ہم خیال مصر میں – جاوید چوہدری

Javed Chaudhry

حضرت موسیٰ ؑسے کسی نے پوچھا ’’ فرعون نے خدائی کا دعویٰ کیا‘ وہ انسانوں سے سجدہ کراتا تھا‘ وہ لوگوں کو اپنی عبادت پر بھی مجبور کرتا تھا اور اس نے بنی اسرائیل کے ہزاروں بچے بھی قتل کرا دیے لیکن اس کے باوجود اﷲ نے اسے طویل اقتدار سے نوازا‘ اس کی رسی دراز رکھی‘ اس کا احتساب نہیں کیا‘ اس کی کیا وجہ تھی؟‘‘

حضرت موسیٰ ؑ مسکرائے اور جواب دیا ’’ فرعون انصاف کرتا تھا‘‘ یہ مختصر سا جواب اس زمین کی سب سے بڑی سچائی ہے‘ انصاف وہ خوبی ہے جس کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ فرعون کی خدائی کا دعویٰ بھی معاف کر دیتا ہے‘ یہ فرعون جیسے شخص کو بھی فراوانی‘ مہلت اور اقتدار بخش دیتا ہے‘ فرعون کی دوسری خوبی دستر خوان تھا‘ اس کا دستر خوان بہت وسیع تھا‘ وہ روزانہ ہزاروں جانور ذبح کراتا تھا‘ کھانا تیار کراتا تھا اور ہزاروں لاکھوں لوگوں کو کھلاتا تھا‘ لنگر کا بانی فرعون تھا اور بعد ازاں دنیا کے تقریباً تمام خطوں میں لنگر کے تصور پر کام ہوا اور فرعون کی تیسری خوبی علم اور ٹیکنالوجی تھی‘ وہ علم دوست اور عالم نواز بادشاہ تھا‘ جادو اس وقت ایک علم تھا اور اس نے سیکڑوں جادوگر پال رکھے تھے‘ اس نے نہ مٹنے والی سیاہی بھی تیار کرائی تھی‘ اس نے ایسے حیران کن اہرام بھی تیار کرائے تھے جو آج کے جدید اذہان تک کو حیران کر دیتے ہیں‘ اہرام مصر صحرا کے درمیان بنائے گئے‘ سیکڑوں میل تک کوئی چٹانی علاقہ نہیں‘ دنیا آج تک حیران ہے فرعون نے سیکڑوں‘ ہزاروں ٹن وزنی پتھر کہاں سے منگوائے ‘ یہ پتھر یہاں تک کیسے لائے گئے ‘ یہ پتھر کیسے گھڑے گئے اور پھر یہ کرین کے دور سے پانچ ہزار سال قبل سیکڑوں فٹ بلندی پر کیسے نصب کیے گئے.

فرعون نے نعشوں کو ہزاروں سال تک حنوط کرنے کا طریقہ بھی ایجاد کرایا اور اس نے اہراموں کے اندر ہوا اور روشنی کا ایسا بندوبست بھی کرایا جو پانچ ہزار سال گزرنے کے باوجود قائم رہا ‘ علم اور ٹیکنالوجی کی یہ قدر بھی فرعون کی قوت تھی مگر پھر فرعون نے یہ خوبیاں ترک کر دیں‘ اس کا انصاف سمٹنے لگا‘ دستر خوان بھی سیکڑوں بھیڑوں‘ بکریوں‘ اونٹوں اور بیلوں سے چند بکریوں پر آ گیا اور اس نے عالموں اور ماہرین کی قدر بھی بند کر دی چناںچہ فرعون زوال کا شکار ہو گیا‘ یہ ریڈ سی میں ڈوب گیا لیکن اﷲ تعالیٰ نے اس کی نعش عبرت کے لیے محفوظ کر لی‘ لوگ کہتے ہیں فرعون کی ممی کے ناخن اور بال آج بھی بڑے ہوتے ہیں اور چند برس بعد انھیں تراشنا پڑتا ہے۔

