حضرت عیسیٰ ؑ اور بیمار لوگ – ڈاکٹر عبد القدیر

dr-abdul-qadeer-khan

جب لوگوں کو علم ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بیماروں کو اللہ کے حکم سے صحت یاب کردیتے ہیں، مردوں کو زندہ کردیتے ہیں تو اندھے، لنگڑے، اپاہچ گدڑی والے صبح کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے عبادت خانے کے د روازے پر جمع ہوجاتے تاکہ حضرت عیسیٰ ؑم دم کرکے ان کو تکلیف سے نجات دیں۔ جب وہ اپنے معمولات سے فارغ ہوتے تو وہ خوبیوں کی خصلت والے، چاشت کے وقت باہر آتے۔ وہ کمزور بیماروں کے گروہ کے گروہ دیکھتے جو انتظار میں دروازے پر بیٹھے ہوتے۔ پس وہ دعا کرتے اور اللہ کی جانب سے کہتے کہ تم سب کی دعا پوری ہوگئی ہے۔ اب وہ اپنے رنج و تکلیفوں کے بوجھ سے خالی ہو کر اللہ کے کرم اور بخشش کی طرف (شکر میں) متوجہ ہوتے (وہ تمام اپنی تکلیفوں سے آزاد ہوجاتے)جیسے پائوں بندھے اونٹوں کے زانوئوں کو کھول دیا گیا ہو۔ وہ سب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دم سے تھوڑی سی دیر میں صحت مند ہو کر روانہ ہوجاتے۔۔

اسی طرح تو نے اپنی بہت سی مصیبتوں کو آزمایا ہے۔ مذہب کے شہنشاہوں سے تو صحت یاب ہوا ہے۔ کتنی مرتبہ (راہِ حق میں) لنگڑا پن (مرشد کے فیض دم سے) تیز رفتار بنا ہے۔ کتنی مرتبہ تیری روح بے غم اور بے تکلیف (کی حالت سے روشناس) ہو گئی ہے۔ اے غفلت والے! (مرشد کے در پر) پائوں پر رسی باندھ لے تاکہ اے خود سر! کہیں تو اپنے آپ سے بھی گم نہ ہوجائے۔ تیری ناشکری اور احسان فراموشی نے تجھے اس شہد کے پینے کی بھی یاد نہ دلائی (جو اس در سے پیا تھا) یقیناً جب اہلِ دل کا دل (تیری غفلت اور ناشکری سے) تجھ سے زخمی ہوگیا ہے۔ جلد ان کے پاس جا اور توبہ کرلے۔ وہاں ابر کی طرح عاجزی کا رونا کر تاکہ ان کے (دل کا) باغ تیری جانب کھلے اور پکے ہوئے میوے خود پھٹ پڑیں۔ تو اسی در کا چکر کاٹ اور کتے سے کم نہ بن۔ اور اگر تو اصحابِ کہف کے کتے کی طرح (باکمال) ہوگیا ہے (تب بھی اس در کو نہ چھوڑ) دیکھ! کہ کتے تک کتوں کی نصیحت کرنے والے بنے ہیں کہ پہلے اپنے گھر سے دل لگا۔ وہ پہلا دروازہ جس پر تو نے ہڈی کھائی ہے۔ (فیضان حاصل کیا ہے) سختی سے پکڑلے۔ اور حق گزاری سے نہ رک۔ وہ اس کو اس لئے کاٹتے ہیں کہ اب سے ادھر چلا جائے۔ اور پہلے مقام پر (اپنے مالک کے پاس) فلاح پائے اور اس کو کاٹتے ہیں کہ اے سرکش کتے جا۔ اپنے ولی نعمت (شیخ) سے باغی نہ بن جا اسی در پر حلقہ کی طرح بندھ جا۔ جست محافظ اور خدمت پر آمادہ بنا رہ (اے بے وفا) ہماری بے وفائی کی تو صورت (ذریعہ) نہ بن اپنی بے وفائی کو خواہ مخواہ یوں نہ دکھا۔ وفاداری تو کتوں کی عادت ہے۔ جا! کتوں کو ذلیل اور بدنام نہ کر۔

اللہ تعالیٰ نے وفاداری پر فخر فرمایا ہے۔ اس کا فرمان ہے کہ ہمارے علاوہ عہد کو پورا کرنے والا کون ہے (ساتھ یہ بھی ہے کہ) اللہ کے روکے ہوئے شخص کے ساتھ وفا کرنا اللہ کے ساتھ بے وفائی ہے۔ (لحاظ رہے کہ) حق تعالیٰ کے حقوق پر کسی کو سبقت نہیں ہے۔ اس لئے نور بن۔ (لیکن) آگ کے لئے آگ پھول کے مقام پرپھول بن۔

