کھوتے روتے نہیں ہیں – جاوید چوہدری

Javed Chaudhry

مدت پہلے افریقہ کے کسی ملک کے بارے میں پڑھا ‘ اس کے صدر نے فرانس سے نیوی کے لیے دو بحری جہاز خریدے‘ ادائیگی بھی ہو گئی‘ صدر کو ’’کک بیکس‘‘ بھی مل گئیں اور فرنچ کمپنی نے بحری جہاز بھی تیار کر دیے لیکن جب ڈیلیوری کا وقت آیا تو خریدار ملک نے جہاز لینے سے انکار کر دیا‘ فرنچ کمپنی پریشان ہو گئی اور اس نے اپنی ایک ٹیم گاہک ملک کے پاس بھجوا دی۔

ٹیم کی صدر سے ملاقات ہوئی تو صدر نے بتایا آرڈر دینے والا صدر جنرل فلاں خان انتقال کر چکا ہے اور اس کی جگہ اب جنرل نیا خان آ گیا ہے‘ دوسرا ملک میں نیوی نہیں ہے لہٰذا یہ جہاز کس کو ہینڈ اوور کیے جائیں ہم نہیں جانتے اور تیسرا اور آخری مسئلہ ہم ’’لینڈ لاکڈ کنٹری‘‘ ہیں۔

ہمارے پاس سمندر بھی نہیں ہے چناں چہ ہم یہ جہاز لائیں گے کیسے ہم نہیں جانتے لہٰذا اگر کمپنی کے پاس ان مسائل کا کوئی حل ہے تو وہ دے دے‘ ٹیم کے ماتھے پر پسینہ آ گیا اور وہ مایوس ہو کر واپس چلی گئی‘ کمپنی نے جہاز دو تین ماہ اپنے پاس رکھے‘ اس کے بعد مقدمہ چلا اور عدالت نے کمپنی کو دونوں جہاز اس ملک کی قریب ترین بندر گاہ پر کھڑے کرنے کا حکم دے دیا۔

کمپنی نے اس حکم پر جہاز قریب ترین ملک کی بندرگاہ پر کھڑے کیے اور چابیاں خریدار ملک کے سفارت خانے میں ڈراپ کر دیں اور اس کے بعد خریدار ملک اس وقت تک جہازوں کی پارکنگ فیس ادا کرتا رہا جب تک جہاز گل سڑ کر کباڑ نہیں بن گئے‘ کتاب میں اس مثال کے بعد مصنف نے لکھا تھا‘ افریقہ قدرتی وسائل کے لحاظ سے دنیا کا امیر ترین لیکن ایسی انسانی حماقتوں کی وجہ سے تاریخ کا غریب ترین علاقہ ہے۔

پاکستان کی کہانی بھی اس سے ملتی جلتی ہے‘ ہم وسائل‘ جغرافیے‘ آبادی اور جذبے کے لحاظ سے دنیا کے دس بڑے ملکوں میں شمار ہوتے ہیں‘ پاکستان میں دنیا کی تمام سہولتیں موجود ہیں حتیٰ کہ ہم زعفران اور ایواکاڈو بھی اگا رہے ہیں‘ ہمارے پاس تیل‘ گیس‘ سونا اور یورینیم بھی ہے مگر ہم اس کے باوجود غریب ترین ملکوں میں شمار ہوتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ ملک بھی افریقی جہاز جیسے پروجیکٹس کا قبرستان ہے۔

ہمارے ایک دوست کی تحقیق کے مطابق ہم اگر ماضی کے پروجیکٹس مکمل کرنے کا بیڑا اٹھا لیں تو ہمیں تمام پروجیکٹس مکمل کرنے کے لیے 34 سال چاہییں‘ یہ دعویٰ میرے لیے حیران کن تھا لیکن جب میں نے خودسن گن لینا شروع کی تو میں بھی سر پکڑ کر بیٹھ گیا‘آپ یقین کریں ہمارے ملک میں ایسے ہزاروں بحری جہاز کھڑے ہیں جنھیں چلانے کے لیے کیپٹن موجود ہیں اور نہ ہی انجن اور پٹرول اور اگر ان تینوں کا بندوبست ہو بھی جائے تو بھی ہم ان جہازوں کو چلانے کے لیے سمندر کہاں سے لائیں گے؟