میں حضرت موسیٰ ؑ اور فرعون سے وابستہ زیادہ تر واقعات کے بارے میں مشکوک ہوں‘ دنیا میںحضرت موسیٰ ؑاور فرعون کے زمانے کی کوئی کتاب موجود نہیں‘ اہرام مصر سے ہاں البتہ کچھ تحریریں ملی ہیں لیکن ماہرین آج تک یہ تحریریں پڑھ نہیں سکے‘ ہمارے پاس حضرت موسیٰ ؑ اور فرعون سے متعلق معلومات کا سب سے بڑا ذریعہ تین آسمانی کتابیں ہیں‘ حضرت موسیٰ ؑ اور فرعون سے متعلق کچھ واقعات توریت میں درج ہیں‘ کچھ انجیل مقدس میں ہیں اور چند قرآن مجید میں شامل ہیں لیکن ہمارے علماء کرام‘ ہمارے مولوی حضرات اور ہمارے خطیب حضرت موسیٰ ؑ سے منسوب ہزاروں واقعات بیان کرتے ہیں، میں آج تک ان واقعات کا کوئی ماخذ دریافت نہیں کر سکا۔

ہمارے خطیب حضرات اﷲ تعالیٰ اور حضرت موسیٰ ؑ کے درمیان ایسے ایسے مکالمات بیان فرما دیتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے‘ یہ حقیقت ہے حضرت موسیٰ ؑ کوہ طور پر اﷲ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے تھے لیکن اس وقت وہاں کوئی تیسرا شخص نہیں ہوتا تھا‘ یہ خالصتاً حضرت موسیٰ ؑ اور اﷲ تعالیٰ کے درمیان گفتگو تھی اور اس کا کوئی گواہ نہیں تھا‘ حضرت موسیٰ ؑ نے ان مقامات کا کوئی تحریری ثبوت بھی نہیں چھوڑا‘ آپ ؑ نے کوئی کتاب تحریر کی اور نہ ہی دنیا میں آپ کے فرمودات کی کوئی کتاب موجود ہے‘ آپ کے اصحاب اور ساتھیوں نے بھی ان مکالمات کے بارے میں کوئی کتاب نہیں لکھی۔

آپ کی زندگی کا پہلا حوالہ توریت ہے اور آخری قرآن مجید اور ان میں بھی وہ واقعات موجود نہیں ہیں جن کا حوالہ ہمارے خطیب دیتے ہیں چناںچہ میں ہمیشہ ان واقعات کو مختلف زاویوں سے دیکھتا ہوں ‘ ان میں انصاف‘ دستر خوان اور علم و ٹیکنالوجی سے متعلق وہ رائے بھی شامل ہے جس کا میں نے پچھلی سطروں میں ذکر کیا‘ یہ بھی مصدقہ نہیں ہیں تاہم اہرام مصر‘ فرعون کی حنوط شدہ نعشیں‘ اہراموں میں ہوا اور روشنی کا بندوبست‘ دیواروں پر ان مٹ روشنائی سے لکھی تحریریں‘ صحرا میں ایسی جگہوں کی موجودگی جہاں کروڑوں جانوروں کی ہڈیاں موجود ہیں۔

آسمانی کتابوں میں جادوگروں کے حوالے اور فرعون کے انصاف کے وہ چند واقعات جن کے حوالے آسمانی کتابوں میں موجود ہیں‘ وہ ان تینوں گمانوں کو حقیقت کے قریب کر دیتے ہیں اور ہم تھوڑے سے شک کے ساتھ ان پر یقین کرنے کے لیے مجبور ہو جاتے ہیں تاہم وہ سیکڑوں واقعات جن کا حوالہ موجود نہیں مجھے بعض اوقات ان پر شک سا ہو جاتا ہے‘ دعا کریں اﷲ تعالیٰ مجھے اس فکری مغالطے سے نجات دے۔

