جب ڈالر مہنگا ہوتا ہے- علی معین نوازش

ali-moeen-nawazish

گزشتہ برس جب سارا کراچی شہر بارش کے پانی میں ڈوب گیا تو چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا ایک جملہ ’’ جب بارش آتی ہے تو پانی آتا ہے ، جب زیادہ بارش آتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے‘‘بہت وائرل ہوا۔ اُن کے اِس جملے پر اُن کا بہت زیادہ مذاق بھی اُڑایا گیا اور اُن کی ایسی بیان بازی کی شدید مذمت بھی کی گئی۔ اب جبکہ آئے روز روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے تو عوام کے ذہن میں یہ سوال بھی پیدا ہوتاہے کہ ’’جب ڈالر مہنگا ہوتا ہے تو اوورسیز پاکستانیوں کو فائدہ ہوتا ہے، جب ڈالر زیادہ مہنگا ہوتا ہے تو اوور سیز پاکستانیوں کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے‘‘، کیونکہ گورنر اسٹیٹ بینک نے برطانیہ میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اضافے کے حوالے سے کہا ہے کہ ڈالر مہنگا ہونے سے جہاں عوام کو معاشی طور پر نقصان اُٹھانا پڑتا ہے وہیں اوورسیز پاکستانیوں کو اِس کا فائدہ بھی ہوتا ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک کے اِس بیان کا بھی اُتنا ہی مذاق اڑایا گیا جتنا بلاول بھٹو زرادری کے بارش اور پانی والے بیان کا اُڑایا گیا تھا، کیونکہ سچائی اِس کے بر عکس ہے۔ میں نے جتنے بھی اوورسیز پاکستانیوں سے پوچھا کہ ’’کیا روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اضافے سے وہ واقعی فائدے میں رہتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں؟‘‘تو اُن کا جواب نفی میں تھا، وہ اِس نظریے سے بالکل متفق نظر نہیں آئے۔

بیرونِ ملک مقیم مزدور طبقہ، جو محنت مزدوری کر کے بمشکل چند سو ڈالر ماہانہ اپنے اہلِ خانہ کو بھیج پاتا ہے، کا اِس حوالے سے کہنا ہے کہ جہاں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے اُن کے پاکستان بھجوائے جانے والے چند سو ڈالر ہزاروں پاکستانی روپوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں وہیں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے پاکستان میں مہنگائی میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ آئے روز اشیائے ضروریہ کی قیمتوں، بجلی کے بلوں ،پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں، ٹرانسپورٹ کے کرایوں اور اسکولوں اور کالجوں کی فیسوں میں ہونے والا اضافہ اُن کے اِس فائدے کی نفی کر دیتا ہے۔ پھر اووسیز پاکستانیوں میں ایک بڑی تعداد ایسے مزدور طبقے کی ہے جو ایسے ممالک میں قیام پذیر ہے جو کسی طور اُنہیں اپنی شہریت نہیں دیتےاِس لئے ایسے کسی ملک میں کوئی جائیداد خرید سکتا ہے اور نہ ہی کوئی کاروبار کر سکتا ہے لہٰذا وہ اپنی ساری کی ساری کمائی اور جمع پونجی پاکستان بھجواتا ہے اور اُس سے پاکستان میںجو اثاثے بناتا ہے ان کی قدر و قیمت بھی روپے کی قدر کم ہونے سےکم ہو جاتی ہے۔ آخر کار اِس مزدور طبقے نے ساری زندگی کام تھوڑا ہی کرنا ہے ، اُن کی زندگی کے آخری ایام کا انحصار اِنہی اثاثوں پر ہوتا ہے۔

روپے کی قدر کم ہونے سے شاید سرمایہ دار طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ بالخصوص وہ اوور سیز پاکستانی جنہوں نے محنت کرکے بیرونِ ملک اچھے پیسے کمائے ہوتے ہیں لیکن وطن کی محبت میں وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرتے یا پراپرٹی خریدتے ہیں۔وہ نہ صرف خود سرمایہ کاری کرتے ہیں بلکہ اپنے تعلق داروں کو بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کا مشورہ دیتے ہیں۔لیکن جب اِتنا سرمایہ لگانے کے بعد وہ اپنے کل منافع کا حساب لگاتے ہیں تو ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتےہیں کہ ہم نے یہی سرمایہ پاکستان سے باہر جائیداد خریدنے یا کاروبار شروع کرنے پر کیوں نہ صرف کیا؟ میری جب کینیڈا میں مقیم پاکستانیوں سے اِس حوالے سے بات ہوتی ہے تو وہ پچھتاتے ہیں کہ ہم نے کینیڈا میں رئیل اسٹیٹ کے بزنس میں لاکھوں ڈالر لگانے کی بجائے پاکستان کیوں بھیجے کیونکہ کینیڈا میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے جبکہ پاکستان میں لگایا جانے والا سرمایہ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے منافع دینے کی بجائے اپنے اصل سے بھی کم رہ گیا ہے۔یہی وجہ سے کہ اووسیز پاکستانیوں کی اکثریت اب پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری سے توبہ کر چکی ہے۔

