انصاف یا برابری؟ – علی معین نوازش

ali-moeen-nawazish

سوشل میڈیا پر ہر چند ماہ بعد ایک تصویر وائرل ہوتی ہے جس کے دو حصے ہیں، یعنی ایک ہی تصویر میں دو چھوٹی تصویریں ہیں۔ پہلی تصویر میں تین مختلف قد کے بچے دیوار کی دوسری طرف سے ایک گراؤنڈ میں ہونے والا میچ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ تینوں ایک ہی سائز کے لکڑی کے ڈبے پر کھڑے ہوتے ہیں لیکن صرف سب سے لمبے اور درمیانے قد والے بچوں کو میچ نظر آتا ہے جبکہ سب سے چھوٹے قد والا بچہ اپنے چھوٹے قد کی وجہ سے میچ نہیں دیکھ پاتا۔ دوسری تصویر میں سب سے لمبے قد والے بچے کے نیچے کوئی ڈبہ نہیں ہوتا لیکن اپنے قد کی وجہ سے وہ ویسے ہی دیوار کے اوپر سے میچ دیکھ رہا ہوتا ہے، درمیانے قد والے بچے کے نیچے وہی ایک ڈبہ ہوتا ہے اور سب سے کم قد والے بچے کے نیچے دو ڈبے ہوتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اب تینوں بچے دیوار کے اوپر سے آرام سے میچ دیکھ پاتے ہیں۔

اس تصویر کا مقصد Eqaulityاور Equityکے درمیان فرق بتانا ہے یعنی برابری اور انصاف کے درمیان فرق۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ برابری کے سلوک اور انصاف کا مطلب ایک ہی ہے۔ اگر سب کے لئے ایک جیسے مواقع میسر ہوں گے اور سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہوگا اور سب کو برابر کے وسائل ملیں گے تو معاشرے میں انصاف بھی آجائے گا، معاشرہ خوشحال ہوگا اور ترقی بھی کرے گا لیکن یہ ایک غلط تصور ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں ناانصافی کم ہونے کے بجائے بڑھ جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں سب لوگ ایک ہی پیمانے سے ابتداء نہیں کرتے جس طرح ایک ہی جیسے وسائل ملنے کے بعد بھی اُس تصویر میں سب سے کم قد والا لڑکا میچ نہیں دیکھ پایا تھا جبکہ برابری کا تقاضا ہر ایک کو ایک لکڑی کا ڈبہ دے کر پورا کیا گیا تھا لیکن جب کم قد والے کو برابری کے تقاضے کے خلاف ایک لکڑی کا ڈبہ زیادہ دیا گیا اور زیادہ قد والے کو برابری کے اُسی تقاضے کے خلاف کوئی ڈبہ نہیں دیا گیا تو جو نتیجہ نکلا اُس میں انصاف تھا، تینوں بچے میچ دیکھ پائے تھے، کسی کو زیادہ وسائل چاہئے تھے اور کسی کو کم۔