میں اس وقت مصر میں ہوں‘ مصر مجھے ہر دور میں ’’فیسی نیٹ‘‘ کرتا تھا‘ میں اس ’’فیسی نیشن‘‘ کا پیچھا کرتے کرتے پانچویں مرتبہ مصر آیا‘ میرے ساتھ 100 ہم خیال ہیں‘34 صنعت کار‘ 35 بزنس مین اور ایک جج صاحب بھی ہمارے ساتھ ہیں‘ باقی ڈاکٹر‘ انجینئر صحافی اور ماہرین تعلیم ہیں‘ یہ سب میرے ساتھ نیل کے ان کناروں کو چھو کر دیکھنا چاہتے ہیں جہاں پر دنیا کی قدیم اور حیران کن ترین سیولائزیشن نے جنم لیا تھا‘ جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی نے آنکھ کھولی تھی‘ جہاں حضرت موسیٰ ؑ اور فرعون میں مکالمے ہوئے تھے اور جسے قدرت نے داستان بنا کر دنیا کے ہر اس شخص کے لیے عبرت بنا دیا جو اقتدار کو دائمی سمجھ لیتا ہے۔

مصر صرف ملک نہیں یہ حقیقتوں کی ایک کھلی کتاب ہے‘ ایسی کتاب جو منہ سے کہتی ہے دنیا اور اس کی تمام اچیومنٹس عارضی ہیں‘ یہ دنیا‘ یہ تخت‘ یہ بادشاہت اور یہ اقتدار اگر فرعون کا نہیں ہوا تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں‘ ہم اﷲ کی زمین پر کتنا عرصہ حکومت کر لیں گے‘ مجھے فرعونوں کے وہ اہرام بھی ہمیشہ ’’ فیسی نیٹ‘‘ کرتے تھے جن میں بادشاہوں کو ان کے سازوسامان‘ ان کے غلاموں‘ کنیزوں‘ گھوڑوں‘ بستروں اور تختوں سمیت دفن کر دیا جاتا تھا‘ مصر کے فرعونوں کا خیال تھا بادشاہ مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں اور انھیں اس ساز و سامان کی ضرورت ہوتی ہے۔

فرعون موت کو نیند بھی سمجھتے تھے اور ان کا خیال تھا دنیا میں وہ وقت جلد آ جائے گا جب ان کے کاہن انھیں دوبارہ جگا دیں گے اور انھیں اس وقت اپنے بستر کی ضرورت بھی ہو گی‘ تخت کی بھی‘ برتنوں اور خوراک کی بھی اور لونڈیوں‘ غلاموں‘ گھوڑوں اور ہتھیاروں کی بھی لہٰذا یہ اپنی عمر بھر کی کمائی اپنے ساتھ لے کر دفن ہوتے تھے‘ بیسویں صدی کے شروع میں یہ اہرام دریافت ہوئے اور جب انھیں کھولا گیا تو ان میں صرف دو چیزیں سلامت تھیں‘ فرعونوں کی حنوط شدہ لاشیں اور دوسری شہد‘ شہد کے مرتبانوں میں شہد بالکل تازہ اور قابل استعمال تھا‘ سماجی اور سائنسی ماہرین کو اس سے معلوم ہوا شہد پانچ ہزار سال بعد بھی سلامت اور قابل استعمال رہتا ہے اور یہ اس لحاظ سے دنیا کی واحد خوراک ہے اور دوسرا فرعونوں کی نعشیں تھیں۔

مصر کے قدیم ماہرین فرعونوں کی انتڑیاں اور جسمانی اعضاء نکال کر ان میں بھس بھر دیتے تھے‘ جلد پر ایک ایسا مصالحہ لگا دیا جاتا تھا جو لاش کو ہزاروں سال تک زندہ رکھتا تھا اور اس کے بعد نعش کو ململ کے کپڑے میں لپیٹ دیا جاتا تھا‘ فرعونوں کی نعشیں ایسے تابوتوں میں رکھی جاتی تھیں جن کی لکڑی ہزاروں سال تک سلامت رہتی تھی‘ یہ کیڑے اور وقت کی کروٹ دونوں سے محفوظ رہتی تھی‘ تابوت کے ڈھکن پر تصویریں کندہ کی جاتی تھیں‘ یہ تصویریں فرعون کے رتبے اور سماجی مقام کی سند ہوتی تھیں‘ فرعون بلا کے حسن پرست بھی تھے‘ یہ اپنے لیے ملکائوں اور کنیزوں کا انتخاب شام سے کرتے تھے۔

