کرسی کسی کی وفادار نہیں ہوتی جناب – جاوید چوہدری

Javed Chaudhry

ذوالفقار علی بھٹو نے 12 مارچ 1977ء کو قوم سے خطاب کیا تھا‘ الیکشن 7 مارچ کو ہوئے تھے‘ اپوزیشن کی نو جماعتوں نے پاکستان قومی اتحاد کے نام سے متحدہ اپوزیشن بنائی اور بھٹو صاحب کے خلاف الیکشن میں کود پڑے۔

قومی اسمبلی کی کل 200 سیٹیں تھیں‘ بھٹو صاحب نے 155 نشستیں حاصل کر لیں جب کہ پی این اے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے باوجود بمشکل صرف 36 سیٹیں لے سکی‘ اپوزیشن نے دھاندلی کا الزام لگا کر الیکشن کے نتائج مسترد کر دیے‘ ملک میں تحریک شروع ہو گئی اور شہرشہر احتجاج ہونے لگا‘ ذوالفقار علی بھٹو اندر سے وڈیرے تھے‘ احتجاج ان کی طبع نازک پر گراں گزرا چناں چہ وہ 12 مارچ کو قوم کے سامنے بیٹھ گئے۔

پاکستان ٹیلی ویژن کے ذریعے عوام سے خطاب کیااور خطاب کے دوران جذباتی ہو گئے‘بھٹو نے کرسی کے بازو پر مکا مار کر کہا ’’میں کم زور ہو سکتا ہوں لیکن یہ کرسی کم زور نہیں‘ میں جس کرسی پر بیٹھا ہوں یہ بہت مضبوط ہے‘‘ وہ جب یہ کہہ رہے تھے تو ان کے لہجے میں غرور اور چہرے پر تکبر تھا‘ نواب زادہ نصر اللہ اس وقت قومی اتحاد میں شامل تھے۔

نواب صاحب کو اللہ تعالیٰ نے لہجے کی شائستگی اور زبان کی شستگی سے نواز رکھا تھا‘ وہ یہ تقریر سن رہے تھے‘ وہ کرسی کے بازو پر بھٹو کا بازو دیکھ کر مسکرائے اور ساتھیوں سے کہا ’’مبارک ہو‘ بھٹو اب جا رہا ہے‘‘ ساتھیوں نے حیرت سے پوچھا ’’آپ کیا فرما رہے ہیں‘‘ نواب زادہ صاحب بولے ’’تاریخ گواہ ہے جب بادشاہ اپنے بجائے اپنے تخت کی قسمیں کھانے لگیں تو ان کے جانے کا وقت آ چکا ہوتا ہے‘ بھٹو صاحب اب اپنی ذات کی بجائے کرسی پر اعتماد کر رہے ہیں اور کرسیاں کبھی کسی کی وفادار نہیں ہوتیں‘‘۔

نواب زادہ نصراللہ کی یہ پیش گوئی وقت نے سچ ثابت کر دی‘ مارچ کے بعد مہینے‘ ہفتے اور دن بدلتے رہے اور بھٹو اور ان کی کرسی کم زور ہوتی رہی یہاں تک کہ 5 جولائی 1977ء آ گیا اور فوج نے بھٹو صاحب کو ان کی مضبوط کرسی سمیت اٹھا کر باہر پھینک دیاتاہم یہ درست ہے فوج بھٹو کو تاریخ اور سیاست سے نہ نکال سکی‘ یہ آج بھی ہر جیالے کے دل میں زندہ ہیں مگر یہ بھی سچ ہے بھٹو صاحب کو اپنی مضبوط کرسی دوبارہ نصیب نہ ہو سکی‘ وہ ایک افسوس ناک موت کا شکار ہو گئے۔

میں نے کل عمران خان کو بھی ’’میرے علاوہ کوئی چوائس نہیں‘‘ اور ’’نظریے پر کھڑے رہے تو کوئی ہماری حکومت نہیں گرا سکتا‘‘کا دعویٰ کرتے دیکھا‘ میرے ساتھ پاکستان تحریک انصاف کے ایک سپورٹر بیٹھے ہوئے تھے‘ میں نے کانوں کو ہاتھ لگایا اور ان سے کہا‘ آپ لوگ توبہ کریں ‘کائنات میں اللہ کے علاوہ ہر شخص کا آپشن اور چوائس موجود ہوتی ہے‘ اللہ تعالیٰ نبیوں کے بعد بھی نئے نبیوں کی چوائس اور آپشن دیتا رہا‘ ہم اور آپ کس کھیت کی مولی ہیں۔