ان پروجیکٹس کی دراصل بنیاد ہی غلط تھی‘ ہم نے ہاتھی باندھنے کے لیے بانس کا پنجرہ بنا لیا تھا یا شیر کو بکریوں کے باڑے میں بند کر دیا تھا چناں چہ ہمارے کھربوں روپے ضایع ہو گئے اور ہم نے اگر اب بھی عقل کو ہاتھ نہ مارا تو پاکستان کے ان بے وقوفانہ منصوبوں کی تکمیل کے لیے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا سارا اکاؤنٹ بھی ناکافی ہو گا۔

آپ دور نہ جائیں‘ میں آپ کو چند پروجیکٹس بتاتا ہوں اور آپ کو اس کے بعد چیلنج دیتا ہوں آپ اپنے دائیں بائیں دیکھیں آپ کو اس ملک میں ایسے ہزاروں پروجیکٹس ملیں گے جن پر کھربوں روپے ضایع ہو چکے ہیں اور اس کے باوجود یہ پروجیکٹس پرانی بندرگاہ پر لنگڑے جہاز کی طرح کھڑے ہیں۔

جنرل پرویز مشرف نے اپنے زمانے میں سندھ میں رینی کینال کے نام سے پروجیکٹ شروع کیا تھا‘ یہ جنرل مشرف کا فلیگ شپ منصوبہ تھا اور جنرل مشرف اپنے دور میں اپنی ہر تقریر میں اس کا ڈھنڈورا پیٹتے تھے‘ جنرل پرویز مشرف کا دور ختم ہو گیا‘تین حکومتیں آئیں اور چلی گئیں‘ اربوں روپے خرچ ہو گئے لیکن واپڈا یہ نہر سندھ حکومت کے حوالے نہ کر سکا‘ خدا خدا کر کے2021 میں سندھ حکومت نے اس کا چارج لیا تو پتا چلا نہر میں پانی ہی نہیں‘ کیوں؟

کیوں کہ یہ نہر فلڈ چینل تھی اور یہ بارشوں کی محتاج تھی‘ بارش ہو گی تو اس میں پانی آئے گا‘ بارش نہیں ہو گی تو یہ سوکھی رہے گی اور اگر خدانخواستہ اس میں پانی آ بھی گیا تو یہ پانی جائے گا کہاں؟واپڈا کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا‘ کیوں؟ کیوں کہ رینی کینال کے پانی کو فصلوں تک پہنچانے کا کوئی بندوبست نہیں کیا گیا تھا چناں چہ یہ نہر بھی افریقی بحری جہاز بن کر پرائی بندر گاہ پر کھڑی ہے۔

جنرل مشرف ہی کے دور میں داروٹ ڈیم شروع ہوا تھا‘ یہ جام شورو ضلع میں ہے اور آپ جب کراچی سے حیدر آباد جاتے ہیں تویہ آپ کو بائیں جانب نظر آتا ہے‘ اس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا تھا یہ 25 ہزار ایکڑ زمین سیراب کرے گا‘ یہ ڈیم بھی واپڈا نے بنایا‘ یہ 2014 میں مکمل ہو گیا لیکن یہ 2018 تک سندھ حکومت کو ہینڈ اوور نہیں ہوا‘ڈیم کی فائل چار سال واپڈا اور سندھ حکومت کے درمیان ذلیل ہوتی رہی‘ بہرحال 2018 میں جب شمائل خواجہ جیسا درد دل رکھنے والا بیوروکریٹ سیکریٹری واٹر اینڈ پاور بنا اور اس نے جب پروجیکٹ کی حالت دیکھی تو یہ سیدھے چیف سیکریٹری کے پاس گئے۔

