خدّامِ پاکستان و عوام – ڈاکٹر عبد القدیر

dr-abdul-qadeer-khan

پاکستان کو اللہ رب العزّت نے ناصرف لاتعداد قیمتی قدرتی وسائل عطا فرمائے ہیں بلکہ ذہین بچے، نوجوان اور عوامی خدمت سے سرشارافراد بھی عطا فرمائے ہیں۔ میں ان مخیر حضرات کے نام لکھنے سے گریز کررہا ہوں کہ بہت سے اچھے کھاتے پیتے بھی جھوٹی کہانیاں بنا کر ان کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔ عوامی خدمت میں ہم مرحوم عبدالستار ایدھی کو کبھی نہیں بھول سکتے۔ ان کو نوبیل پرائز نہ ملنے کے پیچھے مغربی ممالک کا مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک ہے۔ بالکل اسی طرح محترمہ بینظیر بھٹو کو نظرانداز کیا گیاجبکہ برما کی آنگ سان سوچی کو یہ انعام دے دیا گیا تھا۔ دونوں کی خدمات اور قربانیوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آپ سے میں دو نہایت قابل تحسین اور قابل فخر پاکستانیوں کی عوامی خدمات کی مناسبت سے تعارف کرارہا ہوں۔

(1)کراچی میں ایک نہایت اعلیٰ فلاحی اسپتال انڈس اسپتال کے سربراہ عبدالباری خان ایک مسیحا ہیں۔ میں اس اسپتال سے شروع سے ہی واقف ہوں۔ امارات میں پریکٹس کرنے والے ڈاکٹر قاضی نے اس کی بنیاد ڈالی تھی بعد میں ایک گروپ نے اس کا ’’انتظام سنبھال‘‘ لیا۔ جب میں نے دورہ کیا تھا اس کی بہت بُری حالت تھی صرف نرسنگ ٹریننگ اسکول چل رہا تھا۔ مجھے اس وقت اس کی سرپرستی سونپی جارہی تھی مگر میں بے حد مصروف تھا اور قبول نہ کرسکا۔ بعد میں اس کی جدید بنیادوں پر تعمیر کی گئی اور اس میں میرے نہایت عزیز دوست سردار یٰسین ملک نے بڑا کردار ادا کیا۔ اس وقت اس اسپتال کے سربراہ عبدالباری خان ہیں، ان سے اکثر ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔ آج ان کے بارے میں آپ کو کچھ بتانا ہے۔

1981 میں عبدالباری خان کا داخلہ ڈائو میڈیکل کالج میں ہوگیا۔ یہ صرف ہونہار ہی نہیں تھے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے سینے میں جو دل دیا تھا اس کی نرمی بھی اللہ کم ہی لوگوں کو نصیب کرتا ہے۔ یہ 1986 تک ڈائو میڈیکل کالج کے طالب علم رہے لیکن ان پانچ سالوں میں انہوں نے خدمت کے بے شمار کارنامے انجام دیئے۔1987میں سولجر بازار میں دھماکہ ہوا تو عبدالباری اپنے چند دوستوں کے ساتھ لاشوں کے درمیان میں سے زخمیوں کو نکال کر لائےجبکہ سول اسپتال کا ایمرجنسی وارڈ اپنے بستروں کی کمی کی شکایت کررہا تھا۔ اس کے بعد عبدالباری نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر گھر گھر اور در در جاکر بھیک مانگی۔ 32 لاکھ 74 ہزار پانچ سو روپے کی خطیر رقم جمع ہوگئی اور اس طرح سول اسپتال کے بہترین ایمرجنسی وارڈ کا افتتاح ہوگیا۔ انہوں نے دوران طالبعلمی اپنے دوستوں کی مدد سے پیشنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی جو پیسے جمع کرکے اندرونِ سندھ اور کراچی کے مختلف علاقوں سے آئے مفلوک الحال اور مفلس لوگوں کے علاج معالجے کا بندوبست کیا کرتی تھی۔

اس دوران ان کو یہ احساس ہو ا کہ بلڈ ڈونیشن کا واحد ذریعہ چرسی، ہیرونچی اور موالی ہیں اور ایک دن وہ بھی پیسوں کی کمی کی شکایت پر ہڑتال پر چلے گئے، اسپتال میں موجود مریض بے یارومددگار، بے بسی و بے کسی کی تصویر بنے پڑے تھے۔ تب عبدالباری خان نے پہلے بلڈ بینک کا بھی آغاز کردیا۔ اس وقت عبدالباری نے اپنے مزید تین دوستوں کے ساتھ مل کر عہد کیا کہ ’’ایک دن آئے گا جب اسی شہر میں ایک ایسا اسپتال بنائیں گے جہاں سب کا علاج بالکل مفت ہوگا‘‘۔ عبدالباری نے اپنی پروفیشنل زندگی کا آغاز کراچی سے کیا اور ساری زندگی کراچی میں ہی گزار دی لیکن باقی تینوں دوست مزید تعلیم کے لئے دنیا کے مختلف ممالک روانہ ہوگئے۔

