جاوید چوہدری – اس کیوں کا جواب کون دے گا

Javed Chaudhry Columns

امریکی صحافی ڈیکلین والش نے 17 مئی 2015ء کو نیویارک ٹائمز میں ایک تہلکہ خیز اسٹوری دی‘ یہ اسٹوری بعد ازاں ’’ایگزیکٹ اسکینڈل‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی‘ ایگزیکٹ کراچی کی ایک آئی ٹی کمپنی تھی‘ یہ کمپنی شعیب شیخ نے 1997ء میں بنائی تھی‘ مالکان کا دعویٰ تھا یہ دنیا کی لیڈنگ سافٹ ویئر کمپنی ہے۔

کاروبار 120 ملکوں کے 1300 شہروں میں پھیلا ہوا ہے‘ 25 ہزار ملازمین ہیں‘ دس کاروباری یونٹ ہیں اور دو ارب لوگ ہماری سروسز استعمال کرتے ہیں لیکن ڈیکلین والش کی اسٹوری کے بعد پتہ چلا ایگزیکٹ نے کراچی میں 330 جعلی امریکی یونیورسٹیوں کی ویب سائیٹس بنا رکھی ہیں‘ ویب سائیٹس پر امریکا کے ٹیلی فون نمبر تھے۔

دنیا بھر کے طالب علم امریکا میں فون کرتے تھے اور وہ فون کراچی میں شعیب شیخ کے دفتروں میں آ ملتا تھا‘ کلائنٹ امریکا کے بینکوں میں رقم جمع کراتے تھے اور وہ پیسہ مختلف چینلز سے ہوتا ہوا پاکستان پہنچ جاتا تھا‘ شعیب شیخ نے اس دھندے سے اربوں روپے کمائے‘ یہ آخر میں اپنے غیر قانونی کاروبار کو بچانے کے لیے میڈیا ایمپائر بنا رہے تھے لیکن یہ اس سے پہلے پکڑے گئے اور ان کا سارا محل تاش کے پتوں کی طرح بکھر گیا۔

ایف آئی اے ایکٹو ہوئی‘ چھاپے پڑے‘ دفاتر سیل ہوئے‘ ملازمین گرفتار ہوئے‘ ہیڈ کوارٹر کے سامنے موجود عمارت سے ہزاروں کی تعداد میں جعلی ڈگریاں اور طالب علموں کے کارڈز برآمد ہوئے اور دفتر سے ڈگریاں حاصل کرنے والے اسٹوڈنٹس کا ڈیٹا اور سی ڈیز بھی مل گئیں‘ثبوت پورے ہو گئے‘ ایف آئی اے نے اس مواد کی بنیاد پر شعیب شیخ کے خلاف کراچی میں دو اور اسلام آباد میں ایک مقدمہ قائم کر دیا‘ کیس عدالتوں میں چلنے لگا‘ 15 اگست 2016ء کو سندھ ہائی کورٹ نے شعیب شیخ کو ضمانت پر رہا کر دیا۔

اسلام آباد کا مقدمہ چلتا رہا‘ یہ مقدمہ ایڈیشنل سیشن جج پرویز قادر میمن کی عدالت میں زیر سماعت تھا‘ پرویز قادر میمن حیدر آباد کی میمن فیملی سے تعلق رکھتے ہیں‘ اسلام آباد کے وکلاء اور ججز میں ان کی شہرت اچھی تھی‘ یہ وکیلوں اور سائلوں دونوں کے ساتھ تہذیب اور شائستگی کے ساتھ پیش آتے تھے‘ یہ ایماندار اور اہل بھی مشہور تھے‘ پرویز قادر میمن نے 31 اکتوبر 2016ء کو مقدمے کے مرکزی ملزم شعیب شیخ اور وقاص عتیق سمیت 25 لوگوں کو بری کر دیا‘کہانی کا پہلا باب یہاں ختم ہوگیا‘ دوسرا باب مئی 2017ء میں شروع ہوا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی اسلام آباد ہائی کورٹ کے مشہور جج ہیں‘ جسٹس صاحب کو اطلاع ملی پرویز قادر نے شعیب شیخ کے کیس میں چار کروڑ روپے رشوت لی تھی‘ جسٹس صاحب نے سیشن جج تنویر میر کو انکوائری کا حکم دیا‘ سیشن جج نے خفیہ انکوائری کے بعد الزام کی تصدیق کر دی‘ جسٹس شوکت صدیقی نے مئی 2017ء میں پرویز قادر کو چیمبر میں بلا لیا‘ پرویزقادر نے کلمہ پڑھا‘ قسمیں کھائیں اور الزام سے صاف انکار کر دیا۔

جسٹس شوکت صدیقی نے انھیں چند دن سوچنے کا وقت دے دیا‘ جون 2017ء میں اسلام آباد کے ماتحت ججوں کی پروموشن کا وقت آ گیا‘ ہائی کورٹ کے دو ججز جسٹس شوکت صدیقی اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی پروموشن کمیٹی بن گئی‘ کمیٹی کو دو ایڈیشنل سیشن ججز پر تحفظات تھے۔

