اسے دیکھوں یا اس میں ڈوب جاؤں – حسن نثار

hassan-nisar

لفظوں اور انسانوں میں بھی اک خاص قسم کی مشابہت اور مماثلت ہوتی ہے۔ لفظ بھی پیدا ہونے کے بعد بچپن، لڑکپن، جوانی، ادھیڑ عمری اور بڑھاپے سے گزرنے کے بعد موت کے گھاٹ اترتے رہتے ہیں۔ لفظوں کی شکلیں، آوازیں اور معنی بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔

ہرن کو قلانچیں بھرتے دیکھ کر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ قلانچ کا مطلب کیا ہے۔ اک بالغ آدمی جب اپنے دونوں بازو عمودی انداز میں پھیلاتا ہے تو دائیں ہاتھ کی بڑی انگلی سے لے کر بائیں ہاتھ کی بڑی انگلی تک کے فاصلے کو ’’قلانچ‘‘ کہتے ہیں۔

اسی طرح منشی پریم چند جی کے زمانے میں جو ’’پانوں‘‘ تھے اب صرف پائوں رہ گئے اور گانوں کب کا گائوں ہو چکا۔ اسی طرح صبر، ثواب، امیر اور احسان جیسے الفاظ استعمال کرتے ہوئے ان کے اصل معنی ہمارے گمان تک میں نہیں ہوتے۔ لفظ بھی سفر کرتے ہیں اور ان کی بھی تاریخ ہوتی ہے۔

آقاؐ یثرب تشریف لے گئے تو وہ مدینۃ النبی کہلانے لگا یعنی نبی کا شہر، آج ہم صرف ’’مدینہ‘‘ کہتے ہیں تو کافی ہے۔ اسی طرح ’’انتقام‘‘ اردو تک پہنچتے پہنچتے کچھ سے کچھ ہوگیا۔ اور تو اور خود ’’اردو‘‘ کے لفظ کا سفر یا تاریخ ہی دیکھ لیں۔ یہ سنا اور پڑھا کہ روپیہ ’’روپا‘‘ یعنی چاندی کا ہی ایک روپ ہے۔

پچھلے دنوں عید کے چاند نے خاصی رونق لگائے رکھی۔ شریعت VS سائنس اور ٹیکنالوجی جبکہ مجھ جیسا جاہل مسلسل سوچ رہا ہے کہ ان میں تضاد کیوں ہے؟ بے چاری سائنس نے کشش ثقل صرف دریافت کی ہے، ایجاد نہیں کی۔ جیسے ’’ایٹم‘‘ جیسے حقیر ذرے میں انرجی کے طوفان کی بھی صرف پہچان اور نشاندہی کا کریڈٹ ہی سائنس کو جاتا ہے کہ سائنس صرف ’’سہیلی بوجھ پہیلی‘‘ کا کھیل ہے جسے چاہیں تو تفکر اور تدبر یا فراست کہہ لیں۔

اسی لئے ’’اشرف المخلوقات‘‘ کہے اور کہلائے گئے ورنہ زندگی موت اور درمیان میں ری پروڈکشن تو سب ایک سا۔ زمین دہری گھومتی ہے تو گھمانے والے کے حکم پر، سائنس نے تو صرف اور صرف اس کی ’’خفیہ کارروائی‘‘ کا سراغ لگایا اور بس۔

لفظ شریعت کی طرف جانے سے پہلے ’’انما الخمر والمیسر‘‘میں صرف ’’میسر‘‘ پر غور کرتے ہیں جس کا سیدھا سادہ مطلب تو ہوگیا جوا حالانکہ ہر وہ شے میسر ہے جو آپ کو بغیر کسی محنت اور جدوجہد کے حاصل ہو جائے جبکہ دین تگ و دو کی تلقین کرتا ہے۔

میں نے ایک بار کسی انٹرویو میں کہا تھا کہ میں مزدور سے بڑا مزدور ہوں کیونکہ میں لفظوں کی اینٹیں بناتا، چنتا ہوں جو مٹی کی پکی ہوئی اینٹوں سے کہیں زیادہ نازک اور چھوٹی ہوتی ہیں۔ بغیر خون پسینہ بہائے ملنے والا مال کم از کم میرے لئے جوئے کی کمائی جیسا ہی ہے۔ میرا یہ فہم میری ذات کے لئے، کسی پہ تھونپے سے نہ دلچسپی ہے نہ میرا پیشہ۔

البتہ اتنا ضرور کہوں گا کہ ’’خون پسینے‘‘ اور ’’خون جگر‘‘ کی DEFINITION اپنی اپنی ہے کہ آراستہ پیراستہ خوشگوار ماحول والی لیبارٹری میں بھی خون پسینہ ایک کیا جا سکتا ہے۔بات ہو رہی تھی ’’شریعت‘‘ کی- اس قدیم کلاسیکل عربی لفظ کا مطلب کیا ہے؟

دیانتداری سے جان اور سمجھ لیا جائے تو ایمان تازہ، ترو تازہ ہو جائے جیسے ابھی ابھی یہ پھول کھلا ہو۔شریعت ایک ایسے جانے پہچانے مسلسل بہتے پانی کا وہ چشمہ جس کے نہ صرف اوریجن سے آپ واقف ہوں اور وہ کسی کی ایسی ذاتی ملکیت بھی نہ ہو کہ آپ کو اس پانی کے استعمال کی اجازت لینا پڑے۔

(مثال کے طور پر پاکیزہ ہوا)تب اسے عرب شریعت کہتے تھے جس میں مسلسل بہائو بھی بنیادی شرائط میں سے ایک ہے۔ شرح، شارع، شریعہ ایک ہی خاندان کے ارکان ہیں۔ یہاں سب سے دلچسپ، حیرت انگیز، سوچنے پر مجبور کر دینے والی بات یہ ہے کہ اگر یہ مسلسل بہتا ہوا پانی کسی بھی وجہ سے صرف تین دن کے لئے رک جائے تو قدیم عرب اسے شریعہ نہیں کریہہ کہتے تھے یعنی شریعہ کا اینٹنم۔جیسے سفید کا سیاہ، خوشبو کا بدبو۔یہاں تھوڑی سی یاد دہانی کہ صدیوں پہلے جس زمین پر یہ زبان بولی جاتی تھی۔

وہاں پانی کمیاب کیا نایاب اور بے حد قیمتی شے تھی بلکہ اگر اسے زندگی کہہ لیں تو بےجا نہ ہوگا۔

سبحان اللہ شریعت – معلوم SOURCE کامسلسل بہتا چشمہ جوسب کے لئے ہے، کسی ایک کی ملکیت نہیں، ہر کوئی استفادہ کرسکتا ہے۔ نجانے کیوں بار بار میرا دھیان اس چشمے کے مسلسل بہائو کی طرف ہی کیوں جاتا ہے۔یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہےاسے دیکھوں یا اس میں ڈوب جائوں میں تو نالائق اور غیر ذمہ دار سا طلب علم ہوں جو نہیں جانتا کہ یہ چشمہ مسلسل بہہ رہا ہے یا رکا ہوا ہے؟

رکا ہوا ہے تو کب سے رکا ہوا ہے؟ کیوں رکا ہوا ہے؟ اور اس کی روانی کے لئے کیا کرنا ہوگا؟ ان سب سوالوں کے جواب تو کوئی عالم ہی دے سکتا ہے اور میں کب سے منتظر ہوں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

Source: Jung News

Read Urdu column Issay Dekhon ya is main doob jaoon By Hassan Nisar

Leave A Reply

Your email address will not be published.