علاج مرض سے بدتر – علی معین نوازش

ali-moeen-nawazish

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ڈالر یا غیر ملکی کرنسی کی خریداری کے حوالے سے مزید پابندیاں عائد کر دی ہیں جن کے تحت ایک دِن میں کوئی بھی شخص 10ہزار سے زیادہ ڈالرنہیں خریدسکے گا، ساتھ ہی ایک سال کے لیے یہ حد ایک لاکھ ڈالر تک مقرر کر دی گئی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے اعلیٰ افسران کا کہنا ہے کہ لوگوں کی ضروریات اتنیہی ہوتی ہیں۔بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے لیے پہلے کی طرح اب بھی 70ہزار ڈالر سالانہ کی حد مقرر ہے۔ اسی طرح بیرونِ ملک علاج معالجے کے بلوں کی ادائیگی کے لیے بھی پہلے ہی کی طرح 50ہزار ڈالر سالانہ کی حد مقرر ہے اور یہ ادائیگی بھی فی انوائس کے ذریعے ہی ہو سکے گی۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ سب (Speculative Currency Trading)یعنی قیاس آرائی پر مبنی کرنسی کی تجارت کو روکنے کے لیے کیا جا رہا ہے، جس میں لوگ ڈالر اِس لیے لیتے ہیں کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مزید کمی ہو گی۔ اِس سے ڈالر کی طلب زیادہ ہوتی ہے اور پاکستانی روپے پر پریشر پڑتا ہے ، نتیجتاً روپے کی قدر مزید گر جاتی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی کی ایک اور وجہ ڈالر کی پاکستان سے افغانستان اسمگلنگ ہے۔ اِن پابندیوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ لوگ اپنی جائز ضروریات کے لیے اسٹیٹ بینک سے اجازت لے سکتے ہیں۔ منی چینجرز کو بھی ایک ہزار سے زیادہ فروخت ہونے والے ڈالروں کی وجوہات اور تفصیلات ریکارڈ پر لانا ہوں گی۔اسٹیٹ بینک کے اِن نئے اقدامات سے روپے کی قدر کو کیا فرق پڑ سکتا ہے، اِس حوالے سے ماضی سے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کچھ ہی عرصہ قبل 5سوڈالر یا اُس سے زیادہ غیر ملکی کرنسی خریدنے پر بائیو میٹرک کی شرط عائد کی گئی تھی۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مارکیٹ میں ڈالر اپنی اصل قیمت سے 4،5روپے مہنگااوربِلا رسید بکنا شروع ہو گیا،جس سے بلیک مارکیٹ کو بھی فروغ ملا ۔ اِس حوالے سے کچھ افراد کا کہنا ہے کہ جو لوگ افغانستان کو ڈالر اسمگل کرتے تھے ، انہوں نے بھی بلیک مارکیٹ سے ڈالر کی خریداری شروع کر دی ۔اسٹیٹ بینک کے نئے اقدامات سے اب پھر ایسا ہی ہو گا کہ جن لوگوں نے ڈالر ذخیرہ کرنے ہیں وہ اُنہیں بینکوں میں جمع کرانے کی بجائے اپنے پاس کیش کی صورت میں رکھیں گے، جس سے ایک بار پھر بلیک مارکیٹ کو فروغ ملے گا۔ اِسی طرح جن لوگوں نے رقم ملک سے باہر منتقل کرنی ہے ، وہ اسٹیٹ بینک کی اجازت کے چکروں میں پڑنے کی بجائے ہنڈی اور حوالہ کا رُخ کریں گے۔ پاکستان میں ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ڈالر یا دوسری کوئی غیر ملکی کرنسی صرف منی چینجر سے ہی لی جا سکتی ہےاور عام شہری بینک سے براہِ راست غیر ملکی کرنسی نہیں لے سکتا نہ ہی اپنے اکاؤنٹ میں ڈال سکتا ہے۔ کوئی اووسیز پاکستانی اپنی پراپرٹی بیچ رہا ہو تو (اب اِس دقت اور روپے کی قدر میں مسلسل کمی کے باعث وہ شاید ایسا نہ سوچے)وہ پیسہ منتقل کرنے کیلئے ہنڈی ہی کرے گا۔ کیونکہ بینک اُسے ڈائرکٹ ڈالر باہر سے خریدے بغیر منتقل نہیں کر سکے گا۔ ایسے میں ،کیا وہ کہیں اور خوار ہونا چاہے گا یا سرکاری اجازت نامے کے چکر میں پڑے گا؟

