انسان خسارے میں – حسن نثار

hassan-nisar

میں نے زر تشت (ZOROASTER) اور زر تشتی مذہب کے بارے نہ ہونے کے برابر ہی پڑھا تھا حالانکہ مختلف مذاہب میرے پسندیدہ ترین موضوعات ہیں کہ اس سے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کو ملتا ہے۔ پچھلے دنوں ایڈورڈ برنز اور فلپ رالف کی کتاب ہاتھ لگی تو پہلی بار اہلِ فارس کے اس مذہب بارے کچھ بنیادی باتیں جان کر شدید حیرت میں مبتلا ہو گیا۔

اُس کا زمانہ اہلِ فارس کی سلطنت قائم ہونے سے تقریباً سو سال پہلے کا زمانہ ہے جس کا مرکزی خیال روحانی اور اخلاقی تربیت ہے۔ میرے لئے یہ انکشاف کسی جھٹکے سے کم نہ تھا کہ اس مذہب کی تعلیمات میں بھی ہندومت کی طرح گائے کو مقدس قرار دیا گیا اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ زمین کی کاشت یعنی کھیتی باڑی کو بھی مقدس کام کا درجہ دیا گیا ہے۔ کئی اعتبار سے زرتشتی مذہب اس زمانے تک آنے والے مذاہب میں منفرد ترین ہے کیونکہ اس میں سومیری اور بابلی مذاہب کی سی ’’وحدانیت‘‘ نہیں ہے۔ اس میں خیر اور شر کے دیوتا الگ الگ نہیں ہیں بلکہ تمام دیوتائوں میں دونوں متضاد خصائص بیک وقت ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اس مذہب میں کائنات واضح طور پر دو معبودوں کے زیر اثر ہے جن میں سے ایک آہومزدا ہے جو شر کا اہل نہیں بلکہ حق اور راستی کا سمبل ہے۔ دوسرے معبود کا نام اہرمن ہے جو مجسمِ شر اور خباثت کا مجموعہ ہے۔ ان دونوں معبودوں میں برتری اور غلبہ کیلئے مسلسل جدوجہد جاری و ساری ہے۔ اگرچہ یہ دونوں قوت میں تقریباً برابر برابر ہی ہیں لیکن آخری فتح آہومزدا کی ہی ہو گی جو خیر کا سمبل ہے۔ زرتشتی مذہب ایک ESCHATO LOGICALمذہب ہے مثلاً ایک نجات دہندہ کی آمد، مردوں کا اٹھایا جانا، روز محشر کا بپا ہونا، اٹھائے گئے لوگوں کو سزا جزا کے بعد ابدی بہشت میں داخل کرنا، زر تشتی عقیدہ کے مطابق دنیا کو بارہ ہزار سال تک موجود رہنا ہے۔ نو ہزار سال کے بعد زر تشت دوبارہ آئے گا۔ اس کی آمد REDUMPTION OF GOODکی علامت ہو گی اور اس کی تکمیل دنیا کے خاتمہ کی علامت ہو گی۔ بالآخر وہ دن آئے گا جب مزدا اہرمن پر مکمل غلبہ حاصل کر لے گا اور اسے پاتال میں پھینک دیا جائے گا۔ زرتشتی جہنم ابدی نہیں ہے کیونکہ آخر کار سب کی نجات ہو جائے گی۔ پورا مذہب اس مفروضہ پر قائم ہے کہ انسان FREE WILLرکھتا ہے اور گناہ کرنے یا نہ کرنے میں خود مختار ہے سو حیات اخروی میں انہیں دنیا کے اعمال کی روشنی میں سزا جزا دی جائے گی۔

اس مذہب میں اچھے کاموں کی ایک مرعوب کن فہرست ہے۔ کچھ اچھائیوں کا واضح مقصد تو صاف طور پر اقتصادی اور سیاسی ہے مثلاً شدید محنت کرنا، وعدہ وفا کرنا، حکمران کی اطاعت، زیادہ اولاد، زمین کی کاشت وغیرہ۔ آہو مزدا نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ انسان کو ہمیشہ سچ بولنا چاہئے، ہر کسی کو اپنی استطاعت کے مطابق مہمان نواز ہونا چاہئے۔ ممنوعہ افعال کی فہرست بھی خاصی طویل ہے مثلاً غرور و تکبر، جانوروں کی طرح ٹھونس ٹھونس کر کھانا، غصہ، ہوس، ازدواجی بیوفائی، اسقاطِ حمل، بہتان طرازی، تہمت کے علاوہ سود خوری کو بھی بدترین قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح دولت کے ارتکاز کی بھی مذمت اور ممانعت ہے۔ ’’نیک نیتی‘‘ کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ کسی اور کے ساتھ وہ نہ کیا جائے جو خود تمہاری اپنی ذات کیلئے ٹھیک نہیں ہے۔

معقول ترین بات یہ ہے کہ زرتشتی مذہب میں بھی راہبا نہ زندگی کی نفی کی گئی ہے۔ زر تشتی مذہب خود اذیتی سے بھی منع کرتا ہے۔

قارئین!

دنیا کے کسی مذہب میں بھی بدی، برائی، بدصورتی کا پرچار نہیں لیکن بندہ یہ سوچ کر حیران رہ جاتا ہے کہ دنیا میں کسی بھی مذہب کے ماننے والوں میں ان لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک جتنی بھی نہیں جو اپنے اپنے مذاہب کے احکامات، ہدایات اور تعلیمات پر 10فیصد بھی عمل کرتے ہوں تو آخر اس کی وجہ کیا ہے؟

’’بےشک انسان خسارہ میں ہے‘‘۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

Source: Jung News

Read Urdu column Insaan Khasare main By Hassan Nisar

Leave A Reply

Your email address will not be published.