ان کی منت کی اور یوں سندھ حکومت نے ڈیم کا چارج لیا لیکن چارج کے بعد پتا چلا اس ڈیم کے لیے بھی پانی کا سورس نہیں اور اس میں سے پانی نکال کر فصلوں تک پہنچانے کا بندوبست بھی نہیں لہٰذا سوال یہ ہے ڈیم میں پانی کہاں سے آئے گا اور اگر آ گیا تو اس سے نکالا کیسے جائے گا ‘ یہ زمینوں تک کیسے پہنچایا جائے گا؟ اس کا جواب بھی کسی کے پاس نہیں لہٰذا یہ ڈیم بھی افریقی جہاز کی طرح کھڑا ہے‘ جنرل مشرف ہی کے دور میں بلوچستان میں کچی کینال کا منصوبہ شروع ہوا‘ یہ ایک شان دار منصوبہ تھا۔

اس نے بلوچستان کے چار اضلاع کی 7 لاکھ 13 ہزار ایکڑ زمین سیراب کرنی تھی اور یہ اگر مکمل ہو جاتا تو بلوچستان کی آدھی آبادی کا مقدر بدل جاتا وہاں ہریالی بھی آ جاتی اور خوش حالی بھی اور خوش حالی سے دہشت گردی اور عسکریت پسندی بھی ختم ہو جاتی لیکن ابھی تک اس کا صرف فیز ون مکمل ہوا اور فیز ون کی اس نہر میں بھی 140 شگاف ہیں۔

فیز ون میں چھ ہزار کیوسک فٹ پانی کی گنجائش تھی لیکن 2017 میں اس میں صرف 100 کیوسک پانی بہہ رہا تھا اور اس میں اس قدر بھل اور ریت آ چکی تھی کہ صرف اس کی صفائی کے لیے 20 ارب روپے چاہیے تھے مگر اس صورت حال کے باوجود بیوروکریسی نے ستمبر 2017 میں نواز شریف سے کچی کینال کا افتتاح بھی کرا لیا اور حکومت نے مبارک سلام کے اشتہار بھی دے دیے‘ آپ آج بھی اس کینال کا معائنہ کر لیں۔

آپ اپنا سر پیٹ لیں گے‘ بے نظیر بھٹو نے اپنے دوسرے دور حکومت میں 1994میں سیالکوٹ کے قریب سمبڑیال ایکسپورٹس پروموشن زون بنایا تھا‘ حکومت نے اربوں روپے لگا کر اس میں 900 انڈسٹری پلاٹس بنائے‘ اس کے اندر سڑکیں اور پل بھی بنائے گئے اور باہر باؤنڈری وال بھی بنائی گئی لیکن 2019 میں (25 سال بعد) اس کی صورت حال یہ تھی اس میں صرف 160 یونٹس تھے اور ان میں سے بھی صرف 43 فنکشنل تھے جب کہ باقی یونٹس اور پلاٹوں میں آٹھ آٹھ فٹ سرکنڈے کھڑے تھے اور لوگ باؤنڈری وال کی اینٹیں تک اکھاڑ کر لے گئے تھے اور آج کی تازہ ترین صورت حال یہ ہے اس کے مزید30 یونٹس بند ہو چکے ہیں اور وہاں اس وقت صرف 13 یونٹس کام کر رہے ہیں اور باقی ایکسپورٹس زون میں کتے اور کھوتے پھر رہے ہیں۔