میں نے اس کے بعد اس سپورٹر سے کہا ’’میں اس دعوے سے پہلے سمجھتا تھا عمران خان پانچ سال بھی پورے کریں گے اور یہ اگلی ایک دو ٹرمز کے لیے بھی الیکٹ ہو جائیں گے لیکن میں آج محسوس کر رہا ہوں یہ اب زیادہ دن نہیں ٹک سکیں گے‘عمران خان نے خود کو ناگزیر قرار دے کر اپنے اقتدار کی قبر کھود لی اور یہ کسی بھی وقت اس میں جا گریں گے‘‘ پی ٹی آئی کے سپورٹر نے میری بات سے اتفاق نہیں کیا لیکن میں نے ان سے عرض کیا ’’حکومتوں کو ان کی پرفارمنس‘ ان کی گورننس بچاتی اور چلاتی ہے لیکن آپ نے ’’میرے علاوہ کوئی چوائس نہیں‘‘ کو اپنی طاقت بنا لیا‘ اس سے بڑی بے وقوفی کیا ہو سکتی ہے؟

ہماری اپنی 72 سالہ تاریخ عمران خان سے طاقت ور اور ناگزیر لوگوں سے بھری پڑی ہے لیکن آج لوگ ان کی قبروں تک سے واقف نہیں‘ آپ غلام محمد سے شروع کر لیں‘ گورنر جنرل غلام محمد بھی خود کو ناگزیر سمجھتے تھے‘ لوگ آج ان کی جائے تدفین تک کو نہیں جانتے‘ آپ بتائیں سکندر مرزا کہاں دفن ہیں‘ جنرل ایوب خان‘ جنرل یحییٰ خان اور جنرل ضیاء الحق کہاں مدفون ہیں اور کون ان کی قبر پر فاتحہ پڑھتا ہے؟

یہ سب بھی ناگزیر ہوتے تھے مگر وقت انھیں روند کر آگے نکل گیا‘ ہماری تاریخ میں بار بار ایسا وقت آیا جب کرسی پر بیٹھے لوگوں کا کوئی آپشن‘ کوئی چوائس نہیں ہوتی تھی لیکن پھر یہ لوگ سوکھے پتوں کی طرح ہوا میں بکھر گئے‘ لوگ ان کے نام تک بھول گئے اور آپ یہ بھی یاد رکھیں یہ لوگ قدآور تھے‘ یہ لوگ پھر بھی زندگی میں کچھ نہ کچھ کر گئے‘ ایوب خان کے دور کو پاکستان کی ترقی کا دور کہا جاتاتھا‘ یحییٰ خان نے پاکستان کی تاریخ کا غیر جانب دار ترین الیکشن کرایا‘ یہ امریکا اور چین کو ایک میز پر لے آئے اور یہ ایک عالمی کارنامہ تھا اور جنرل ضیاء الحق نے سوویت یونین کو شکست دی اور افغان جنگ لڑی لیکن آپ نے کیا کیا‘ آپ کا کیا کارنامہ ہے؟

آپ اپنے دعوے بھی دیکھیں یوں محسوس ہوتا ہے آپ سب کچھ جانتے ہیں‘ آپ سے یورپ کی بات کریں تو آپ کہتے ہیں یورپ کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا‘ آپ سے انڈیا کی بات کریں تو آپ کہتے ہیں مجھ سے بڑا انڈیا کا کوئی ایکسپرٹ نہیں‘ آپ ملک میں غریب کے سارے مسئلے بھی جانتے ہیں‘ آپ دنیا کے سب سے بڑے زرعی ایکسپرٹ بھی ہیں‘ آپ دنیا میں ٹیکس جمع کرنے کے بھی سب سے بڑے ماہر ہیں۔

آپ کرپٹ لوگوں سے پیسہ نکالنے کے بھی سب سے بڑے فلاسفر ہیں اور آپ کورونا اور لاک ڈائون کے بھی دنیا کے سب سے بڑے ماہر ہیں‘ آپ کے دعوے دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے آپ مریخ پر بھی دس پندرہ مرتبہ جا چکے ہوں گے اور آپ وہاں وکٹیں بھی گاڑھ آئے ہیں‘ حالات یہ ہیں آپ کسی کی سننے کے لیے یتار نہیں ہیں‘مافیاز آپ سے ایک رات میں 25 روپے لیٹر پٹرول مہنگا کرا لیتے ہیں لیکن آپ اس کے باوجود خود کو ناگزیر بھی سمجھتے ہیں‘ کیا بات ہے آپ کی!۔

آپ بھی میری طرح جب وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزراء کی گفتگو سنتے ہوں گے توآپ کو بھی محسوس ہوتا ہو گا پاکستان ان کی اہلیت‘ ان کے وژن اور ان کے منشور کے سامنے بہت چھوٹا ملک ہے‘ ان لوگوں کو دراصل پورے برصغیر‘ پورے یورپ یا پھر پورے امریکا کا لیڈر ہونا چاہیے تھا‘آپ یقین کریں یہ لوگ اگر افریقہ میں ہوتے تو افریقہ آج یورپ بن چکا ہوتا‘ یہ اگر یورپ میں ہوتے تو یورپ امریکا اور یہ اگر امریکا میں ہوتے تو امریکا کھسک کر چاند پر پہنچ چکا ہوتا‘ پاکستان ان لوگوں کے وژن سے میچ ہی نہیں کرتا۔