شام کی عورت کو دنیا کی حسین ترین خاتون کا اعزاز حاصل ہے‘ حسن‘ نزاکت اور سلیقہ گویا شام کی سرزمین پر آسمان سے اترتا ہے‘ شام کی عورت آج بھی دنیا میں حسین ترین سمجھی جاتی ہے‘ یہ عورتیں وفا کا مجسمہ بھی ہوتی ہیں‘ فرعونوں کے عہد میں شام سے ہزاروں کی تعداد میں خواتین مصر لائی جاتی تھیں‘ یہ خواتین مصر کے حسب نسب میں شامل ہو چکی ہیں چنانچہ آپ کو مصری خواتین کے چہروں پر شام کی عورتوں کی لالی اور تیکھا پن دکھائی دیتا ہے‘ مصر کی عورت میں فرعون کا تفاخر اور شامی عورتوں کی حیاء دونوں ہیں‘ یہ نخرہ اور یہ حیاء انھیں دنیا میں ممتاز حیثیت دیتی ہے‘ مجھے حیاء اور نخرے کا یہ دل چسپ امتزاج ہمیشہ ’’ فیسی نیٹ‘‘ کرتا ہے‘ دریائے نیل محض دریا اور اس کے کنارے محض کنارے نہیں ہیں۔

یہ تاریخ کا بہتا ہوا دھارا بھی ہے جس میں فرعون قدیم سے لے کرفرعون جدید تک کے تکبر کا نمک گھلا ہے‘ ہمارے جیسے ہم خیال لوگ تاریخ کے صفحات میں بکھرے فرعونوں کو قدیم سے جدید دور میں داخل ہوتا بھی دیکھنا چاہتے تھے‘ ہم نیل کے کناروں پر بکھری وہ تاریخ بھی دیکھنا چاہتے تھے جس میں حوادث کا نمک اور کروٹ بدلتے وقت کی تندی ہے اور آج کی مصری عوام بھی انقلابات کی تاریخ میں سنگ میل بن چکی ہے‘ اس نے حسنی مبارک جیسے آمر کو بے توقیر‘ بے اقتدار کر کے پوری دنیا کو حیران کر دیا‘ یہ التحریر چوک میں جنم لینے والا انقلاب تھا جس نے انقلاب کے متمنی ہر معاشرے میں ایک التحریر چوک تحریر کر دیا اور دنیا کا ہر ظالم اور خبط اقتدار میں مبتلا حکمران اپنے محلات کی کھڑکیوں سے یہ تحریر پڑھنے لگا۔

ہم خیال گروپ قدیم اور جدید دونوں قسم کے مصر کو کھوجنا چاہتا ہے چناں چہ ہم لوگ قاہرہ پہنچ گئے‘ ہم تین راتیں قاہرہ‘ ایک کوہ طور اور دو شرم الشیخ میں گزاریں گے‘ ہم مصر میں کیا کیا دیکھیں گے ہم آپ کو دکھاتے رہیں گے‘ سردست میں اپنے ایک ساتھی طفیل خٹک صاحب کا ذکر کرتا چلوں‘ یہ دکھ کی تصویر ہیں‘ انھوں نے 16 دسمبر 2014کے اے پی ایس پشاور کے سانحے میں اپنا ایک صاحبزادہ کھو دیا جب کہ دوسرا زخمی ہو گیا‘ یہ بچہ آج تک نارمل نہیں ہو سکا‘ یہ اپنا دکھ بھلانے کے لیے سانحے کے بعد پہلی مرتبہ ملک سے باہر نکلے اور ہم سب ان کی داستان سن کر دکھی ہو گئے‘ اﷲ تعالیٰ تمام والدین کو ایسے دکھوں اور پریشانیوں سے محفوظ رکھے۔

Source

Must Read urdu column Hum Khayal Miser main By Javed Chaudhry

Leave A Reply

Your email address will not be published.