اس طرح حکومت نے 1990 کی دہائی میں سیالکوٹ میں اسپورٹس ٹیسٹنگ لیبارٹری بنائی ‘ سیالکوٹ اسپورٹس پراڈکٹ بنا کر پوری دنیا میں ایکسپورٹ کرتا ہے‘ ان پراڈکٹس کے لیے کوالٹی سر ٹیفکیٹ چاہیے ہوتا ہے اور پاکستان میں یہ سہولت دستیاب نہیں تھی چناں چہ ایکسپورٹر کو سر ٹیفکیٹ کے لیے اپنے نمونے یورپ‘ برطانیہ اور امریکا بھجوانے پڑتے تھے اور اس سے وقت اور پیسہ دونوں برباد ہوتے تھے اور تاخیر کی وجہ سے سودے بھی کینسل ہو جاتے تھے۔

حکومت نے اربوں روپے خرچ کر کے ٹیسٹنگ لیبارٹری بنا دی جب بلڈنگ مکمل ہوئی تو پتا چلا بجٹ میں مشینری اور عملے کے لیے رقم ہی مختص نہیں کی گئی لہٰذا بجٹ کا پراسیس شروع ہوا اور یہ پراسیس آج 33 سال بعد بھی مکمل نہیں ہوا‘ اس دوران عمارت کھنڈر بن گئی۔

اس کی کھڑکیاں‘ دروازے‘ لائیٹس‘ پنکھے اور فرش لوگ اکھاڑ کر لے گئے‘ مجھے یقین ہے اب کسی دن حکومت آلات اور اسٹاف کا بجٹ پاس کر دے گی جس کے بعد لوگ بھرتی ہو جائیں گے اور آلات بھی منگوا لیے جائیں گے لیکن پھر پتا چلے گا عمارت ورکنگ پوزیشن میں نہیں‘ عمارت کے لیے دوبارہ رقم نکلے گی‘ یہ بننا شروع ہو گی اور جب یہ مکمل ہو گی تو اس وقت تک آلات خراب ہو چکے ہوں گے اورا سٹاف اربوں روپے تنخواہ لے چکا ہو گا اور یہ ہے اس ملک کا کمال۔

میری احسن اقبال سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر نئے پروجیکٹس پر کام رکوا کر ملک کے ادھورے پروجیکٹس پر ریسرچ کرائیں‘ آپ فہرستیں بنوائیں‘ پاکستان میں کتنے اسکولوں‘ کالجز‘ یونیورسٹیوں‘ اسپتالوں‘ انڈسٹریل اسٹیٹس‘ نہروں‘ برجز‘ ڈیمز اور سڑکوں کے پروجیکٹس نامکمل پڑے ہیں اور پھر ریسرچ کرائیں یہ منصوبے نامکمل کیوں ہیں اگر یہ مکمل ہو جائیں تو ان کا کیا فائدہ ہوگا اور آپ اس کے بعد ہنگامی طور پر پہلے ان منصوبوں کو مکمل کرائیں‘یقین کریں ملک پھر ترقی کرے گا ورنہ ہم پوری دنیا سے مانگ کر رقم لاتے رہیں گے اور یہ رقم ان تنوروں کی راکھ بنتی رہے گی اور پاکستان مزید تباہی کے گڑھے میں دھنستا چلاجائے گا۔

نوٹ:جون میںہمارا گروپ اسکردو جا رہا ہے‘ آپ اس گروپ کا حصہ بننے کے لیے ان نمبرز پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

+92 301 3334562,+92 331 5637981, +92 331 3334562میں نے اپنے دونوں بیٹوںکو 13 سال کی عمر میں کام پر لگا دیا تھا‘ یہ دن کو اسکول جاتے تھے اور شام کے وقت دفتر میں کام کرتے تھے‘ یہ ماڈل کام یاب رہا اور یہ 20 سال کی عمر میں انڈی پینڈنٹ بھی ہو گئے‘ خوش حال بھی اور تجربہ کار بھی‘ میں نے گریجوایشن کے بعد ان کی تعلیم کا سلسلہ بھی روک دیا تھا۔

