کپڑوں سے کفن تک – حسن نثار

hassan-nisar

نجانے کتنے لوگ ہیں جن پر تہوار بھی تلوار بن کر گرتے ہیں۔ گزشتہ دو دن لکھنے کو دل ہی نہیں چاہا۔ مسلسل یہی سوچتا رہا کہ یہاں کسی کے کچھ بھی کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

بڑھکیں سننے اور بدسے بدتر ہوتا دیکھنے کی عادت نے بے حسی سی طاری کردی ہے لیکن اس بے حسی میں بھی شیخوپورہ میں عید کے کپڑے مانگنے پر بے روزگار بے بس باپ نے ذہنی توازن کھو کر چار بچوں کو دھوکہ دے کر بھکھی نہر میں پھینک دیا تو رہا نہیں گیا۔

قتلِ طفلاں کی منادی ہو رہی ہے شہر میں ماں! مجھے بھی مثلِ موسیٰ تو بہا دے نہر میںکسی اور نے کہا تھا …..لرزاں لرزاں ہے مقتلوں کی فصیل کوئی صندوق ہے برآبِ نیل کپڑے تو کیا، آخری اطلاع تک ان بچوں کو کفن تک نصیب ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ لاشیں نہیں مل رہیں۔

یہاں کوئی چن زیب خود سوزی کرے یا باپ بچے دریا برد کردے، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ملزم محسن کئی مہینوں سے بے روزگار تھا۔ بچے مسلسل عید پر نئے کپڑوں کا تقاضا کر رہے تھے لیکن جو بچوں کو دو وقت کی روٹی نہ دے سکتا تھا، نئے کپڑے کہاں سے لاتا۔

اس کے اعصاب اس حد تک جواب دے گئے کہ کپڑے دلانے کا بہانہ کرکے بچوں کو نہر کی طرف لے گیا اور جویریہ، نمرہ، عروہ اور ذوالقرنین کو سپرد آب کردیا۔ ’’خس کم جہاں پاک‘‘۔

خبروں میں محسن کو سفاک، بدبخت اور ظالم باپ وغیرہ لکھا گیا ہے تو بہت ممکن ہے یہی سچ ہو لیکن ایک اور سچ بھی ہے کہ افلاس، بھوک، ننگ سے زیادہ بے رحم شے کوئی نہیں جو انسان کو حیوان بنا کر کسی بھی حد تک لے جاسکتی ہے اور اسی لئے افلاس سے پناہ مانگی گئی۔ وسائل کی غیر منصفانہ بلکہ سفاکانہ تقسیم معاشرہ کو وہاں تک لے آئی ہے جہاں آگے کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا اور اس سے بھی کہیں بڑی ٹریجڈی یہ ہے کہ اب بھی مختلف قسم کی ’’اصلاحات‘‘ کا لاحاصل رونا رویا جا رہا ہے حالانکہ یہ آدم خور نظام اصلاحات کا کیس ہی نہیں رہ گیا۔

نام نہاد اصلاحات ان حالات کا علاج نہیں مثلاً آج کل انتخابی اصلاحات کا بہت چرچا ہے اور میں یہ سوچتا ہوں کہ ان اصلاحات کے نتیجہ میں زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا یا ہوسکتا ہے؟ سوائے اس کے کہ بھیڑیئے کی جگہ تیندوا یا کوئی ریچھ آگے آ جائے گا۔

جب تک بنیادی جوہری تبدیلی نہیں ہوگی، ان آرائشی، زیبائشی، سطحی تبدیلیوں سے کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا۔

وکٹر ہیوگو نے کہا تھا کہ جب انسان مساوی طریقہ پر پیدا ہوتے ہیں اور مرنے کے حوالہ سے بھی مساوی ہوتے ہیں تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ درمیانی وقفہ یعنی زندگی بھی مساویانہ انداز میں کیوں نہ گزاریں۔

یہ سوچ ’’انتہا پسندانہ‘‘ ہوسکتی ہے کیونکہ انسان اپنی اہلیتوں، صلاحیتوں میں فرق کی وجہ سے مساوی نہیں ہوتے لیکن یہ بھی طے ہے کہ بنیادی ضروریات کے حوالہ سے مساوی ہوتے ہیں اور سچ یہ ہے کہ انسانوں کی بھاری ترین اکثریت اس کے علاوہ چاہتی بھی کچھ نہیں۔ طاقت، دولت، شہرت کے شوقینوں یا جنونیوں کی تعداد ہمیشہ آٹے میں نمک کے برابر ہی ہوتی ہے۔

عام آدمی کو بیان کرتے ہوئے نثار ناسک مرحوم نے کیا خوب صورت صحیح نقشہ کھینچا ہے۔ دل میں اب تک جل رہی ہیں آرزو کی دو لوویںایک وہ پیاری سی لڑکی ایک وہ چھوٹا سا گھرانسانوں کی بھاری اکثریت انوکھے لاڈلوں کی نہیں ہوتی جو کھیلن کو چاند مانگے۔

بس وہی روٹی کپڑا ،مکان، بیمار ہوں تو روٹین کا علاج مل جائے اور اولاد ہو تو اسے مناسب علم و ہنر مل جائے۔

حکمران خود غرض اور احمق نہ ہوں تو ہر انسانی معاشرہ، ملک اس قابل ضرور ہوتا ہے کہ ہر کسی کو بنیادی ضروریات مہیا کر سکے لیکن اس کے لئے ہم جیسے غیر منصفانہ نظام میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

’’اصلاحات‘‘ سے حالات کبھی تبدیل نہیں ہوں گے کیونکہ جزوی قسم کی اصلاحات گندے کنوئیں سے پانی کے ڈول نکالنے کے مترادف ہے ….. کتا نکالوگے تو بات بنے گی ورنہ ہر چوراہے سے تیل بھی نکل آئے تو بھی چن زیب خود سوزیاں کرتے رہیں گے اور محسن اپنے بچے مارتے رہیں گے۔

عید پر نئے کپڑے مانگنے والے بچوں کو کفن بھی نصیب نہ ہوسکیں گے لیکن کچھ لوگوں کی سوچوں پر کفن پڑے ہوئے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

Source: Jung News

Read Urdu column Kapron se KAfan tak By Hassan Nisar

Leave A Reply

Your email address will not be published.