری نبی اور آخری اُمت کا بیان دوسرے دن کے لئے چھوڑنے کودل قبول نہیں کرتا۔ میری موجزانہ درخواست ہے کہ اگر کوئی مورخ، مٔولف خطبہ حجتہ الوداع تحریر کرے تو ان دونوں باتوں کو ضرور شامل کرے جیسا کہ ہمیشہ سے روایت ہے۔

دیکھئے ﷲ تعالیٰ نے کلام مجید میں کئی جگہ فرمایا ہے کہ ﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت (یعنی احکام کی پیروی) کرو اور ایک جگہ یعنی سورۃ النساء ،آیت 80میں فرمایا ہے کہ ’’جس نے رسول (محمدؐ) کی اطاعت کی گویا اس نے ﷲ کی اطاعت کی‘‘۔ ﷲ تعالیٰ نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ پیارے رسول (محمدؐ) آخری نبی ہیں ۔ اس بات کو ابہام سے بالکل پاک کرنے کے لئے ﷲ تعالیٰ نے سورۃ احزاب، آیت 40میں صاف صاف فرمایا ہے کہ ’’محمدؐ تمہارے کسی کے والد نہیں ہیں بلکہ وہ ﷲ کے پیغمبر ہیں اور خاتم النبیین ہیں‘‘۔ ﷲ تعالیٰ نے بار بار انتباہ کیا ہے کہ جو میری اور میرے پیغمبر (محمدؐ) کی ہدایات اور احکامات پر عمل نہیں کرے گا اس کے لئے نہایت سخت عذاب ہے۔ دہکتی آگ میں ڈالے جائیں گے اور ان کی کھال (جو بدن کا حساس ترین حصّہ ہے) کو باربار بدلا جائے گا کہ عذاب کا مزہ چکھیں۔

(نوٹ) پچھلے ہفتہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان محترم جناب ارشاد حسن خان کی سوانح عمری پر کالم لکھا تھا۔ لوگوں نے بیحد سراہا اور ان کو بہت دعائیں کہ ان کے فیصلے اور حکمت عملی کی وجہ سے ایک مشکل سے چھٹکارا مل گیا تھا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

source

Read Urdu column Hayyat e Taiba SAW by Dr Abdul Qadeer khan

Leave A Reply

Your email address will not be published.