جب ترے شہر سے گزرتا ہوں – حسن نثار

hassan-nisar

میرے اصل آبائی شہر تو جالندھر، امرتسر اور لدھیانہ ہیں۔ میں تو پارٹیشن کے چند سال بعد اِس ’’آزاد‘‘ ملک میں پیدا ہوا اور آج لکھوں تو سوائے اِس کے کیا لکھوں کہ لائل پور میرا آبائی شہر ہے۔ چند روز قبل لائل پور جانا ہوا تو حیرت و حسرت سے سوچا کہ یہ پورا شہر مجھے جانتا ہے لیکن مجھے جاننے والا یہاں کوئی نہیں۔ نہ صفدر سعید ہے، نہ خلیل، نہ افضل ایاز ہے، نہ وحید، نہ پی جی المعروف نصرت فتح علی خان ہے، نہ اُس کا بھائی فرخی، نہ اصغر بلو ہے، نہ بھائی جان جاوید، نہ اعظم، نہ کاظم اور نہ ارشد چوہدری جو سکول سے کالج تک میرا ساتھی رہا۔ پھر وہ جی سی لاہور، میں نیو کیمپس آ گیا لیکن ہم زندگی بھر یک جان دو قالب رہے۔ وہ ہاکی کا سپر سٹار تھا۔ اختر رسول کا کزن اور بہنوئی بھی۔ اُس کے چچا سابق آئی جی پنجاب چوہدری امین کی موت کے بعد اُن کی آپ بیتی کا نام ہی نہیں، دیباچہ بھی میں نے لکھا۔ وہ میرے بابا کا فیورٹ اور میں اُس کے بزرگوں کا لاڈلا تھا اور پھر چند روز پہلے ایک تقریب میں اختر رسول گلے ملا تو میں اُس وقت تک اُسے پہچان نہ سکا جب تک اُس نے ارشد کا ذکر نہیں چھیڑا… یہی زندگی ہے جو جلادوں سے زیادہ سنگدل ہوتی ہے۔ آج لائل پور کے گھنٹہ گھر سے لے کر شاہراہیں، بازار اور گلیاں تک مجھ سے پوچھتی ہیں ….’’تو کون ہے؟‘‘