میرا خیال تھا گریجوایشن تک تعلیم کافی ہوتی ہے‘ نوجوانوں کو بی اے‘ بی ایس سی یا بی بی اے کے بعد کام کرنا چاہیے اور یہ جب پچیس چھبیس سال کے ہو جائیں تو پھر یہ اس فیلڈ میں ماسٹر کریں جس کی انھیں ضرورت ہے‘ بلاوجہ اور بے مقصد ڈگریاں لینے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا‘ یہ فارمولا صرف خوش حال اور اسٹیبلش فیملیز کے لیے ہے‘ غریب اور پس ماندہ طبقے کے نوجوانوں کو یونیورسٹی تک تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔

بہرحال میرے ماڈل کا یہ فائدہ ہوا میرے بیٹوں نے پچیس چھبیس سال کی عمر تک کام‘ کاروبار اور فنانشل مینجمنٹ کی زیادہ تر باریکیاں سیکھ لیں اور یہ اب ہائیر ایجوکیشن کے لیے باہر جا رہے ہیں‘ بڑے بیٹے فائز نے ڈیجیٹل مارکیٹنگ میں ماسٹر کے لیے انگلینڈ میں داخلہ لے لیا ہے جب کہ دوسرا ٹورازم میں ماسٹر کے لیے یونیورسٹیاں تلاش کر رہا ہے‘ فائز نے دو دن قبل مانچسٹر سے فون کیا‘ یہ ملک کی صورت حال پر پریشان تھا‘ میں نے اسے اسی طرح تسلی دی جس طرح تمام والدین اپنے بچوں کو دیتے ہیں۔

یہ جب نارمل ہو گیا تو میں نے اس سے پوچھا ’’تمہیں انگلینڈ اور یونیورسٹی کیسی لگ رہی ہے؟‘‘ یہ ہنس کر بولا ’’یورپی ملکوں میں سیر کے لیے آنا آسان لیکن پڑھنا اور کام کرنا مشکل ہوتا ہے‘ مجھے ٹف محسوس ہو رہا ہے مگر یہاں لائف بہت سموتھ ہے‘ سوئچ آن کریں تو لائیٹ ہوتی ہے‘ چولہا جلائیں تو گیس ہوتی ہے‘ سڑک پر نکلیں تو ٹریفک رواں دواں ہے‘ شاپنگ سینٹروں میں شاپنگ چل رہی ہے‘ ریستورانوں ‘ کافی شاپس اور بارز میں گاہک بیٹھے ہیں‘لوگ پارکوں میں جاگنگ اور سائیکلنگ کر رہے ہیں اور یونیورسٹیوں اور کالجز میں کلاسز چل رہی ہیں‘ پورے شہر میںلائف سموتھ ہے۔

یہ درست ہے یہاں مہنگائی ہے لیکن سپلائی چین میں کوئی بریک نہیں‘یہاں ’’کوئی آئے گا اور توڑ دے گا‘‘ جیسا خوف بھی نہیں‘‘ میرے بیٹے کا کہنا تھا ’’مجھے یہاں ایک ایک پاؤنڈ کمانا اور بچانا پڑتا ہے چناں چہ لائف ٹف ہے مگر اطمینان اور سکون بہت ہے‘ میں نے پاکستان میں کروڑوں روپے کمائے‘ کمپنیاں بھی چلائیں لیکن وہاں میں نے اسٹریس کے بغیر ایک رات بھی نہیں گزاری۔

خوف کی تلوار ہر وقت سر پر لٹکی رہتی تھی‘ مجھے یقین نہیں ہوتا تھا صبح میرا دفتر بچا ہو گا یا نہیں‘ بجلی‘ گیس اور پٹرول ہو گا یا نہیں‘ میں سڑک پر نکلوں گا تو میں اور میری گاڑی بچے گی یا نہیں ‘میرے اکاؤنٹ کے پیسے اکاؤنٹ میں ہوں گے یا نہیں‘ میرے ایمپلائز کل بھی میرے ایمپلائز ہوں گے یا نہیں اور میں نے جو کام شروع کیا ہے وہ میں مکمل کر پاؤں گا یا نہیں‘ میرے سر پر وہاں 36 قسم کے خوف سوار رہتے تھے مگر یہاں میں صرف اسٹوڈنٹ ہوں‘ کلاسز لیتا ہوں اور ہفتے میں 20گھنٹے کی نوکری تلاش کر رہا ہوں اور بس‘ میرے سر پر کوئی اسٹریس نہیں۔