دونوں کو انٹرویوز کے لیے بلا لیا گیا‘ پرویز قادر میمن بھی ان میں شامل تھے‘ پرویز قادر کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے‘ رجسٹرار ہائی کورٹ راجہ جواد عباس بھی وہاں موجود تھے‘ کمیٹی نے پرویز قادر سے پوچھا’’ آپ پر ایگزیکٹ کیس میں چار کروڑ روپے رشوت لینے کا الزام ہے‘‘ پرویز قادر نے انکار کر دیا‘ کمیٹی نے ان کے فون کا ریکارڈ ان کے سامنے رکھ دیا‘ پرویز قادر نے اسلام آباد کی ایک طاقتور شخصیت سے دو درجن مرتبہ بات کی تھی۔

ان سے پوچھا گیا ’’آپ کا ان کے ساتھ کیا تعلق ہے‘‘ پرویز قادر نے جواب دیا ’’یہ مجھے ایک کام کے سلسلے میں فون کرتے تھے‘‘ ان سے کام کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ کام شعیب شیخ کی رہائی نکلا‘ اگلا سوال تھا ’’کیا آپ نے چار کروڑ روپے لیے تھے‘‘ پرویز قادر کا جواب تھا ’’سر وہ بکواس کر رہے ہیں‘ وہ بے ایمان لوگ ہیں‘ مجھے انھوں نے صرف 50 لاکھ روپے دیے تھے‘ باقی ڈیڑھ کروڑ روپے لندن میں دیے جانے تھے‘ وہ مجھے ابھی تک نہیں ملے۔

یہ لوگ ساری رقم خود کھا گئے ہیں‘‘ ایڈیشنل جج پرویز قادر میمن کا اعتراف حیران کن تھا‘ کمیٹی نے ایڈیشنل سیشن جج کو معطل کر دیا‘ 9 جون 2017ء کو شوکاز بھی کر دیاگیا‘ انکوائری ہوئی اور اگست 2017ء میں ایڈیشنل سیشن جج پرویز قادر میمن کو نوکری سے برطرف کر دیا گیا‘ جج نے یہ فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا‘ جج نے درخواست میں موقف اختیار کیا ’’میرے خلاف کسی شخص نے بے ضابطگی کی کوئی درخواست نہیں دی۔

پروموشن کمیٹی کا کام میری پروموشن تھا‘ یہ مجھے سزا کیسے دے سکتی ہے اور کمیٹی کے پاس میرے اعتراف کا کیا ثبوت ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ‘ یہ معاملہ پرویز قادر میمن کی اس درخواست تک خفیہ تھا‘ ہائی کورٹ کے دونوں ججز عدلیہ کی بدنامی کی وجہ سے خاموش تھے لیکن پرویز قادر کی درخواست کے بعد یہ معاملہ میڈیا تک پہنچا‘ خبریں بنیں اور یوں رجسٹرار ہائی کورٹ نے مجبوراً 15 فروری 2018ء کو پرویز قادر کی برطرفی کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا‘ یہ کہانی کا دوسرا باب تھا‘ اس کہانی کا ایک تیسرا باب بھی ہونا چاہیے‘ وہ کیا ہے ہم اب اس طرف آتے ہیں۔

ہم پاکستان میں عدل پر مبنی ایک صاف ستھرا نظام بنانا چاہتے ہیں‘ ایک ایسا نظام جس کے سامنے صدر اور وزیراعظم بھی جواب دہ ہوں اور جنرل اور ججز بھی‘ جس کی نظر میں ساری گائیں صرف گائیں ہوں یہ مقدس یا غیر مقدس نہ ہوں‘ چیف جسٹس میاں ثاقب نثارعدل پر مبنی اس معاشرے کے لیے ان تھک محنت کر رہے ہیں۔

یہ اس آزاد عدلیہ کی شبانہ روز محنتوں کا نتیجہ ہے آج پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس میں پاناما لیکس کے بعد دو تہائی اکثریت کا حامل وزیراعظم عدالت کے حکم پر فارغ ہو گیا‘ جس میں پانچ ججوں نے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس شدہ بل کا آپریشن کیا اور میاں نواز شریف کو پارٹی کی صدارت سے فارغ کر دیا اور جس میں ملک کی سب سے بڑی جماعت کے امیدواروں کو سینیٹ کے الیکشن تک سے بھی آؤٹ کر دیا گیا‘ ہم کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے پاکستان میں ایک ایسا وقت آئے گا جب ججز کے حکم پر وزراء اعظم فارغ ہو جائیں گے اور حکومت منہ دیکھتی رہ جائے گی۔