17سال بعد 2004 میں باقی تینوں دوست واپس کراچی آئے عبدالباری سے ملاقات کی اور زمانہ طالب علمی کا عہد یاد دلایا اور اس طرح دونوں ٹانگوں سے معذور باپ کی تہجد میں مانگی گئی دعا ’’یااللہ! میرے بیٹے عبدالباری کو خدمت خلق کے لئے قبول کرلے‘‘ رنگ لے آئی۔ 2004 میں کورنگی کریک میں بیس ایکڑ کی جگہ پر پاکستان کے ’’بالکل مفت‘‘ اسپتال کی تعمیر شروع ہوگئی۔ بالآخر 2007 جولائی میں ’’انڈس اسپتال‘‘ کا آغاز ہوگیا۔ اسپتال میں ڈیڑھ سو لوگوں کے ایڈمٹ کرنے کا انتظام تھا، اسپتال کا بجٹ شروع میں 8 کروڑ روپے تھا۔ تعمیر کے وقت اور افتتاح کے بعد بھی لوگ عبدالباری سے کہتے یہ اسپتال نہیں چل سکے گا کچھ ہی عرصے بعد تم فیس رکھنے پر مجبور ہوجائو گے لیکن اللہ پر آنکھیں بند کرکے یقین کرنے والوں اور دیوانہ وار اپنے مشن سے محبت کرنے والوں کی ڈکشنری میں ’’ناممکن‘‘ کا لفظ نہیں ہوتا ہے۔150 بستروں کا اسپتال پہلے 300 کا ہوا، اس سال یہ اسپتال 1000 بیڈز تک کردیا جائے گا اور 2024 تک 18 سو افرادکے لئے اس اسپتال میں علاج کا بالکل مفت انتظام ہوگا۔ یہ پاکستان کا نہ صرف بہترین سہولتوں سے آراستہ اسپتال ہے بلکہ اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ اس پورے اسپتال میں کوئی کیش کائونٹر موجود نہیں ہے، یہ پیپر لیس بھی ہے۔ مریض سے لے کر ڈاکٹر تک کسی کو پرچی کی ضرورت نہیں پڑتی آپ کا پیشنٹ نمبر ہرجگہ آن لائن اسکرینز پر آپ کی رپورٹ اور کارکردگی دکھا دیتا ہے۔پچھلے گیارہ سالوں میں کوئی مریض پیسے نہ ہونے کی وجہ سے واپس نہیں گیا، امیر و غریب سب ایک ہی لائن میں کھڑے ہوتے ہیں۔ ’’پہلے آئیے اور پہلے پائیے‘‘ کی بنیاد پر علاج ہوتا ہے، دماغ کے علاوہ انسانی جسم کے تمام ہی اعضا ء کا ٹریٹمنٹ کیا جاتا ہے۔

اسپتال کا بجٹ 15 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے لیکن کمال یہ ہے کہ اس خطیر رقم کا 92 فیصد پاکستان سے اور اس کا بھی 50 فیصد سے زیادہ کراچی پورا کرتا ہے، 70 فیصد لوگ اپنے نام کی جگہ ’’عبداللہ‘‘ بتا کر کروڑوں کی رقم جمع کرواتے ہیں اور جنت میں اپنے لئے پلاٹ پر پلاٹ بک کرواتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالباری کے پاس بھی ہر ڈاکٹر کی طرح دو آپشنز موجود تھے، 1987 میں ہائوس جاب کرنے کے بعد امریکہ یا یورپ چلے جاتے ایک عیاش زندگی گزارتے، روز صبح اے سی والے کمرے میں چائے کا ’’سپ‘‘ لیتے ہوئے اور رات کو کسی ریسٹورانٹ یا بوفے کی ٹیبل پرپاکستان، پاکستانی قوم اور یہاں کے حالات کو کوستےرہتے اور ایک ’’معزز شہری‘‘ بن کر دنیا سے رخصت ہوجاتے، دوسرا آپشن وہ تھاجو انہوں نے اپنے لئے منتخب کیا۔ اس دنیا میں سب سے آسان گیم ’’بلیم گیم‘‘ ہے۔ آپ کو ہمیشہ دو قسم کے لوگ ملیں گے۔ ایک وہ جو ہمیشہ مسائل کا ہی رونا روتے ہیں ان کو ہرجگہ صرف مسائل ہی مسائل نظر آتے ہیں وہ اس مکھی کی طرح ہوتے ہیں جو 86 آنکھیں رکھنے کے باوجود بھی بیٹھتی صرف گندگی پر ہی ہے، اور دوسری قسم ڈاکٹر عبدالباری جیسے لوگوں کی ہے ان کی زبان پر کبھی شکوہ اور شکایت نہیں ہوتی ان کی نظر موجودہ وسائل اور اللہ کی ذات پر ہوتی ہے اور کائنات کا اصول یہ ہے کہ آپ ان دونوں میں سے جس چیز کو جتنا بولیں گے اورجتنا سوچیں گے وہی آپ کیساتھ ہونے لگے گا۔

ہم عجیب لوگ ہیں، ہم ساری زندگی ان لوگوں سے دعائوں کا کہتے رہتے ہیں جن میں سے شاید نوے فیصد لوگ کبھی زندگی میں ہمارے لئے دعا ہی نہیں کرتے۔ ہم معصوموں کو معلوم ہی نہیں کہ دعائیں کروائی نہیں، لی جاتی ہیں۔ دعائیں زبان سے نہیں دل سے نکلتی ہیں، رونے والوں کے کام تو سب آجاتے ہیں لیکن جن کے آنسو ہی خشک ہو چکے ہوں جن کا انگ انگ درد و تکلیف میں ہو جو زبان سے بھی کچھ کہنے کے قابل نہ ہوں ان کے کام آنا اصل کام ہے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ’’جو اپنے سارے غموں کو ایک غم یعنی آخرت کا غم بنا لیتا ہے اللہ اس کے دنیا کے غموں کیلئے کافی ہو جاتا ہے‘‘۔ (جاری ہے)

Read Urdu column Khadam pakistan o awam By Dr Abdul Qadeer Khan
source

Leave A Reply

Your email address will not be published.