پاکستان میں کام کرنے والی بیرونی کمپنیوں اور سرمایہ داروں کو بھی یہی مسئلہ درپیش ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے اُن کے منافع کی شرح متاثر ہوتی ہے جس کی وجہ سے نئی کمپنیاں بھی یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ہمیں پاکستان میں سرمایہ کاری کرنی چاہئے یا نہیں۔ اِس لئے ضروری نہیں کہ ڈالر مہنگا ہونے سے اووسیز پاکستانیوں کو فائدہ ہی پہنچتا ہے بلکہ اُنہیں بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کوئی بھی کاروباری شخص یا سرمایہ دار ہو دراصل اُس کے لئے سب سے اہم چیز تسلسل ہوتا ہے، جو روپے کی قدر مسلسل کم ہونے، ڈالر کی قدر میں اچانک اور بار بار اضافے کی وجہ سےاُسے نہیں مل پاتا اور جو مہنگائی اور نقصان عام آدمی کو جھیلنا پڑتا ہے وہ علیحدہ ہے۔ کیونکہ روز افزوں بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے عام آدمی کی آمدنی بھی شدید متاثر ہوتی ہے۔

اقتدار میں آنے سے پہلے جب بھی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوتا تھا تو سب سے پہلے عمران خان اور پی ٹی آئی کی باقی قیادت اپنی پریس کانفرنسز میں بولتی تھی کہ ڈالر مہنگا ہونے سے ملک میں مہنگائی بڑھتی ہے، ہمارا قرض زیادہ ہو جاتا ہے، پیٹرول مہنگا ہو جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔اب اُسی عمران خان اور پی ٹی آئی کی حکومت میں ڈالر آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔ اِنہی کے دورِ حکومت میں ایک ڈالر 128سے شروع ہو کر 175روپے تک پہنچ چکا ہے۔اگر آپ کی ساری جمع پونجی روپوں میں تھی تو گزشتہ تین سال کے دوران آپ کے اثاثوں کی کل مالیت میں 35فیصد کمی ہو چکی ہے۔ اب ڈالر کی سطح کا تعین کرنا اتنا آسان نہیں ہے، کیونکہ اب اِس میں آئی ایم ایف کی شرائط کے علاوہ بھی بےشمار عوامل شامل ہیں لیکن پالیسی کا تسلسل اور عوام کے لئے آسانیوں کو مدِ نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔پی ٹی آئی کی حکومت ہمیں ان تین برسوں میں ایک معاشی رولر کوسٹر پر لے گئی ہے۔ پہلے معیشت کو بری طرح دبایا گیا، پھر معیشت کو بڑھانے کا خیال آیا اور اب پھر سے معیشت کو دبایا جا رہا ہے۔ ہماری معاشی پالیسیاں طویل مدتی اور مستقل ہونی چاہئیں جو ملک کو حقیقی معنوں میں آگے لے کر جائیں نہ کہ قلیل مدتی اور سیاسی دبائو پر مبنی ہوں۔ ایسے وقت میں کہ جب عوام مہنگائی کی چکی میں پِس رہے ہیں اور ڈالر کی مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے تو یہ کہنا بےجا ہوگا کہ ڈالر کی قدر میں اضافے سے اوورسیز پاکستانیوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ ملک کی اکثریت ایسی ہے جس نے پاکستان میں رہ کر اپنا ذریعہ معاش کمانا ہوتا ہے اور روپے کی قدر میں کمی سے اُنہیں نقصان اُٹھانا پڑتا ہے اور جب تک ہماری حکومت طویل مدتی معاشی پالیسیاں متعارف نہیں کرواتی شاید تب تک اُنہیں نقصان ہی اُٹھانا پڑے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

Must Read Urdu column Jab Dollar Mehanga hota hai By Ali Moeen Nawazish
Source: Jang

Leave A Reply

Your email address will not be published.