اجنبی شہر یہ نسبت تو رہے گی تجھ سے

تیری گلیوں میں ہے کھویا ہوا اپنا کوئی

اپنا کیا، ان گلیوں، سڑکوں، بازاروں میں تو میرا اپنا آپ کھویا ہوا ہے۔ میرا بچپن، لڑکپن، میری ٹین ایج کا ایک حصہ اِسی شہر کی گود میں ہمک رہا ہے۔ اِسی شہر کی سڑکوں پر میں نے چھٹی جماعت میں گاڑی چلانا سیکھا اور وہ بھی اپنے بابا سے چوری اور جب پکڑا گیا تو پہلی یادگار پٹائی ہوئی۔ ہمارا ایک گھر سرکلر روڈ پر تھا جسے ریگل روڈ بھی کہتے ہیں، دوسرا پیپلز کالونی میں جہاں کم کم جانا ہوتا کیونکہ جاتے تو پھپھو کے گھر جو آج بھی موجود ہے۔ 308ڈی بلاک پیپلز کالونی…. جو آج سے پچاس سال پہلے بھی ’’سفیدیاں والی کوٹھی‘‘ کے نام سے مشہور تھا جس کے چاروں طرف یوکلپٹس کے قد آور درخت تھے۔ بڑے بڑے برآمدوں والا یہ گھر مسمار ہونے کے بعد ایک بیسمنٹ والے ماربل زدہ گھر میں تبدیل ہو چکا اور میرے پھپھی زاد بھائی جاوید کو اِس دنیا سے رخصت ہوئے بھی تقریباً دو سال بیت چکے کہ وہ کزن کم، دوست زیادہ تھا اور میں نے زندگی بھر اُن جیسا کوئی دوسرا نہیں دیکھا۔ اعلیٰ ترین تعلیم یافتہ جاوید بھائی نے زندگی سیاحت کے نام وقف کر رکھی تھی۔ دنیا کا کون سا ملک ہے جہاں وہ کئی کئی بار نہیں گئے اور ہر بار مختلف موسموں میں گئے۔ میں اکثر کہتا ’’بھائی جان! سفر نامے لکھیں‘‘ تو ہنس کر کہتے ’’میں دنیا اپنے لئے دیکھتا ہوں، دنیا کیلئے نہیں‘‘۔ کوئی عیب تھا تو صرف ایک کہ میرے والد یعنی اپنے ماموں کی طرح ’’چین سموکر‘‘ تھے اور پھر یہی شوق اُن کی قیمتی جان لے گیا۔ دوسرا جنون تھا شجر کاری۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی دوسرا شخص ہو جس کے پاس ’’کیکٹس‘‘ کی ایسی زبردست کلیکشن ہو جس کی دیکھ بھال مالی نہیں، خود کرتے۔ ڈسپلن ایسا کہ بیٹے کی شادی پر بارات لیٹ ہوئی تو چپکے سے لباس تبدیل کیا اور بیٹے کی بارات کے ساتھ جانے سے صاف انکار کر دیا کہ جسے پابندیٔ اوقات کی پروا نہیں وہ مسلمان تو کیا، انسان بھی نہیں۔ جب اولڈ کیمپس میں ایم ایس سی کیمسٹری کر رہے تھے تو ایمپریس روڈ پر مجیٹھیا ہال اُن کا ہاسٹل تھا۔ دلدار پرویز بھٹی اُن کا ہاسٹل فیلو تھا۔ اپنے ویسپا سکوٹر پر دو دو، تین تین دوستوں کو بٹھا کر گھماتے، تب کے انٹرکانٹی نینٹل میں عیاشی کراتے لیکن خود زندگی بھر مجال ہے جو سگریٹ کے علاوہ کسی شے کو ہاتھ بھی لگایا ہو۔

عجیب آدمی تھا، عجیب شہر تھا، عجیب رشتے تھے جو لائل پور کے اِس مختصر سے پھیرے نے صرف یاد ہی نہیں دلائے، نجانے کتنے زخم بھی ہرے کر دیے۔ سگریٹ نوشی کے علاوہ اک اور کمزوری بھی تھی جو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو گئی اور وہ تھی خوش لباسی۔ قیمتی ترین لباس، جوتے، گھڑیاں، سواریاں لیکن عمر کے آخری 8، 10برسوں میں وہ ہر شے سے بےنیاز ہو چکے تھے… کتابوں کے سوا اور کسی شے سے کوئی لمبی چوڑی دلچسپی نہیں تھی اور’’آخرت‘‘ سے زیادہ فکر اِس بات کی تھی کہ میرے بعد میری ’’کیکٹس کلیکشن‘‘ کو کون سنبھالے گا؟ میرا اور صفدر سعید مرحوم کا پسندیدہ ’’جہانگیر مرغ پلائو‘‘ موجود ہونے کے باوجود موجود نہیں کیونکہ اب اِس پلائو میں دیسی مرغ نہیں پولٹری کا ’’پھوکا‘‘ مرغ استعمال ہوتا ہے۔ گھنٹہ گھر قائم و دائم ہے لیکن میرے وہ سب ساتھی بکھر چکے یا ہمیشہ کے لئے بچھڑ چکے جو کبھی بطور سکائوٹس یہاں ٹریفک کنٹرول کیا کرتے اور لوگ ہم بچوں کے ساتھ شفقت بھرا تعاون کیا کرتے۔ پھر نہ بوائے سکائوٹس رہے، نہ اُس سبھائو جیسے لوگ۔

جب ترے شہر سے گزرتا ہوں

جانے کیا کیا خیال کرتا ہوں

وہ زمانہ تری محبت کا

ایک بھولی ہوئی کہانی ہے

کس تمنا سے تجھ کو چاہا تھا

کس محبت سے ہار مانی ہے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

Source: Jung News

Read Urdu column Jab teray Shehar se Guzarta hun By Hassan Nisar

Leave A Reply

Your email address will not be published.