اے اللہ! اے وہ ذات کہ تیرا احسان قدیم (ہمیشہ سے) ہے۔ جو میرے علم میں ہے اور جو میرے علم میں نہیں ہے۔ (وہ سب کچھ) تیری ملکیت ہے۔ تونے فرمایا ہے کہ حق کو یاد کرو۔ کیونکہ میرا حق پرانا نہیں (تازہ) ہوتاہے۔ (تو نے فرمایا ہے) کہ اس مہربانی کو یاد کرو جو تمہارے ساتھ نوح علیہ السلام کی کشتی میں (طو فان عظیم سے) حفاظت کرکے اس صبح کو میں نے کی۔ اس وقت میں نے تمہاری اصل اور باپ دادا (گزشتہ سلسلہ خاندان) کو طوفان اور اس کی موج سے (معجزانہ) پناہ دی۔ (وہ ایسا سخت سماں تھا کہ) آتش مزاج پانی نے (آپ کی طرح زمین) گھیر لی تھی۔ اس کی اونچی موج پہاڑ کی ہر چوٹی کواڑا لئے جارہی تھی۔ (کشتی کیسے ٹھہرتی) میں نے تمہاری حفاظت کی۔ میں نے تمہارے دادوں بزرگوں اورمورثانِ اعلیٰ کی پشتوں میں، تمہاری حفاظت کی۔ (تب ہی تم اب پیدا ہوئے)۔ میں نے تمہیں روکے جانے والوں میں شامل کرکے غرق نہیں کیا۔

(میرے ان احسانات کو بھول کر) تم بے وفائوں پر کیوں قربان ہورہے ہو۔ بدگمانی کی وجہ سے (بے وفائی سے)اس جا نب جا رہے ہو۔ میں تو بھول اور بے وفائی سے بڑی ذات ہوں۔ پھر جب تم میری جانب آتے ہو تو کیسے بدگمانی کرتے ہو یہ بدگمانی اس جگہ لے جائو جہاں تم اپنے جیسے (احسان فراموش) کے سامنے دہرے ہوتے ہو۔ تم نے (اپنی فہم میں) بہت سے طاقتور ساتھی اور دوست بنائے۔ اب اگر میں تم سے پوچھوں کہ وہ کہاں ہیں۔ تو تم کہو گے چلے گئے۔ (گویا) تمہارا نیک ساتھی بلند آسمان پر چلا گیا۔ اور تمہارا بدکار ساتھی زمین کی گہرائی میں چلا گیا۔ او ر اگر درمیانی حالت میں رہ گیا تو اسی طرح بے یارومددگار جیسا کہ قافلے کی روانگی کے بعد آگ۔

اے دلیر دوست! تو اس کا دامن پکڑ لے۔ جو (ذات مطلق) کہ بالا و زیر سے پاک ہو۔ جو کہ نہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح آسمان پر چڑھ جائے۔ اور نہ قارون کی طرح زمین میں دھنس جائے۔ (وہ حق) تیرے ساتھ مکان (جسمانی زندگی) میں ہوگا اور لامکان (روحانی زندگی) میں بھی جب کہ تو یہ (دنیوی) گھر اور دکان چھوڑ دے گا۔ وہی ذات ہے جو گندگیوں سے صفائی نکال لیتی ہے۔ وہی ذات ہے جو تیری جفائوں کو وفائوں میں تبدیل کرتی ہے۔ (طریقہ کار یہ ہے کہ) جب تو (اپنی جان پر) ظلم کرتا ہے تو وہ سزا بھیجتا ہے۔ تاکہ تو لقمان سے آزاد ہوکر کمال کی طرف جائے۔

جب تو عمل (بندگی) میں کوئی معمول ترک کردیتا ہے۔ تو رنج اور غصہ سے تجھ پر (تنبیہ کے طور پر) قبض کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔(اس کا مقصد) ادب سکھانا ہوتا ہے۔ کہ (یومِ ازل کے) پرانے عہد (وفا) میں کوئی تبدیلی نہ کر۔ قبل اس کے کہ یہ قبض زنجیر بنے یعنی (جو اس زندگی میں) دل کی گرفت بنا ہے۔ وہ (آخرت) میں پائوں کی زنجیر نہ بن جائے۔ (تجھے اس قبض کی کیفیت کی وجہ سے) ذہنی رنج محسوس اور واضح ہوجائے گا۔ اس لئے خبردار! اس اشارے کو فضول نہ سمجھنا۔ یوں سمجھ لے کہ گناہوں میں قبض کی حالت دل کو کھٹکتی رہتی ہے۔ اور موت کے بعد یہی قبض کی کیفیت زنجیر ہوجاتی ہے۔

(مثنوی مولانا رومیؒ۔ ترجمہ : اسکواڈرن لیڈر (ر) ولی الدین)

Read Urdu column Hazrat isa aur bemar log By Dr Abdul Qadeer Khan
source

Leave A Reply

Your email address will not be published.