اتنی گہری لمبی نیند (1) – حسن نثار

hassan-nisar

المیہ انسان کی موت نہیں کہ یہ تو پیکج کا حصہ ہے۔ اصل المیہ تو یہ ہے کہ غیرت بھی مر جائے اور حیرت بھی مر جائے۔ حیران ہوں یہ سوچ کر کہ یہ کوئی ہزار ڈیڑھ ہزار سال یا 500سال پرانی بات بھی نہیں جب یورپ نے کروٹیں بدلنی شروع کیں اور صنعتی انقلاب سے لے کر تجارتی، علمی، ثقافتی انقلاب کا کثیر الجہتی آغاز ہوا تو اس کرۂ ارض کی باقی قومیں کون سی بھنگ پی کر کہاں سو رہی تھیں اور اس طرح سو رہی تھیں کہ ان کے خراٹوں نے ایک دوسرے کی سماعتیں ہی اجاڑ کے رکھ دیں کہ انہیں آج بھی کوئی ڈھنگ کی بات سنائی نہیں دیتی۔ 1790ء میں دنیا سے رخصت ہونے والے اقتصادی جینئس ایڈم سمتھ نے اور بہت کچھ عطا کرنے کے بعد یہ نظریہ بھی پیش کیا کہ دولت کا حقیقی ماخذ زراعت یا معدنیات نہیں بلکہ محنت ہے، تو ظاہر ہے اس میں ذہنی فکری تخلیقی محنت سرفہرست ہے۔ پروفیسر ایڈم کے اس تحفے کے آگے پیچھے ہی صنعتی انقلاب کا ابتدائی مرحلہ ہے جو 1760 سے 1860ء تک کےسالوں پر محیط ہے۔ یہی وہ وقت ہے جب ’’انڈسٹری‘‘ صحیح معنوں میں ’’انڈسٹری‘‘ بننے لگی۔ سوتی کپڑا ہی وہ پہلی صنعت تھی جس میں باقاعدہ ’’مشین‘‘استعمال ہوئی۔ زیادہ سے زیادہ ’’پروڈکشن‘‘ کے حصول کو ممکن بنانے کے 1767ء میں JAWESنے سپننگ جینی ایجاد کی جو دراصل اک ایسا مشینی چرخہ تھا جس میں سولہ تار سوت بیک وقت کاتا گیا۔ صرف 2 سال بعد رچرڈ آرکرائٹ نے واٹر فریم ایجاد کی۔ پھر ایک نئی مشین THE MUB بنی جسے ترقی دیتے ہوئے 20 سال بعد اس قابل بنا دیا گیا کہ یہ بیک وقت عمدہ معیار کے 40 تار دھاگے بیک وقت کاتنے کے قابل ہوگئی۔ 1785ء میں بات پاور لوم کے حقوق حاصل کرنے تک جا پہنچی۔ اسی دوران کپاس کے بنولے سے روئی الگ کرنے والی مشین آئی تو کپڑے کی صنعت کوسستے اور زیادہ خام مال کی فراہمی کا ایک اور اہم مرحلہ طے ہوگیا۔ اسی وقت ایک امریکی سکول ٹیچر ایلی ونٹہی نے اپنی اس مشین کو ’’کاٹن جن‘‘ کا نام دیا۔ کیا دن تھے جب کارٹ رائٹ کی ایجاد کردہ ’’لوم‘‘ کو چلانے کےلئے گائے گھوڑا اور کتا تک بھی جوتا گیا۔

دوسری طرف سٹیم انجن کو انڈسٹری کیلئے استعمال کرنے والا پہلا شخص THOMAS NEWCOMENتھا۔ سٹیم انجن کی بدولت توانائی کا ایسا ذریعہ ملا جسے جب اور جہاں چاہیں استعمال کرلیں۔ واٹ کا انجن میکانی پاور کے دور کا نقطہ آغاز تھا۔ سٹیم سے چلنے والی پہلی ریل کا سہرا جارج سٹیفن سن کے نام ہے جو ایک خود آموز انجینئر تھا۔ اس نے 1825ء میں سٹاکسٹن اور ڈارلنگنٹن کے درمیان جو ریل چلائی اس کی رفتار 15 میل فی گھنٹہ تھی اور انسان نے اس سے پہلے کبھی اس ’’تیز رفتاری‘‘ کے ساتھ سفر نہ کی تھا۔ واہ اشرف المخلوقات واہ۔ کچھ قومیں ہیں جو رکنے کا نام نہیں لے رہیں اور کچھ قومیں ہیں جو چلنے کا نام نہیں لے رہیں۔ آج ریل کی سپیڈ سنیں تو جسم میں سنسناہٹیں دوڑنے لگتی ہیں۔

صنعتی انقلاب کے پہلے فیصلہ کن تاریخ ساز تاریخ شکن مرحلہ میں ذرائع ابلاغ کے حوالہ سے سب سے بڑی ایجاد ٹیلی گراف تھی جسے فرانسیسی طبیعات دان ایمپیئر نے 1820ء میں دریافت کرلیا تھا کہ دو مقامات کے درمیان پیغام رسانی کیلئے برقی مقناطیسیت کو استعمال کیا جا سکتا ہے جسے ELECTRO MAGNETISM کہا جاتا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے جب 1837ء میں ٹیلی گراف کے 3نظام سامنے آ چکے تھے یعنی پاکستان بننے سے صرف 110سال پہلے کی بات ہے۔

جب صنعتی تجارتی انقلاب شروع تھا تو زراعت اور کاشتکاری میں بھی قیامتیں بپا تھیں۔ MANORIAL فارمنگ توڑی جا رہی تھی۔شاملات کی حد بندی ہو رہی تھی۔ انفرادی ملکیتوں کا اشتمال ہو رہا تھا۔ جانوروں کی مخلوط نسل کشی ہو رہی تھی اور ’’جانوروں‘‘ کواس کا علم تک نہ تھا۔ چقندرجیسی نئی فصلیں متعارف ہو رہی تھیں۔ وان لیبگ (1873) نے زرعی کیمیا پر کام شروع کر رکھا تھا جس سے مصنوعی کھاد کا استعمال شروع ہوا۔ کاشتکاری میں مشینوں کا رجحان بڑھا۔ 1834ء میں امریکی کسان سائرس مکارک اپنا میکانی ’’ریپر‘‘ پیٹنٹ کروا چکا تھا۔

چلتے چلتے اس قسط کے آخرپر یہ بھی شیئر کرتا چلوں کہ جب 1857ء کی جنگ آزادی کا آغاز میرٹھ چھائونی سے ہوا تو بذریعہ ٹیلی گراف برطانوی فوج کو فوراً اس کی خبر مل گئی یعنی اگر 1837ء میں ٹیلی گراف موجود نہ ہوتا تو کیا انگریز کو منصوبہ بندی اور ’’باغیوں‘‘ سے نمٹنے کےلئے مناسب مہلت مل سکتی تھی؟

ہمیں جو کام 100 سال پہلے کرنا تھے ہم آج بھی نہیں کر رہے اور جو آج کرنا ضروری ہے وہ ہم 100 سال بعد بھی نہیں کریں گے۔ چند صدیوں میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم ؟؟؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

Source: Jung News

Read Urdu column Itni Ghehri Lambi Neend By Hassan Nisar

Leave A Reply

Your email address will not be published.