اب یہ سوچیں کہ یہ بچے میچ نہیں دیکھ رہے بلکہ اپنی زندگی اور کامیابی کو اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں اور کسی کو وہ نظر آرہی ہے اور کسی کو نہیں۔ معاشرے میں مختلف طبقات کی ابتداء چونکہ ایک جگہ سے نہیں ہوتی اور معاشرے کے قانون چوںکہ ایک جیسے بنے ہیں، جو بہترین صورت میں شاید برابر اور بدترین صورت میں تینوں لکڑی کے ڈبے سب سے لمبے قد والے بچے کو دے دیتے ہیں، اسی وجہ سے معاشرے میں انصاف قائم نہیں ہوتا کیونکہ اِس انصاف کے پانے کے لئے ہم بنیادی ناانصافی کو نہ سمجھ پاتے ہیں اور نہ اُس کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم ناانصافی کا مقابلہ انصاف سے نہیں بلکہ برابری سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ جس مختلف ابتداء کی بات کی ہے، یہ بھی زیادہ تر طویل عرصے سے ہونے والی ناانصافیوں کا نتیجہ ہے۔ کئی جگہ یہ کہا جاتا ہے کہ اگر برابری ہوگی تو لوگ میرٹ پر پورے اُتریں گے اور میرٹ کی بنیاد پر لوگ کامیاب ہوں گے۔ اکثر اوقات غربت کا قصوروار بھی غریب شخص کو ٹھہرایا جاتا ہے کہ اُس کی سوچ ہی غریب ہے، وہ محنت نہیں کرتا، اُس نے بڑے غلط فیصلے کیے لیکن اُس نظام پر کوئی بات نہیں کرتا جو اُسے انصاف نہ فراہم کر سکا اور اُس کی ابتداء بھی پیچھے سے ہوئی اور اُس کو زیادہ مواقع کیا، برابری کے مواقع بھی نہیں مل سکے۔ آج اگر آپ تصور کریں کہ ایک مزدور کا بیٹا وہ کامیابی حاصل کر سکتا ہے جو ایک اپر مڈل کلاس کا بچہ کر سکتا ہے تو ایسا بالکل ممکن نہیں ہے، وہ ایک ہی اسکول میں نہیں جاتے، اُن کے گھروں کا ماحول ایک جیسا نہیں ہے، گھر سے وہی تعلیم نہیں ملتی جو اسکول سے ملتی ہے۔ اب اگر ایک نصاب کی بات بھی ہو رہی ہے تو وہ صرف برابری کی حد تک ہے، انصاف کی حد تک نہیں۔

جب میں یہ بات کرتا ہوں تو بڑے لوگ مثال دیتے ہیں کہ ہم بھی ٹاٹ والے اسکولوں میں پڑھتے تھے اور فلاں کو دیکھیں، غربت سے نکل کر وہ اتنا کامیاب ہو گیا ہے، تو اِس کا پہلا جواب یہ ہوتا ہے کہ جس وقت وہ غربت سے نکلا یا جب وہ ٹاٹ والے اسکول میں پڑھا تھا تو اُس وقت شاید ناانصافی اِس حد تک نہیں پہنچی تھی جس حد تک آج پہنچ چکی ہے۔ دوسری بات یہ کہ اِس کو ٹوکن ازم کہا جاتا ہے، جہاں ایک مثال کو ٹوکن بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ دراصل ایک شخص کا ناانصاف ماحول میں بھی آگے چلے جانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاشرے میں ناانصافی موجود نہیں، ہمیں مجموعی طور پر یہ دیکھنا ہے کہ کتنے فیصد لوگ اُس ٹاٹ والے اسکول سے نکل کر کامیاب ہوئے اور کتنے لوگ غربت سے باہر آ سکے ہیں۔

ہمارا ٹیکس کا نظام ہو، یا صحت کا، یا تعلیم کا، یا انصاف کا، یا کسی بھی اور چیز کا، اُس میں بہت سی بنیادی ناانصافیاں موجود ہیں۔ ٹیکس کے نظام کو ہی دیکھ لیں، ہمارے ہاں سب سے زیادہ ٹیکس کلیکشن بلاواسطہ ٹیکس سے ہی ہوتی ہے۔ ایک ارب پتی بھی پانی کی بوتل پر اُتنا ہی ٹیکس دیتا ہے جتنا ایک مزدوری کرنے والا۔ انصاف یہ ہے کہ بلاواسطہ ٹیکس کے بجائے براہِ راست امیر سے زیادہ اور غریب سے کوئی ٹیکس نہیں یا بہت کم ٹیکس وصول کیا جائے لیکن یہاں ارب پتی ٹیکس پالیسی اپنی مرضی سے بنوا لیتے ہیں۔ یہ ناانصافی نظام کا اِس حد تک حصہ بن جاتی ہے کہ ہم اِس کے علاوہ کسی اور حقیقت کا تصور نہیں کر سکتے۔ اگر ہم نے واقعی ہی ملک کے لوگوں کے لئے کچھ کرنا ہے تو ہمیں برابری نہیں انصاف کو ترجیح دینا ہوگی یعنی Equalityنہیں Equityپر بات کرنا ہوگی۔

Must Read Urdu column Insaaf Ya Brabri By Ali Moeen Nawazish
Source: Jang

Leave A Reply

Your email address will not be published.