میں اس خطرے سے آزاد ہو چکا ہوں میں سڑک پر جاؤں گا تو وہاں ایمبولینسز اور موٹر سائیکلیں جلی پڑی ہوں گی اورلوگ موٹروے پر کرکٹ کھیل رہے ہوں گے جب کہ میں نے پاکستان میں جنرل مشرف کے دور سے امن نہیں دیکھا‘ پہلے بم دھماکے ہوتے تھے‘ پھر ججز کی بحالی کی موومنٹ شروع ہو گئی اور اس کے بعد چل سو چل‘ ملک میں کوئی دن ایسا نہیں گزرا جس میں ہنگامہ نہ ہو یا ضروریات زندگی کا کوئی نہ کوئی عنصر غائب نہ ہوا ہو۔

پاکستان میں روز سڑک بند رہتی تھی یا پھر بجلی‘ گیس اور انٹرنیٹ اور آپ نے اگر کوئی چیز باہر سے منگوالی تو اسے کسٹم روک لے گا اور آپ نے اگر کوئی چیز باہر بھجوا دی تووہ ائیرپورٹ پر پڑی پڑی خراب ہو جائے گی‘‘ میں نے اس کی بات سن کر قہقہہ لگایا اور پھر کہا ’’تم دس پندرہ سال کو رو رہے ہو‘ میں نے اپنی پوری زندگی اس ملک میں استحکام نہیں دیکھا‘ چھوٹا تھا تو ملک میں پی این اے کی تحریک چل رہی تھی‘ پھربھٹو کو پھانسی لگا دی گئی‘ پھر جنرل ضیاء الحق کے خلاف ہائے ہائے کے نعرے لگنے لگے اور آخر میں اب عمران خان کے ٹائیگرز کے ہاتھوں ملک کو جلتا دیکھ رہا ہوں۔

میرے والد بھی پوری زندگی استحکام کو ترستے رہے‘ ان کے بچپن میں گوروں کو نکالنے کی تحریک چل رہی تھی اور وہ جب دنیا سے رخصت ہو گئے تو اس وقت بلاول بھٹو کا مہنگائی مارچ چل رہا تھا‘ وہ پوری زندگی کہتے رہے مجھے یہاں ایک دن سکھ کا سانس نہیں ملا‘‘ میرے بیٹے نے بھی قہقہہ لگایا اور کہا ’’یہ پھر تین نسلوں کا المیہ ہے‘‘۔

میں نے رک کر کہا ’’نہیں چار نسلوں کا‘ میرے دادا کے زمانے میں پہلی اور دوسری عالمی جنگ چل رہی تھی اور انگریز لوگوں کو پکڑ پکڑ کر زبردستی فوج میں بھرتی کر رہے تھے اور دادا جان بچانے کے لیے جنگلوں میں دوڑتے بھاگتے پھر رہے تھے اور اب اگر ہماری پانچوں نسل پیدا ہو گئی تو یہ بے چاری بھی ایسے ہی حالات دیکھے گی‘ اس کی آنکھ بھی اوئے چورو کی آواز سے کھلے گی‘‘میرا بیٹا ہنسا اور ہماری گفتگو ختم ہو گئی۔