ہمیں چاہیے ہم اگر کوئی براعظم اٹھا کر اس کابینہ کے حوالے نہیں کر سکتے تو ہم عمران خان کو کم از کم اقوام متحدہ کا صدر ہی بنا دیں تاکہ یہ جی بھر کر پوری دنیا کی سمت درست کر سکیں‘بے شک یہ ایک عظیم لیڈر ہیں بس ان کو قوم چھوٹی اور عوام نالائق ملے ورنہ یہ مینڈکوں سے بجلی پیدا کر کے رات کو دن میں تبدیل کرسکتے تھے مگر یہ اگر یہ بھی کرلیتے تو بھی اللہ تعالیٰ کے پاس ان کی بے شمار چوائسز‘ بے شمار آپشن ہوتے۔

اللہ تو کُن کہہ کر ہماری جیسی ان گنت کائناتیں بنا سکتا ہے اور آپ فرما رہے ہیں ہمارے علاوہ کوئی چوائس نہیں‘توبہ کریں‘ اللہ سے معافی مانگیں‘ اللہ نے غرور پر اس فرعون کو بھی ڈیڈ سی کی ریت چٹوا دی تھی جس نے اہراموں کی شکل میں دنیا کو پہلا ونڈر (عجوبہ) دیا تھا‘ اللہ کے پاس ریت کے ذروں جتنے آپشن اور چوائسز ہوتے ہیں‘ یہ ابابیلوں سے کعبہ کی حفاظت کراتا ہے اور مکڑیوں کے جالوں سے دشمنوں کے سامنے پردے تان دیتا ہے‘ آپ کیا چیز ہیں؟۔

میں کیوں کہ عمران خان کا فین ہوں‘ میں انھیں صرف پاکستان نہیں بلکہ پورے برصغیر اور سینٹرل ایشیا کی بھی آخری امید سمجھتا ہوں لہٰذا میری ’’قوم یوتھ‘‘ سے اکثر ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں‘ میں جب بھی عمران خان کی تعریف کرتا ہوں تو یہ مجھے غور سے دیکھتے رہتے ہیں‘مجھے ان کی آنکھوں میں غیر یقینی سی دکھائی دیتی ہے اور یہ آخر میں بڑے اعتماد سے کہتے ہیں ’’خان کی نیت بہت اچھی ہے‘‘۔

میں اس پر آگے بڑھ کر ان کے ہاتھ چوم لیتا ہوں اور عرض کرتاہوں ’’اللہ تعالیٰ کے بعد آپ دنیا کی واحد مخلوق ہیں جو نیتوں کا حال بھی جانتی ہے ورنہ آپ سے پہلے تو ہم یہی سنتے تھے نیتوں کا حال صرف اللہ جانتا ہے‘‘اللہ نے واقعی یہ صفت اپنے بعد ’’قوم یوتھ‘‘ کو عطا فرمائی‘ یہ نیتوں کا حال بھی جان لیتے ہیں‘ دوسرا میں سمجھتا ہوں علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں شاہین یا عقاب کی جتنی صفات بیان کیں وہ ساری ہمارے لیڈر عمران خان میں موجود ہیں‘ یہ بھی بلندی پر بسیرا کرتے ہیں‘ بادلوں سے اوپر پرواز کرتے ہیں‘ 20 ہزار فٹ کی بلندی سے شہباز گل جیسے لوگوں کا ٹیلنٹ پہچان لیتے ہیں‘ اکیلے رہتے ہیں اور کسی دوسرے پرندے کے ساتھ فری نہیں ہوتے بس ان میں ایک کمی ہے۔

یہ اڑ نہیں سکتے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو جتنا ٹیلنٹ عطا فرمایا ہے مجھے یقین ہے یہ اگر کوشش کریں تو یہ اڑ بھی سکتے ہیں لیکن یہ اگر اڑنا بھی سیکھ لیں تب بھی یہ پلے باندھ لیں اللہ کے پاس اس کے باوجود ان کا کوئی نہ کوئی آپشن ہو گا کیوں کہ اللہ کے پاس ہر وقت کروڑوں چوائسز ہوتی ہیں اور اس کی ہر چوائس کو سامنے آنے میں چند سیکنڈ لگتے ہیں اور چند ہفتوں میں عمران خان کا آپشن بھی عمران خان کے سامنے بیٹھا ہو گا اور یہ کرسی کو حیرت سے دیکھ رہے ہوں گے لہٰذا جان لیں اللہ کے علاوہ اس کائنات میں کوئی ناگزیر نہیں حتیٰ کہ عمران خان بھی نہیں۔

Source

Must Read urdu column Kursi kissi ki Wafadar nahin hoti janab by Javed Chaudhry

Leave A Reply

Your email address will not be published.