یہ واقعی ایک نیا پاکستان ہے اور قوم اس پاکستان پر جتنا بھی فخر کرے وہ کم ہو گا لیکن اس کے باوجود سوال یہ ہے کیا اس نئے پاکستان میں ججز بدستور مقدس گائے رہیں گے؟ کیا یہ انصاف ہے آپ جرمنی کے ایک اخبار میں شایع ہونے والی خبر کی بنیاد پر وزیراعظم کے خلاف جے آئی ٹی بنا دیں‘ آپ اسے اقامہ چھپانے کے جرم میں گھر بھجوا دیں اور آپ اسے ہفتے میں چار چار دن خاندان سمیت احتساب عدالت میں طلب کر لیں لیکن جب ایک ایڈیشنل سیشن جج ہائی کورٹ کے دو معزز ججوں اور رجسٹرار کے سامنے رشوت لینے کا اعتراف کر لے‘ وہ مان لے مجھ سے فلاں شخص نے یہ کام کرایا تھا‘ مجھے پچاس لاکھ روپے پاکستان میں ادا کیے گئے‘ ڈیڑھ کروڑ روپے لندن میں ملنے تھے اور باقی رقم یہ خود کھا گئے تھے اور وہ بڑی بے چارگی سے کہے ’’سر یہ لوگ بڑے بے ایمان ہیں۔

مجھے انھوں نے صرف پچاس لاکھ روپے دیے‘‘تو انصاف کا بابا رحمتا اسے صرف معطل کر کے خاموش بیٹھ جائے‘ کیا یہ انصاف ہے؟ آپ المیہ دیکھئے‘ جج نے شعیب شیخ کو 31 اکتوبر 2016ء کو رہا کیا ‘ یہ ایشو 7 ماہ بعد مئی 2017ء میں سامنے آیا تھا‘ جج نے جون میں رشوت لینے کا اعتراف کیا اور کمیٹی نے جج کو معطل کر کے ایشو دبا دیا‘ یہ ایشو 8 ماہ خاموش پڑا رہا‘ اگر جج پرویز قادر فیصلہ چیلنج نہ کرتا تو یہ خوفناک اسکینڈل آج بھی فائلوں میں دفن ہوتا‘ قوم کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔

اس ایشو کو چھپانے کا ذمے دار کون ہے‘ اس کا تعین کیوں نہیں کیا جا رہا؟شعیب شیخ کی رہائی کے ذمے دار بھی موجود ہیں‘ رشوت کی رقم بھی‘ جج کا اعتراف بھی‘ ٹیلی فون کالز کا ڈیٹا بھی اور ہائی کورٹ کے دو ججوں کا فیصلہ بھی لیکن راشی جج سے پچاس لاکھ روپے واپس لیے گئے اور نہ ہی جرم کی تحقیقات ہوئیں‘کیوں؟

سوال یہ بھی ہے اس ایشو پر جے آئی ٹی کیوں نہیں بنی‘ اس کے لیے فرانزک ایکسپرٹس کا بندوبست کیوں نہیں کیا گیا‘ یہ کیس نیب اور ایف آئی اے کے حوالے کیوں نہیں کیا گیا اور اس کیس میں ملوث لوگوں کے خلاف انکوائری کیوں نہیں ہوئی؟ ہم ماضی کودفن کر دیتے ہیں‘ ہم سیف الرحمن اور میاں شہباز شریف کی جسٹس ملک قیوم کو ٹیلی فون کالز بھی بھول جاتے ہیں۔

ہم متنازعہ سیاسی فیصلوں پر ججوں پر چمک اور بریف کیسوں کے الزامات بھی بھلا دیتے ہیں‘یہ سب ماضی تھا‘ یہ پرانا پاکستان تھا لیکن پرویز قادر میمن جیسے واقعات کی نئے پاکستان میںکیا ’’جسٹی فکیشن‘‘ ہے‘ ہم اگر ماضی میں جسٹس ملک قیوم جیسے ججوں کی برطرفی کو کافی سمجھتے تھے تو ہم آج بھی یہی کر رہے ہیں‘ ہم ماضی میں جسٹس ملک قیوم اور آج پرویز قادر کی معطلی اور برطرفی کو حتمی سزا سمجھ رہے ہیں‘ کیا یہ انصاف ہے؟

ہم الزام پر وزیراعظم کوگھر بھجوا دیتے ہیں لیکن ہم جج کو رشوت کی رقم سمیت عزت کے ساتھ گھر بھجوا دیتے ہیں‘ کیوں؟ اور دوسرا سوال اگر میاں نواز شریف کی پارٹی صدارت کے ساتھ سینیٹ کے ٹکٹوں سمیت ان کے تمام فیصلے کالعدم ہو سکتے ہیں تو ایک راشی جج کی برطرفی کے بعد اس کے تمام فیصلے کیوں بحال رہتے ہیں‘ وہ تمام فیصلے بھی کالعدم کیوں نہیں ہوتے؟ اس کیوں کا جواب کون دے گا!

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.