اِس طرح کے اقدامات حقیقی خریداروں کیلئے بھی تنگی کا باعث بنتے ہیں، ویسے بھی کسی شخص نے جب محنت سے کمائی کی ہو اور باقاعدگی سے ٹیکس بھی ادا کیا ہو، تو اُسے پورا حق پہنچتا ہے کہ وہ پیسہ کس کرنسی میں رکھنا چاہتا ہے۔کیونکہ یہ اُس کی محنت کی کمائی ہے اور وہ کیا کرے اگر حکومت ہی روپے کی قدر میں استحکام نہیں لا پا رہی۔ عوام کو تو یہی بتایا جاتا ہے کہ ہماری معیشت ایسے ترقی کر رہی ہے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔

دنیا کے بیشتر ممالک میں ایسی کوئی پابندیاں نہیں ہیں۔ پاکستان میں اِنہی پابندیوں کی وجہ سے ہی ہنڈی اور حوالہ نے فروغ پایا اور مزید فروغ پائے گا۔ کچھ ممالک میں تو ہنڈی اور حوالہ آسان ہونے کے ساتھ ساتھ مالی طور پر بھی فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ یہی عمران خان صاحب تھے جو کنٹینر پر کھڑے ہو کر کہتے تھے کہ لوگ بینکنگ چینل کے ذریعے پیسہ مت منگوائیں بلکہ ہنڈی اور حوالہ کا استعمال کریں، اب اُنہی کی حکومت میں ایسی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے لوگوں بینکنگ چینل کا استعمال کم کریں گے اور اُن میں ہنڈی اور حوالہ کا رجحان بڑھے گا۔ہماری حکومت بھی ایف بی آر کی ڈگر پر چل نکلی ہے، کہ اُن کے پاس ٹیکس نیٹ میں نئے ٹیکس دہندہ آتے نہیں اور جو پہلے سے موجود ہیں ، بس اُنہی کونچوڑا جاتا ہے۔ہماری حکومت بھی بلیک مارکیٹ کو کنٹرول کرنے اور ڈالر کی اسمگلنگ کو روکنے کی بجائے عام پاکستانیوں کیلئے نت نئی رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔

میری ایک دوست جب پاکستان سے کینیڈا منتقل ہوئی تو اپنی ساری جمع پونجی بھی ساتھ لے آئی ۔ کینیڈا میں گھر خریدتے وقت جب بینک والوں نے کہا کہ ہمیں منی ٹریل دکھا دیں کیونکہ آپ پیسہ پاکستان سے لائی ہیںتو میری دوست نے منی چینجر کی رسیدیں اور بینک ٹرانزیکشنز دکھا دیں۔ یہ دیکھ کر بینکر ہنس پڑا اور کہنے لگا کہ ایسا نظام تو اب یوگنڈا اور دیگر افریقی ممالک میں بھی نہیں ہے، جہاں اِس طرح منی چینجر کی رسیدوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہاں بھی آپ آن لائن بینک میں ڈالر جمع کروا اور نکلواسکتے ہیں۔

ہمارے حکمرانوں کو سوچنا چاہئے اور اصل مسائل کا حل نکالنا چاہئے۔ ہمارے ملک کی مثال اُس بلڈنگ کی سی ہے جس کی مین اینٹرنس تو سیکورٹی سے بھری ہوئی ہے لیکن ساتھ ہی ایک چور دروازہ بھی موجود ہے۔ بلڈنگ کی سیکورٹی بڑھانے کیلئے آپ بے شک اینٹرنس پر گارڈز کی تعداد دو گنی کردیں، ایکس رے مشین نصب کر دیں، کیمرے لگا دیں، لیکن جب تک چور دروازہ بند نہیں ہو گا تب تک بلڈنگ محفوظ نہیں ہو گی۔ جو لوگ مین اینٹرنس کا استعمال کر رہے ہیں صرف اُنہیں ہی زحمت ہو گی۔ ہماری حکومت کوایسے ہی چور دروازے بند کرنے کی ضرورت ہے لیکن ہم اُن چور دروازوں کو بند کرنے کی بجائے صحیح راستے دشوار بنا کر ، چور دروازوں کے استعمال کو فروغ دے رہے ہیں۔صحیح راستوں کو دشوار گزار بنا کر ہم اُن لوگوں کو بھی چور دروازوں کے استعمال کی طرف راغب کر رہے ہیں، جو درست راہ کے راہی ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

Must Read Urdu column Ilaj Marz se Budtar By Ali Moeen Nawazish
Source: Jang

Leave A Reply

Your email address will not be published.