کیا آخری کڑی ٹوٹ چکی ہے – اوریا مقبول جان

Orya Maqbool

دنیا کے ہر ضروری سمجھے جانے والے کاروبارِ زندگی کو معمول کے مطابق چلانے کے لئے ”کرونا” کی اس خوفناک وبا میں بھی انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ حتیٰ کہ پوری دنیا پر غیر محسوس طریقے سے حکومت کرنے والے میڈیا کا کسی بھی ملک میں ایک ٹیلی ویژن چینل، ایک ریڈیو سٹیشن یا آباد نشریاتی ادارہ بند نہیں کیا گیا۔ حرمِ کعبہ، مسجد نبوی، کربلا، مشہد، جامعہ مسجد دہلی، الازہر، بادشاہی مسجد لاہور سے لے کر مسلم دنیا میں لاتعداد مساجد کے پہلو میں بے شمار ٹیلی ویژن چینل مسلسل اپنی نشریات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر کی مساجد میں لوگ چوبیس گھنٹے میں زیادہ سے زیادہ صرف ایک گھنٹے سے بھی کم عرصے کے لیے آتے ہیں۔ ہرنماز کے درمیان کم از کم ڈیڑھ گھنٹے اور زیادہ سے زیادہ نو گھنٹے کا وقفہ ہوتا ہے۔ اسکے دوران پوری مسجد کو ان تمام اصولوں کے مطابق پانچ وقت صاف کیا جاسکتا ہے۔ دہشت گردی سے بچنے کے لیے اگر ہر مسجد کے باہر سے سپاہی کھڑے کیے جا سکتے ہیں تو یہاں پر بھی ہر نمازی پر مناسب سپرے کیا جاسکتا ہے، اسے ماسک اور دستانے پہنائے جاسکتے ہیں، نمازیوں کے درمیان مناسب فاصلہ رکھا جاسکتا ہے۔ ہر مسجد میں اس کام کے لیے لوگ موجود ہوتے ہیں اور لوگ رضاکارانہ طور پر بھی یہ کام کر سکتے ہیں۔ جہاں تک وسائل کا تعلق ہے پاکستان کے غریب ترین گاؤں کی مسجد بھی انکے گھروں سے بہتر حالت میں ہوتی ہے اور نماز پڑھنے والے اس اہتمام کا خرچ بخوشی اٹھا سکتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ اس امت کا ایمان و ایقان اور جذبہ اقام الصلوٰۃ پہلے ہی حملے میں دھڑام سے گر گیا۔ اس لیے کہ شاید اجماعت ہماری اولین ترجیح میں ہی نہیں تھی۔ کہا گیا کہ انسان کی جان بچانا سب سے اہم فریضہ ہے، تو پھر ان لاتعداد اداروں،فیکٹریوں، عدالتوں اور میڈیا میں کسی کی جان تو ”واقعی” خطرے میں نہیں ہے۔ مساجد میں عام نمازی کو آنے سے روکنے کا اور نمازوں کو مساجد کے خادمین کی حد تک محدود کرنے کا اس امت نے فیصلہ ہی کرلیا۔ اور یہ فیصلہ ایسے ہی ہونا تھا۔ مخبر صادق ﷺ نے قربِ قیامت میں واقعات کی جو ترتیب بتائی ہے سب کچھ عین اسی طرح سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ حضرت ابو امامہ باہلی ؓ سے روایت ہے کہ ”حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اسلام کی کڑیاں ایک ایک کرکے ٹوٹتی جائیں گی۔

جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری کڑی کو پکڑ لیں گے۔ سب سے پہلی کڑی ”حکم” (امر خلافت) اور سب سے آخر میں ٹوٹنے والی کڑی ”نماز” ہوگی (مسند احمد، شعیب الایمان، المعجم الکبیر)۔ پہلی کڑی اس دن ٹوٹی تھی جب اسلام کے تیرہ سو سال سے مسلسل نافذ، نظام عدل کو 3 مارچ 1924 کے دن ترکی میں خلافت عثمانیہ کو کمال اتاترک کی حکومت نے ختم کیا اور مجلہ الاحکام العدلیہ کی جگہ مغربی قوانین نافذ کر دیئے۔ آج 98 سال بعد، حرمِ کعبہ اور حرم نبوی کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کی مساجد عام آدمی کے نماز پڑھنے کے لئے عملاً بند ہو چکی ہیں۔ یعنی اس امت نے یہ فیصلہ کر لیا کہ ہم نماز کو مساجد میں جاری رکھنے کے لئے اتنا بھی اہتمام نہیں کرسکتے جتنا ایک ٹیلی ویژن چینل، فیکٹری اور عدالت کو جاری رکھنے کے لیے کر رہے ہیں۔ معاملہ عمرہ و حج کی منسوخی کا نہیں۔ کہ وہ کئی بار معطل ہوئے اور یہ نماز کی طرح فرائض میں بھی شامل نہیں، معاملہ تو پانچ وقت نماز کا ہے جس کی معطلی کو ٹوٹنے والی آخری کڑی قرار دیا گیا ہے۔ نماز کی اس کڑی کے ٹوٹنے کی انتہا مدینہ النبی کی ویرانی ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ”تم مدینہ کو بہت اچھی حالت میں چھوڑ جاؤ گے۔ وہاں صرف پرندے اور درندے رہ جائیں گے۔ آخر میں قبیلہ مزینہ کے دو چرواہے مدینہ طیبہ آئیں گے، جو اپنی بکریوں کو آواز دیں گے۔ وہ مدینہ کو وحشی جانوروں سے گھرا ہوا پائیں گے” (بخآری: باب من رغب المدینہ)۔ مدینہ کی اس ویرانی کا آغاز بیت المقدس یعنی یروشلم کی آبادی سے جوڑا گیا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے واقعات کی ایک ترتیب بتائی ہے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ”بیت المقدس کی آبادی، مدینہ طیبہ کی ویرانی، اور مدینہ طیبہ کی ویرانی، بڑی جنگ کا ظہور، اور بڑی جنگ کا ظہور قسطنطنیہ کی فتح، اور قسطنطنیہ کی فتح، دجال کا نکلنا (ابو داؤد)۔ رسول اکرم ﷺ نے ایک اور طرح بھی واقعات کی ترتیب بتائی اور ان میں دو مزید سانحات کا اشارہ دیا ہے۔ فرمایا ”قیامت کی چھ نشانیاں شمار کرلو، میری موت، پھر بیت المقدس کی فتح، پھر ایک وبا جو تم میں شدت سے پھیلے گی، جیسے بکریوں میں طاعون پھیلتا ہے تو وہ مرنے لگتی ہیں، پھر مال کی کثرت اس درجہ ہو گی، کہ ایک شخص سو دینار بھی اگر کسی کو دے گا تو اس پر بھی وہ ناراض ہوگا۔ پھر ایک فتنہ جو اتنا تباہ کن اور عام ہوگا کہ عرب کا کوئی گھر باقی نہ رہے گا جو اس کی لپیٹ میں نہ آ گیا ہوگا۔

پھر صلح جو تمہارے اور رومیوں کے درمیان ہوگی، لیکن وہ دغا کریں گے اور ایک عظیم لشکر کے ساتھ تم پر چڑھائی کریں گے۔ اس میں اسی (80) جھنڈے ہوں گے اور ہر جھنڈے کے ماتحت بارہ ہزار فوج ہوگی” (یعنی نو لاکھ ساٹھ ہزار فوج سے وہ تم پر حملہ آور ہوں گے)۔ (صحیح بخاری:3176، ابو داؤد، ابن ماجہ)۔ کیا سب کچھ ایسے ہی نہیں ہورہا ہے جیسے میرے پیغمبرِ برحق ﷺ نے بتایا تھا۔ بیت المقدس کی آبادی کا اعلان اس دن ہو گیا تھا جب امریکہ نے اسے اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا اور پوری دنیا کے مسلمان حکمرانوں نے اس فیصلے پر سر تسلیم خم کر دیا۔ اس کے بعد کے واقعات کی تمام ترتیب ویسی ہی ہے جیسے خبردی گئی تھی۔ ہم اس بڑی جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں جس کی تیاری بیت المقدس کو آباد کرنے والے اہل روم اور یہودی کئی سو سالوں سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ بے بسی کا وہ عالم جس میں دعا ہی مومن کا ہتھیار ہوتا ہے ہم اللہ کی طرف پلٹنے والے دروازے خود بند کر رہے ہیں۔

Source: 92 news
Must Read Urdu column Kia Akhri Karri toot Chuki hai By Orya Maqbool jan

Leave A Reply

Your email address will not be published.