کل میرے ایک سینئر دوست میرے پاس تشریف لائے‘ یہ 84 سال کے ہیں اور یہ بیٹے سے تازہ تازہ ملاقات کر کے کینیڈا سے واپس آئے ہیں‘ یہ وہاں چار ماہ رہے‘ انھوں نے کینیڈا کے بارے میں دو آبزرویشنز دیں‘ ان کا کہنا تھا ’’میں کینیڈا جا کر حیران رہ گیا‘ میں بار بار اپنے آپ سے پوچھتا تھا‘ کیا ملک ایسے بھی ہوتے ہیں؟ ہر طرف صفائی‘ نظم وضبط‘ ہریالی‘ پانی اور عزت‘ مجھے شروع میں محسوس ہوتا تھا میں جنت میں آ گیا ہوں لیکن پھر میں تین ماہ میں بور ہو گیا اور واپس آ گیا‘‘۔

میں نے بوریت کی وجہ پوچھی تو انھوں نے اپنی دوسری آبزرویشن بھی میرے ساتھ شیئر کر دی‘ ان کا کہنا تھا’’کینیڈا میں کوئی چیلنج نہیں تھا‘ بجلی‘ گیس اور پٹرول بروقت ملتا رہتا تھا‘ ٹونٹی کا پانی پیا جا سکتا تھا‘ سڑکیں ہر وقت کھلی تھیں‘ دودھ‘ مچھلی‘ چائے کی پتی اور گوشت ہر چیز خالص اور تازہ تھی‘ اسپتالوں میں بھی رش نہیں ہوتا تھا اور دوائیں بھی فری مل جاتی تھیں اور پولیس کو دیکھ کر دل بھی نہیں گھبراتا تھا جب کہ میں 84سال یہ چیلنج بھگتتا رہا تھا‘ مجھے اسٹریس اور ٹینشن کی عادت پڑ گئی تھی چناں چہ میں بور ہو گیا اور واپس آ گیا اور اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ کرم ہے میں جوں ہی ائیرپورٹ پر اترا باہر عمران خان کے ٹائیگرڈنڈے لے کر کھڑے تھے۔

میں ٹھیک ٹھاک ذلیل ہو کر ائیرپورٹ سے گھر پہنچا یوں میری تسلی ہو گئی‘ میں یہ سن کر ہنس پڑا اور وہ بھی میرے ساتھ ہنستے چلے گئے‘ ہنستے ہنستے ہماری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور ہم دیر تک وہ آنسو پونچھتے رہے اور ایک دوسرے سے پوچھتے رہے ’’ہم کہیں روتو نہیں رہے؟‘‘ اور ہم پھر اس نتیجے پر پہنچے کھوتے (گدھے) روتے نہیں ہیں اور ہم کھوتے ہیں لہٰذا ہمارے پاس اپنی تکلیفوں کو انجوائے کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔

میں نہیں جانتا اس ملک کا کیا بنے گا تاہم میں اتنا جانتا ہوں جو قوم ایک لیڈر کی گرفتاری پر وہ ٹینکر جلا دے جس سے اسی قوم کے درختوں اور پودوں کو پانی دیا جاتا ہو‘ جو ایدھی ایمبولینس روک کر مریض اور ڈرائیور کو نیچے اتارے اور اسے آگ لگا دے اور مریض فٹ پاتھ پر مر جائے اور وہ خاتون جس نے اپنی حج کی رقم سے ایمبولینس خرید کر ایدھی فاؤنڈیشن کو دی تھی وہ یہ منظر دیکھ کر فوت ہو جائے‘ جس میں دس بارہ نوجوان موٹر سائیکلوں پر آئیں‘ سڑک بلاک کریں‘ موٹر سائیکل پر سوارمرد‘ عورت اور بچے کو اتاریں اور موٹر سائیکل کو آگ لگا دیں اور موٹر سائیکل کا مالک اپنی جلتی موٹر سائیکل کے ساتھ بیٹھ کر روتا رہے‘ جس میں 150 پولیس اہلکاروں کو اس جرم میں ڈنڈوں‘ پتھروں اور اینٹوں سے کچل دیا جائے کہ وہ ہجوم سے عام لوگوں کی پراپرٹی بچا رہے تھے‘ جس میںٹول پلازے کو آگ لگا دی جائے‘ کور کمانڈر لاہور کے گھر کے اندر گھس کر پورا گھر تباہ کر دیا جائے اور انقلاب پسند وہاں سے کھانا‘ سبزی‘ جرابیں‘ کپڑے‘ انڈے‘مور‘ مرغیاں اور یونیفارم تک لوٹ کر لے جائیں‘ جس میں ریڈیو پاکستان کی عمارت جلا دی جائے‘ جس میں آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کی عمارت کو لوٹ کر آگ لگا دی جائے‘ جس میں میٹرو اسٹیشن جلا دیے جائیں‘ بسوں‘ پولیس وینز اور تھانوں کو آگ لگا دی جائے‘ جس میں فوج کے شہداء کی تصویروں پر پتھر مارے جائیں اور جس میں عام شہری کو سڑک پر مار دیا جائے اور آخر میں سپریم کورٹ ملزم کو اپنا مہمان ڈکلیئر کر دے اور ہائی کورٹس بلینک ضمانتیں دے دیں اور ملک میں مٹھائیاں بٹنے لگیں‘ اس ملک کا کیا مستقبل ہو گا؟

عمران خان گرفتار ہوئے‘ عمران خان رہا ہو گئے لیکن درمیان کے تین دنوں میں جو ملک کے ساتھ ہوا اس کا ذمے دار کون ہے اور اس کا حساب کون لے اور کون دے گا؟ دوسرا سوال اس ملک کے مقدر کا فیصلہ مہینے کیوں کرتے ہیں؟ ہم نے پہلے ڈیڑھ سال 2022کے نومبر تک پہنچنے اور بچنے میں ضایع کر دیا‘ پی ڈی ایم نومبر میں اپنی مرضی کی تقرری کرنا چاہتی تھی اور عمران خان اپنا آرمی چیف لانا چاہتا تھا‘ اس کشمکش نے ملک کا جنازہ نکال دیا ‘ ہم ڈیفالٹ کے کنارے پہنچ گئے اور اب ستمبر کی ریس جاری ہے‘ پی ڈی ایم چیف جسٹس اور صدر کی ریٹائرمنٹ کے بعد الیکشن کرانا چاہتی ہے جب کہ عمران خان ستمبر سے پہلے وزیراعظم بننا چاہتے ہیں اور اس ریس نے ملک کا رہا سہا کچومر بھی نکال دیا اور میں جب یہ سوچتا ہوں ستمبر میں ابھی ساڑھے چار ماہ باقی ہیں تو کانپ اٹھتا ہوں‘ کیوں؟

کیوں کہ مجھے محسوس ہوتا ہے شاید (معاذ اللہ) یہ ملک ستمبر تک پہنچ ہی نہ پائے‘ ہم اس سے پہلے ہی فارغ ہوجائیں چناں چہ اب اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی آپشن باقی نہیں‘ اللہ ہی اس ملک کی حفاظت کرسکتا ہے کیوں کہ یہ ملک اوپر چھوٹے‘ انا پرست اور اقتدار کے بھوکوں میں پھنس گیا ہے اور نیچے عوام کی مت ماری گئی ہے‘ یہ صحیح اور غلط کی تمیز ہی کھو بیٹھے ہیں اور یہ تباہی کا آئیڈیل کمبی نیشن ہوتا ہے اور ہم اس کمبی نیشن کا شکار ہو چکے ہیںچناںچہ آپ اب میری طرح کھوتے بن کر ہنسنا شروع کر دیں‘ کیوں؟ کیوں کہ کھوتوں کو رونا نہیں آتا۔

Source: Express News

Must Read Urdu column Khotay Rotay nahin hain By Javed Chaudhry

Leave A Reply

Your email address will not be published.